تنویر اللہ خان
جیسے ہی ربیع الاول کا چاند نظر آتا ہے سواد اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور کچھ لوگ یہ سوال بھی کھڑا کرتے ہیں کہ، یہ کیسی عید ہے؟ کیا خود رسول اللہ نے کبھی یہ عید منائی تھی؟کیا یہ عید صحابہ نے منائی تھی؟ ابوبکر صدیقؓ جن کو محمدؐ اپنا محسن کہتے تھے ان کی زندگی میں کتنی ہی بار یہ دن آیا کیا اُنھوں نے اسے عید کی طرح منایا تھا؟ حضرت عمرفاروقؓ جن کی تائید بارہا اللہ نے بھی کی کیا وہ ربیع الاول کو عید سمجھتے تھے؟ اسی طرح حضرت عثمانؓ نے اس دن کو عید سمجھ کر معمول سے زیادہ مال خرچ کیا تھا ؟ کیا نبیؐ کی داماد نے اس دن کی کوئی فضلیت بیان کی ہے اور کیا آل رسولؐ نے یہ دن عید کے طور منایا تھا لہٰذا جب ایسی کسی عید کا ثبوت نہیں ملتا تو پھر یہ بدعت ہی ہوئی۔
ان باریک باتوں کا جواب تو مجھ جیسا کم عمل، کم علم نہیں دے سکتا میں تو اتنا ہی جانتا ہوں کہ میرا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک میں اپنے ماں باپ، اپنی بیوی اور اولاد، اپنے مال اور اپنی جان سے زیادہ رسول اللہ سے محبت نہ کروں۔
ہم اپنی عام زندگی میں اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے اپنے ماں باپ کے لیے اپنے دوستوں کے لیے بہت سی خوشیاں مناتے ہیں، شادی، بیاہ اور دیگر تقریبات کرتے ہیں اس موقع پر ہم نہ احادیث کی کتابیں کھولتے ہیں نہ صحابہ کی زندگیوں کے شب روز کو دلیل بناتے ہیں نہ محمدؐ کا اسوہ حسنہ دیکھتے ہیں بغیر سوچے سجمھے بدعت اور توحید کا حساب کتاب لگائے بغیر جو جی میں آتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں، اس طرح کرنے سے نہ ہمارا ایمان خطرے میں پڑتا ہے نہ کسی فتوے کی ہمیں پروا ہوتی ہے، یہ ساری باتیں، دلیلیں، تاریخی شواہد، فتوے، سلف صالحین کی زندگی ہمیں ربیع الاول میں ہی یاد آتے ہیں، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔
مجھے تو اس دن خوشی بھی ہوتی ہے، اور خوش ہونے کا دل بھی چاہتا ہے، ذہن بھی آمادہ ہوتا ہے کہ یہ خوشی کا دن ہے اسے عید کی طرح ہی منانا چاہیے۔
یہی وہ دن ہے جس دن یہ بتانے والا آیا کہ حق کیا ہے باطل کیا ہے جس دن یہ بتانے والا آیا کہ اللہ ہی ہے جو کائنات کا خالق اور ربّ ہے، اس دن آنے والے نے ہمیں اپنے ربّ کی شناخت کروائی اس دن آنے والے کے ذریعے ہمیں قرآن نصیب ہوا، اس دن آنے والے نے ہمیں دوزخ سے بچنے کا طریقہ بتایا جنت پانے کا راستہ سجھایا، آج کی ساری عیدیں تو ہمیں اسی کی بدولت نصیب ہوئیں ہیں لہٰذا یہ دن تمام عیدوں کا بھی سردار ہوا، اسی روز آنے والے نے ہمیں بتایا کہ شکر کیا ہے، کفر کیا ہے، بدعت کیا ہے، توحید کیا ہے، ماں باپ کیا ہیں، بیوی بچے کیا ہیں، رشتے کیا ہیں اور ان سے کیسے برتا جائے۔
اسی لیے ہمیں یہ دن عید محسوس ہوتا ہے اللہ نے جس دن اپنے حبیب کو دنیا میں بھیجا ہوگا اس دن تو وہ بھی خوش ہو گا، اپنی رضا سے اُس نے اپنے بندے کو انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا ہوگا لہٰذا اس دن کو عید کہنے میں اور عید کی طرح منالینے میں کیا قباحت ہے؟
خالقِ کائنات نے رحمت العالمین محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کونرم خُو قراردیا، آپؐ انسانوں کو جوڑنے والے، قصورواروں کو معاف کرنے والے، غلطیوں پر درگزر کرنے والے، فتح پر بھی مفتوحین کو پناہ دینے والے، جان کے دشمنوں کو سینے سے لگانے والے تھے۔
آپؐ کی انسانوں سے محبت کا کیا ٹھکانہ! جس نے ساری زندگی آپؐ کو اذیت دی آپؐ نے اُس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دی، آپؐ کی اگر کفار سے دشمنی تھی تو اُس کی وجہ بھی اللہ کا حکم تھا، آپؐ سب کو اپنے ساتھ جنت میں لے کر جانا چاہتے تھے اسی لیے وہ انسانوں کو جنت کے مالک کی نافرمانی سے روکتے تھے۔
آپؐ بچوں کے دوست تھے، جب کبھی آپؐ کے پاس موسم کا پہلا پھل آتا تو اسے بچوں میں تقسیم کردیتے، آپؐ راستہ چلتے سامنے آنے والے مرد عورت اور بچوں کو سلام کرتے تھے، ایک دفعہ آپؐ اپنے نواسے حسنؐ کو محبت سے چوم رہے تھے اس موقع پر موجود ایک صحابی نے حیران ہوکر کہا یا رسولؐ اللہ میرے دس بچے ہیں لیکن میں تو کبھی اُن کو پیار نہیں کرتا آپؐ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
آپؐ خواتین کے محسن تھے، تمام انسانوں پرآپؐ کے احسانات ہیں لیکن عورتوں کے لیے آپؐ کی ذات شجر سایہ دار کی سی ہے آپؐ نے عورت کو اللہ کی طرف سے دیا جانے والا مقام دیا، یہودی عورت کو جنت سے نکلوانے کا الزام دیتے تھے، وہ عورت کو سبب گُناہ اور ترغیبِ گُناہ کا ذریعہ قرار دیتے تھے، عیسائی بھی عورت کو شیطان کا آلہ کار اور مصیبت کا دروازہ قرار دیتے تھے عورت سے تعلق کو تقویٰ کے خلاف اور اُس سے دوری کو خدا ترسی سمجھتے تھے، یونانی، رومی، چینی، ہندو تہذیب میں عورت ہر قسم کے قانونی اور معاشرتی حقوق سے محروم تھی اور مرد کے تسلط میں زندگی گُزرانے پر مجبور تھی، آپؐ نے عورت کو اعزاز اور اکرام سے نوازا اور مختلف حوالوں سے عورت کومرد سے بلند مقام عطا کیا، اسلام عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں کرتا ’’جو بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘‘(القرآن)۔
نکاح کے لیے عورت کو رضا مندی کا حق دیا، فرؐمایا ’’ دنیا ساری کی ساری متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے‘‘
یورپ نے عورت کو حق ملکیت، حق وراثت 17 ویں صدی میں دیا جبکہ اسلام نے عورت کو یہ حقوق 7 ویں صدی میں دے دیے تھے، آپ نے عورت کو معاشی ذمہ داری سے آزاد کیا، باجماعت اور نمازِ جمعہ سے رخصت دی، عورت کوعبادات میں نرمی دی، فوجداری مقدمات میں خطرہ ہونے کی وجہ سے عورت کی گواہی کو محدود کیا، آپؐ اپنی رضاعی ماں سعدیہ حلیمہ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے اور اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے تھے، آپؐ خدیجہؓ کے ایثار صدق کا ذکر کرتے تھے اہم معاملات میں ان سے مشورہ کرتے تھے، عائشہؓ کو عزیز رکھتے تھے، زینبؓ کی دین داری کی قدر کرتے تھے، آپؐ گھر کے کاموں میں اپنی ازواج کا ہاتھ بٹاتے تھے، آپؓ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کے بارے میں فرمایا ’’فاطمہ میرا ایک ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا‘‘ جب فاطمہؓ آتیں تو آپؐ کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے اُنھیں بوسہ دیتے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشت بیٹھاتے تھے، جب سفر کو جاتے تو سب سے آخر میں فاطمہؓ سے رخصت ہوتے اور واپسی پر سب سے پہلے اُن سے ملتے تھے۔
آپؐ جانوروں پر بھی مہربان تھے، چرند، پرند، درندوں، درختوں کے لیے آپؐ رحمت ہیں، آپؐ نے فرمایا سواریوں کو اپنا نشت گاہ نہ بنایا کرو کہ اُن کے اُوپر ہی بیٹھ کر باتیں کرتے رہو، ایک دفعہ رسولؐ گدھے پر سواری کررہے تھے گدھے نے آپؐ کوگرا دیا آپؐ نے اُسے مارنے کے بجائے اُسے دلاسا دیا اور خوب مسکرائے، فرمایا جانورں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اُن کا حق ادا کرو، سفر میں اُنھیں بھی آرام کا موقع دو اور جب دورانِ سفر سبزہ آئے تو اُنھیں بھی چرنے چگنے کا موقع دیا کرو، جانوروں کو نشانہ بازی کی تربیت کے لیے ھدف نہ بناو، اُنھیں گرم لوہے سے نہ داغو، اُن کے چہرے پر نہ مارو۔
ایسے محسن کے آنے پر خوش نہ ہوا جائے تو پھر کیا کیا جائے؟ دوسرا منظر ملاحظہ کیجیے یہ دن آئے اور ناقابل ذکر ہوکر گُزرجائے تو کیا یہ محسن کشی نہ ہوگی؟۔