انیلہ افضال
تیمور نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی تھی یا یوں کہیے کہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا۔ کئی دیہات پر مشتمل جاگیرداری، کئی سو مربوں کا اکلوتا وارث تھا تیمور علی۔ جہاں پاؤں رکھتا کئی ہاتھ وہاں بچھ جاتے تھے۔ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات آسمانی صحیفے کا درجہ رکھتی تھی۔ پھوپھیاں، ماسیاں اور بڑی بہن صدقے واری جاتی تھکتی نہ تھیں۔ انہی نوابی ٹھاٹھوں میں 5سال گزر گئے تو تیمور کو اسکول بھیجنے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ پھوپھی کا کہنا تھا کوئی ضرورت نہیں اسکول بھیجنے کی اس نے کون سا کسی کی نوکری کرنی ہے۔ بس مولوی صاحب سے کہہ دو کہ گھر آ کر قرآن شریف کا درس دے دیا کریں اور تھوڑا بہت ماسٹر جی گھر آ کر لکھت پڑھت سکھا دیں، بس کل کو زمینوں کے حساب کتاب دیکھنے میں آسانی ہوگی۔ ہاں !اور کیا دادی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
چوہدری مراد کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ اوئے نہیں! وہ گرجا۔ میرا پتر اسکول بھی جائے گا اور اس کے بعد کالج بھی جائے گا۔ تعلیم بہت ضروری ہو گئی ہے آج کل۔ اس نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا ۔ اوئے کل کلاں کو الیکشن بھی تو اسی نے لڑنا ہے ۔ سنا ہے بی۔ اے تک کی تعلیم لازمی کر دی ہے انہوں نے۔ کچھ ہی سالوں کی بات ہے میں وزیر بنا دینا ہے اپنے پتر کو۔ ادھر تقدیر نے تیمور کے لیے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ پانچ جماعتیں گاؤں کے اسکول میں پڑھنے کے بعد اسے شہر کے وڈے اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ جیسے وقت گزرتا گیا تیمور پر تقدیر کا رنگ بڑھنے لگا تھا۔ اس کے دل فوج میں جانے کی خواہش بیدار ہونے لگی تھی۔ دسویں کا امتحان پاس کر کے جونہی کالج میں قدم رکھا اس نے چوہدری مراد سے اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا۔
اوئے نہیں اوئے پتر ! ان جاگیروں اور زمینوں کو ہم نے آگ لگانی ہے۔ جو تو فوج میں جانے کی بات کر رہا ہے۔ مگر ابا جی! میں اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ تو اسی کا بندوبست کر رہا ہوں پتر! یہ کروڑوں روپے پارٹی فنڈ میں کیوں دیتا ہوں؟ اسی لیے نا کہ کل کو تو وزیر بن کر ملک کی خدمت کر سکے۔ چوہدری مراد نے پتا پھینکا۔تیمور خاموش رہا مگر دل میں اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ فوج میں ضرور بھرتی ہو گا۔ کالج کے 2سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ انہی دنوں فوج کی بھرتیاں کھلی تھیں تیمور نے دوستوں کے ساتھ وہاں اپلائی کر دیا۔ چند ہی دنوں میں وہاں سے کال آ گئی۔ فوج کے مشکل ٹیسٹ پاس کرتا ہوا تیمور فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ چوہدری مراد نے بڑی چیخ پکار کی مگر تیمور ٹس سے مس نا ہوا۔ تیمور نے ٹریننگ کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور فوج میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے وہ آرمی انٹیلیجنس میں شامل ہوگیا۔
چوہدری مراد کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور تیمور کی شادی کا ارادہ کیا۔ تیمور نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا، مجھے شہادت کی آرزو ہے جو آج نہیں تو کل میرا مقدر بنے گی۔ میں کیوں کسی کی زندگی خراب کروں مگر اب تو ماں نے بھی ہاتھ جوڑ دیے تھے۔دیکھ پتر! تو نے جو چاہا وہ کیا ، میں نے کچھ نہیں کہا۔ پتر میرے بھی کچھ ارمان ہیں تجھ سے۔ تو حویلی کا آرام چھوڑ کر فوج میں مشقت کی زندگی گزار رہا ہے، ریشمی بسترے چھوڑ کر پتھروں پر سوتا ہے، میرا دل دکھتا ہے پر چل ،تیری خوشی! مگر پتر تو بھی تو میری خوشی کا سوچ۔وہ ماں کو انکار نہ کرسکا اور یوں حریم اس کی زندگی میں چلی آئی۔ وقت کو بھی جانے کس بات کی جلدی تھی کہ 3سالوں میں ہی اوپر تلے 2بیٹے اور ایک بیٹی سے نواز دیا۔ بس اس کے بعد حریم کے نصیب میں نہ تھا کہ اپنے سرتاج کو دیکھ سکتی، اس سے بات کرتی ، اس سے اپنی دلی کیفیات بیان کر پاتی۔
تیمور کو ایک خفیہ مشن کے لیے چن لیا گیا۔ اسے غیر علاقے میں جاکر دشمن کے نیٹ ورک کا پتا چلانا تھا۔ یہ آسان کام نہ تھا، کیپٹن تیمور بھیس بدل کر علاقہ غیر جا پہنچا۔ وہ ایک مجذوب کے روپ میں تھا۔ پھٹے ہوئے گندے کپڑے، پیروں سے ننگا ، جسم پر میل کی پپڑیاں جم گئی تھیں۔ تپتی دوپہریں ہوں یا ٹھٹھرتی راتیں کالی سڑکیں ہی اس کا ٹھکانا تھیں وہ جس کی حویلی سے سیاستدان لاکھوں کی مدد پاتے تھے جہاں سے ہر رمضان میں نہ صرف اپنے پنڈ بلکہ ارد گرد کے پنڈوں میں بھی راشن تقسیم کیا جاتا تھا۔ جس کے گھر سے ہر سردی میں غریبوں میں لحاف تقسیم ہوتے تھے۔ وہ بھوکا، گندا کبھی تپتی ،تو کبھی ٹھٹھرتی سڑک پر دن کاٹ رہا تھا کیوں؟ یہ ہی تو اس کا مقصد حیات تھا کہ وہ کچھ بڑا کر سکے۔
بالآخر 2 سال کی محنت شاقہ کے بعد وہ دشمن نیٹ ورک کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ سارا پلان سامنے تھا دشمن جاسوس گرفتار ہوچکے تھے۔ مگر تیمور کو ابھی بھی سکون نہ تھا اسے لگتا تھا کہ قدرت ابھی اس سے اور بھی کوئی کام لینا چاہتی ہے اور وہی ہوا تیمور کی بہترین کارکردگی کے باعث اسے ایک عظیم مقصد کے لیے چن لیا گیا تھا۔ اسے اب دشمن کے ملک میں گھس کر اس کے عزائم کا نہ صرف پردہ فاش کرنا تھا بلکہ اس کے خلاف بھر پور کاروائیاں بھی کرنی تھیں۔ اس کام کے لیے اسے پہلے سے بھی بڑی قربانی دینی تھی۔ اسے ایک دہشت گرد کارروائی میں شہید ڈکلیئر کر دیا گیا۔ پورے پروٹوکول کے ساتھ اس کی لاش اس کے آبائی گاؤں پہنچائی گئی اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اسے دفن کر دیا گیا۔ کیپٹن تیمور شہید ہو چکا تھا۔
حریم 29 سال کی جواں عمری میں بیوہ ہو چکی تھی اور اس کے بچے باپ کے زندہ ہوتے ہوئے یتیم ہوگئے تھے مگر تیمور کا مقصد ان سب چیزوں سے بہت بلند تھا۔ وہ اپنے گھر والوںکے لیے مر چکا تھا مگر وہ ایک نئے نام اور نئی پہچان کے ساتھ نئے مشن پر کام کر رہا تھا ، اس کے بعد شاید کوئی اور نئی پہچان اور کوئی اور نیا مشن ہوگا یا شاید وہ کسی دن کسی گمنام گولی کا شکار ہو جائے گا یا کہیں دشمن کے قبضے میں تشدد سہتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دے گا۔ نہ جانے کفن اس کا مقدر بنے گا یا اس کی لاش کہیں کوڑے پر سڑتی ہوئی ملے گی۔ یہ سب کیوں؟ اس ملک کی بقا کے لیے، اس قوم کی عظمت کے لیے، جہاں کسی کو اس بات کا احساس تک نہ ہو گا کہ کوئی ان کے لیے اپنا سکون ، اپنا گھر بار، بیوی بچے تک چھوڑ چکا ہے ، اپنے خاندان سے منہ موڑ چکا ہے،اپنی پہچان کھو چکا ہے۔
امتحان
مدیحہ صدیقی