اہل مکہ کا چیلنج

666

سید مہرالدین افضل
سورَۃ الاَنفَال کے مَضامین کا خلاصہ
تاریخی پس منظر/ ساتواں حصہ
تمام مظالم ، جبر اور مہاجرین سے لوٹ مار کے باوجود، جب قریش کو ہجرت سے روکنے میں نا کامی ہوئی تو انھوں نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبیّ کو (جسے ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کر چکے تھے اور جس کی تمنائوں پر حضور ؐ کے مدینہ پہنچ جانے اور اَوس و خزرَج کی اکثریت کے مسلمان ہو جانے سے پانی پِھر چکا تھا) خط لکھا کہ ’’تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اسے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔‘‘ عبداللہ بن اُبیّ اس پر کچھ آمادۂ شر ہوا، (اس نے اپنے ہم نوائوں کو اس پر عمل درآمد کے لیے جمع کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم خبر ملتے ہی وہاں پہنچ گئے ، اور آپؐ نے ان سے کہا کہ جنگ تو تمہیں ہر حال میں کرنی ہو گی اگر تم ہم سے لڑو گے تو تمہارے سامنے تمہارے ہی بھائی بند ہوں گے جبکہ دوسری صورت میں ہم سب مل کر حملہ کرنے والوں سے اپنا دفاع کریں گے، فیصلہ تمہارے اوپر ہے‘ خوب اچھی طرح سوچ لو۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بر وقت اس کے شر کی روک تھام کر دی۔) اسی دوران ایک اور اہم واقعہ گزر گیا۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ رئیسِ مدینہ عُمرے کے لیے مکہ گئے۔ وہاں ٹھیک حرم کے دروازے پر ابو جہل نے ان کو ٹوک کر کہا ’’تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھر و اور ہم تمہیں اطمینان سے مکہ میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم اُمَیّہ بن خَلَف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔‘‘ یہ گویا اہلِ مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے۔
ریاستِ مدینہ کی جوابی حکمتِ عملی:
سعد رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا (واللہ اگر تم نے مجھے اِس چیز سے روکا تو میں تمہیں اُس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری راہ گزر) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا یہ جواب اہلِ مدینہ کی طرف سے تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفینِ اسلام کے لیے خطر ے سے خالی نہیں ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اُس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل‘ جن کا مفاد اس راستے سے وابستہ تھا‘ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی دشمنی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔ اسی لیے مدینہ پہنچتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نو خیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطرافِ مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے میں حضورؐ نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔ ایک یہ کہ مدینہ اور ساحلِ بحرِ احمر کے درمیان اس شاہراہ سے جڑے ہوئے جو قبائل آباد تھے اُن کے ساتھ سفارت کاری شروع کی اور تجویز پیش کی کہ اگر تم پر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو ہم تمہارے ساتھ مل کر تمہارا دفاع کریں گے۔ اسی طرح اگر ہم پر کوئی حملہ کرے گا تو تم ہمارے ساتھ مل کر ہمارا دفاع کرو گے۔ اس وقت کے حالات کو غور سے دیکھیے! وہاں تو قبیلوں کے درمیان معاہدے لوٹ مار اور غارت گری کے لیے ہوتے تھے، یہ انوکھی پیش کش تھی کہ آئو ہم سب مل کر غارت گروں سے اپنا دفاع کریں۔ اس خوب صورت اور دل کو لگنے والی پیش کش کو اکثر اہم قبائل نے قبول کیا۔ جنہوں نے قبول نہیں کیا اُن سے یہ معاہدہ ہوا کہ کم از کم وہ دوران جنگ کسی کی طرف سے شامل نہ ہوں۔ اس سفارت کاری میں آپؐ کو پوری کامیابی ہوئی اور اہم قبائل سے وفاعی معاونت(Defensive alliance) کا معاہدہ ہوا اور پھر تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں اسلام کے حامیوں اور پیروئوں کا بھی ایک اچھا خاصا عنصر پیدا کر دیا۔
دوسری تدبیر آپ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے لیے اس شاہراہ پر ایک کے بعد ایک چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اور بعض دستوں کے ساتھ آپؐ خود بھی تشریف لے گئے۔ ان دستوں کے سرحدی گشت کی دو خصوصیات بہت واضح اور قابل غور ہیں ایک یہ کہ ان میں سے کسی میں نہ تو کوئی قتل ہوا اور نہ ہی کوئی قافلہ لوٹا گیا، جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد قریش کو ہوا کا رُخ بتانا تھا تاکہ وہ کسی مہم جوئی سے رک جائیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں سے کسی مہم میں بھی حضور ؐ نے اہل مدینہ کا کوئی آدمی نہیں لیا بلکہ تمام دستے خالص مکی مہاجرین سے ہی مرتب فرماتے رہے تاکہ حتیٰ الامکان یہ کش مکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں تک محدود رہے اور دوسرے قبیلوں کے اس میں اُلجھنے سے آگ پھیل نہ جائے۔ دوسری طرف قریش کی کوشش اس سلسلے میں یہ رہی کہ دوسرے قبیلوں کو بھی اس کش مکش میں اُلجھا دیں اور یہ کہ انہوں نے بات کو صرف دھمکی تک محدود نہ رکھا بلکہ لوٹ مار تک نوبت پہنچا دی۔ ان کے ایک دستے نے کُر زبن جابر الفہری کی قیادت میں عین مدینہ کے قریب ڈاکا مارا اور اہلِ مدینہ کے مویشی لوٹ لیے۔
غزوۂ بدر کا نقطۂ آغاز:
شعبان سن 2 ہجری(فروری یا مارچ 23ء) میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ، جس کے ساتھ تقریباً 50 ہزاراشرفی کا مال تھا اور تیس، چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے، شام سے مکے کی طرف پلٹتے ہوئے اُس علاقے میں پہنچا جو مدینے کی زد میں تھا۔ چوں کہ مال زیادہ تھا، محافظ کم تھے اور سابق حالات کی بنا پر خطرہ قوی تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقت ور دستہ اس پر چھاپہ نہ ماردے، اس لیے سردارِ قافلہ ابو سفیان نے اس پُر خطر علاقے میں پہنچتے ہی ایک آدمی کو مکے کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اُس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے پرانے طریقے کے مطابق اپنے اونٹ کے کان کاٹے، اس کی ناک چیر دی، کجاوے کو اُلٹ کر رکھ دیا اور اپنی قمیص آگے پیچھے سے پھاڑ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ ’’قریش والو! اپنے قافلۂ تجارت کی خبر لو، تمہارے مال‘ جو ابو سفیان کے ساتھ ہیں، محمد ؐ اپنے آدمی لے کر ان کے در پے ہو گیا ہے، مجھے اُمید نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے، دوڑو دوڑو مدد کے لیے۔‘‘ اس پر سارے مکے میں جنگی جنون پھیل گیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ تقریباً ایک ہزار جنگی جنونی مرد‘ جن میں سے 600 لوہے کا حفاظتی لباس پہنے ہوئے تھے اور جن میں 100 غارت گر گُھڑ سواروں کا دستہ بھی تھا‘ پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لیے چلے۔ یہ صرف اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نہیں چلے تھے بلکہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں اور مدینے میں یہ مخالف طاقت جو ابھی نئی نئی مجتمع ہونی شروع ہوئی ہے‘ اُسے کچل ڈالیں اور اس کے قریب کے قبیلوں پر اپنی دہشت بٹھا دیں تاکہ آئندہ کے لیے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہو جائے۔
دلیرانہ اقدام کا وقت:
اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، جو حالات سے ہمیشہ باخبر رہتے تھے، محسوس فرمایا کہ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے کہ اگر کوئی دلیرانہ اقدام نہ کیا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہو جائے گی اور کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ اس تحریک کے لیے پھر سر اُٹھانے کا کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔صورت حال یہ تھی کہ آپ ؐ کو ابھی مدینہ میں آئے دوسال بھی نہیں ہو ئے تھے۔ مہاجرین بے سروسامان تھے، انصار ابھی آزمائے نہیں گئے تھے، یہودی قبائل مخالفت پر آمادہ تھے، خود مدینے میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقت ور فیکٹر موجود تھا، آس پاس کے تمام قبائل قریش کے رعب میں تھے اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی تھے۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینے پر حملہ کر دیں تو ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کا خاتمہ ہو جائے اور اگر وہ حملہ نہ بھی کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی مسلمانوں کی ایسی ہوا اُکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ اُن پر دلیر ہو جائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینے کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اُٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کر دیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب واثر نہ ہوگا اور کسی کو ان کی جان، مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں کوئی روک نہ ہو گا۔ اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت حاصل ہے‘ اُسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے۔ (دیکھیے دیباچہ سورۃ الانفال) (جاری ہے)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین ۔ وآخر دعوانا ان لحمدللہ رب العالمین۔

حصہ