نون۔الف
ہم نے اپنے مضامین میں بارہا اس جانب اشارہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی گود لی ہوئی حکومت کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہے۔ انتخابات سے قبل ہی میڈیا میں عمران خان مخالف دینی جماعتوں کے رہنما اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ”مقتدرہ قوتیں” یہ طے کر چکی ہیں کہ کسی بھی طور سے عمران خان کی حکومت بنوائی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ قد آور مذہبی شخصیا ت پارلیمنٹ میں نہ آنے پائیں۔
اور ابھی عمران خان کی عمرانی حکومت کو نوے دن ہی ہوئے ہیں کہ وہ تمام بنیادی اصول جن کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی بنیادیں قائم ہیں، پارلیمنٹ کے اندر اور سیکولر زبانوں سے میڈیا میں لاؤنچ کر دیے گئے۔
کسی بھی ریاست کی قدروں کو جانچنے تندلی یا استحکام کا اندازہ چار بنیادی چیزوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
1۔ریاست کی نظریاتی بنیادیں ، 2۔ سماجیات۔3۔ اقتصادیات۔4۔ عدلیہ اور فوری انصاف
ریاست اور مملکت پاکستان کی تنزلی کااندازہ لگا نے کے لئے کسی بہت بڑی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ان چار عوامل کا جائزہ لینے سے ہی کوئی بھی ذی شعور آسانی سے رائے قائم کرسکتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟
1…ریاست کی نظریاتی بنیادیں:
ہماری مملکت کی بنیادی اساس کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر مملکت پاکستان وجود میں آئی۔ اسی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور داخلی پالیسی اور قانون کو وضح کیا گیا۔
اور اس بنیادی نظریاتی اساس ہی کی بنیاد پر مملکت کے نظام کو چلانے کے لئے دستوری شیلٹر فراہم کیا گیا۔ الحمدللہ ایک طویل اسلامی دستوری جدوجہد کے بعد اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ جس کی رو سے پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے طور پر جانا پہچانا گیا۔ دنیا بھر میں صرف دو ہی ممالک ایسے ہیں جن کی بنیاد خالصتاً مذہبی نظریے کی بنیاد پر رکھی گئی۔ جن میں ایک پاکستان ہے اور دوسرا “اسرائیل”!
یہ ہماری نظریاتی اساس ہی کی بنیاد پر ممکن ہوا تھا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل عین اس وقت جب دوسری طرف سرزمین فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کو قیام بخشنے کی برطانوی سازش تکمیل کو پہنچ رہی تھی، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ”برصغیر کے مسلمان ہر گز یہ قبول نہیں کریں گے کہ فلسطین اور اس کے عوام کے ساتھ برطانوی سامراج اتنی بڑی خیانت کرے کہ جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں ارض مقدس فلسطین پر ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود بخشنا چاہتا ہے ہم کسی طور قبول نہیں کریں گے۔ برصغیر کے مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ احتجاج کریں گے اور ہر ممکنہ اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے وہ نظریات و افکار ہیں کہ جن کا ذکر انہوں نے مفتی اعظم فلسطین کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کیا اور برطانوی سامراج کو متنبہ کرتے ہوئے لکھے گئے خطوط میں بھی بارہا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں قائداعظم کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اصول طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دیں گے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قائداعظم نے فلسطین پر ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھا اور تا حال پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں یہاں تک کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح تحریر کیا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ دنیا بھر میں کارآمد ہے جبکہ اسرائیل کے لئے نہیں۔
لیکن افسوس کہ اس بنیادی اساس کی اینٹیں ہٹانے اور کمزور کرنے کی ابتدا شروع کردی گئی ہے۔
اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے اور پاکستانی آئین کے حوالے سے “قادیانیوں” کو مسلم یا مسلم اقلیت کے طور ماننے اور آئین میں ترامیم کی کوششیں کی جارہی ہیں، کبھی دھوکہ دہی سے اور کبھی وزیر بنا کر، اور پھر جب مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو وزیراعظم کی جانب سے “لاعلمی کی بنیاد” پر کہہ کر جان چھڑائی گئی۔
تازہ ترین واردات تحریک انصاف کی خاتون ایم این اے عاصمہ حدید جو مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوکر حکومت میں شامل ہوئیں ان کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر انتہائی شرمناک تقریر سامنے آئی۔ جس میں موصوفہ نے اسرائیل اور یہودیوں کی شان میں قصیدے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی کم علمی کے جھنڈے بھی گاڑے۔
ان کی تقریر کے چار بنیادی نکات اس طرح ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کر لیا جائے اور اس سے دوستی کی جائے، ان سے نفرت و دشمنی کے سخت رویے ختم کیے جا ئیں۔ اس پر اس نے جو دلائل پیش کیے وہ اس طرح ہیں کہ اللہ کے حکم سے نبی کریم نے یہودیوں سے دوستی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کے لیے قبلہ تبدیل کیا۔
دوسری دلیل یہ دی کہ ہمارے نبی اور حضرت علی دونوں کا فرمان ہے کہ دشمن کو دوست بنالو (یہاں دشمن سے مراد یہودی ہیں)
تیسری بھونڈی دلیل اور بہتان یہ لگایا کہ ہمارے نبی کریم کا تعلق بھی اس نسل سے ہے جس سے بنی اسرائیل (یہودی) ہیں۔
اپنی تقریر کے آخر موصوفہ فرما رہی ہیں کہ ہم یہود و نصاری سے نفرت و دشمنی کس طرح رکھ سکتے ہیں جبکہ ہم اپنی نمازوں میں یہودیوں کو دعائیں دیتے ہیں، کیونکہ درود ابراہیمی میں آل ابراہیم پر درود اور سلامتی بھیجی گئی ہے اس طرح آلِ ابراہیم میں یہود و نصاری بھی آتے ہیں۔
اندازہ لگائیں کہ کس طرح سے اسلام کے بنیادی عقیدے کی دھجیاں بکھیری جاتی رہیں۔ نبی کریمؐ کے حوالے سے جھوٹ اور غلط بیان کیا جاتا رہا، یہاں تک کہ قران کریم تک میں تحریف کرکے اپنی مرضی کے مفاہیم پیدا کیے جاتے رہے اور پوری کی پوری قومی اسمبلی اس کی تقریر کو ٹھنڈے پیٹوں سنتی سر دھنتی رہی۔
اس کی تقریر نما قرارداد کے جواب میں قرآن کا یہ بیان کافی ہے کہ تحویلِ قبلہ یہود کی خوشی کے لیے نہیں، انہیں رسوا کرنے، ان سے علیحدگی کے لیے تھا، تحویل قبلہ سے یہود خوش نہیں، دکھی ہوے (سورہ البقرہ 142)
پھر قران کی یہ آیت کس بارے میں اتری کہ”اے ایمان والوں یہود و نصاری سے دوستی نہ کرو، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم (مسلمان کہلانے والوں) میں سے جو ان (یہودیوں عیسائیوں وغیرہ غیرمسلموں) سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا… (سورہ مائدہ آیت51)”
موصوفہ کی کم علمی کا عالم یہ ہے کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ رسول اکرمؐ کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں بنی اسماعیل سے ہے اور موصوفہ اپنی نمازوں میں کون سا درود پڑھتی ہیں ہمیں نہیں معلوم؟
قرآن اس حوالے سے واضح کرتا ہے کہ “ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (آل عمران آیت67)
یہ تو وہ معاملہ ہے جو اسرائیل اور یہودیوں کو خوش کرنے کے حوالے سے تھا۔
نظریاتی اساس پر ایک اور بڑا حملہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہر کچھ دن بعد قادیانیوں کو کسی نہ کسی بہانے خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس معاملے میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں۔
2…سماجیات:
اس حوالے سے پورا ملک جس افراتفری، ہیجان اور بے سکونی کی کیفیت میں ہے اس کا سب کو بخوبی اندازہ ہے۔ غریب مزدور، ریڑھی وا لا، دکان دار اور سرکاری ملازم ہر ایک کے سر پر بے یقینی اور دربدری کی تلوار لٹک رہی ہے۔
اخلاقی قدریں ملیامیٹ ہوچکی ہیں۔ میڈیا بے لگام گھوڑے کی مانند بگ ٹٹ دوڑا چلا جارہا ہے۔ جنسی بے راہ روی، بچوں بچیوں سے زیادتی، زنا، اغوا ہر حوالے سے ہم تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وزیروں کے سامان سے منشیات اور شرابیں نکل رہی ہیں، جس کو ہم کسی گنتی میں نہیں لا رہے۔
بیروزگاری، مہنگائی اور بدامنی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مدینہ کی فلاحی ریاست کا نعرہ محض مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے خاکے کو بدنام کرنے کے لیے لگایا گیاہے ۔
3…اقتصادیات:
اس کا جنازہ نکل چکا ہے ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ، پاکستانی کرنسی کا زوال، دنیا بھر میں پٹرول سستا، مگر پاکستان میں مہنگا ترین۔ حکرانوں کی شاہ خرچیاں۔
4…عدلیہ اور فوری انصاف:
اگر اس بارے میں آپ کو کوئی اچھی خبر ملے تو مجھے ضرور آگاہ کیجیے گا۔ جس ملک کے دارالحکومت میں اپنے ایس پی کا تحفظ نہیں اور اس کی لاش افغانستان سے مل رہی ہو، عالم دین کا قتل ہو اور ملزم معلوم نہیں چلتا، زمین نگل گئی یا آسمان نے اچک لیا؟
ان چار بنیادی اساس پر اگر غور کرلیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
اب سمجھ میں آرہا ہے کہ آخر پرانے پاکستان کی جگہ نیا پاکستان کا نعرہ کیوں وجود میں آیا؟
پرانے پاکستان میں قادیانی غیر مسلم تھے۔ نئے پاکستان میں مسلمان ہیں مگر اقلیت میں۔
پرانے پاکستان اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں تھا مگر نئے پاکستان میں ان سے تعلق استوار کرنے اور تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔
پرانے پاکستان میں کشمیر ہماری شہہ رگ تھا، نئے پاکستان میں کشمیر ہماری ضرورت ہی نہیں!
یاد رکھیے کہ جن عناصر نے نیا پاکستان متعارف کروانے کی سازش کی ہے انھوں نے ہی پرویز مشرف کے گلے میں روشن پاکستان کی گھنٹی بھی باندھی تھی۔
مگر دھیان رہے کہ جو مملکت کلمے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو اس کی بنیادوں کو “برتن نوے کرا لو” کی دھوکہ دہی اور ملمع کاری سے گرایا نہیں جاسکتا۔