کراچی کے لیے پانی کے جاری منصوبے

557

محمد انور

پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل حکمرانی کا تیسرا جمہوری دور گزارہی ہے۔ 2008 سے 2013 اور 2013 کے بعد 2018 تک کے دو ادوار میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سندھ خصوصاً کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیے کوئی بھی ’’ تیر نہ مارسکی‘‘ اس کے باوجود وہ 2018 کے عام انتخابات میں کسی طرح زیادہ سیٹوں سے کامیاب ہوکر صوبے کے اقتدار پر بیٹھ گئی توقع تھی بلکہ بعض لوگوں کو ہے بھی کہ یہ حکومت اس بار ضرور صوبے کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیے کوئی ہنگامی اقدامات کرے گی۔ بہرحال 3 ماہ اس نئے جمہوری دور کے بھی گزر چکے۔ مگر مسائل کے خاتمے کے لیے کوئی خبر نہیں مل سکی۔ البتہ یہ ضرور مشاہدہ میں آرہا ہے کہ ماضی کے دس سال کی طرح اس بار بھی صوبائی حکومت کراچی کے مسائل حل کرنے کے نام پر انوکھے منصوبے بنائے بیٹھی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ( پی پی پی ) کے تحت اس بار شہر کے مختلف خود مختار و حکومت کے ماتحت اداروں میں مختلف منصوبوں کو متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پی پی پی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے شعبہ فنانس سے تعلق رکھنے والے گریڈ 19 کے ایک افسر کی خدمات حاصل کرلی گئیں ہیں۔ مذکورہ افسر کو مالیاتی کرپشن میں ملوث ” روشن بزرگ ” کی پشت پناہی حاصل ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایم ڈی کا بھی چارج ہے۔ ماضی میں گریڈ 19 کے ایک انجینئر کو جونیئر گریڈ 19 میں ہونے کی وجہ سے عدالت کے حکم پر ہٹادیا گیا تھا مگر جانے کیوں اب گریڈ 19 کا نان انجینئر افسر ایم ڈی کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ واٹر بورڈ کے ایم ڈی سے ہی پی پی پروجیکٹ کے لیے کچھ ایسے کام لینے ہیں جس کی وجہ سے متعلقہ بااثر شخصیات کو یکمشت بڑی رقم ہاتھ لگ سکے ۔کچھ عرصے قبل تک تو یہ اطلاع افواہ لگ رہی تھی لیکن کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے جاری 65 ایم جی ڈی پروجیکٹ کے منصوبے کے کام کو اچانک روکے جانے کی خبر سے اس بات کی تصدیق ہوگئی۔
جسارت نے چند روز قبل 65 ایم جی ڈی اضافی پانی کے منصوبے کو روکے جانے کا انکشاف کیا تھا۔ خبر کے مطابق حکومت سندھ کی شہری امور میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ( کے ڈبلیو اینڈ ایس بی) جاری منصوبوں کو جلد سے جلد مکمل کرنے کے بجائے انہیں ختم کرنے کے لیے ہے۔ سرکاری ذرائع نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے ایم ڈی واٹر بورڈ نے اضافی 65 ملین گیلن یومیہ پانی کے منصوبے کے لیے 10 ارب روپے لاگت کے جاری کام پر فنڈز کی ادائیگی روکنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے منصوبے پر اب تک کیے گئے اخراجات جو کہ تقریباً ایک ارب روپے ہیں ضائع ہوجائیں گے جبکہ 2014 سے اب تک کی مدت بھی بلاوجہ قرار پائے گی۔ یاد رہے کہ65 ایم جی ڈی اضافی پانی کا یہ منصوبہ دریائے سندھ سے کراچی کو ملنے والے650 ملین گیلن یومیہ پانی ہی کا حصہ تھا چونکہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے یہ پانی شہر کے لیے لیا نہیں جارہا تھا اس لیے اس پانی کو سسٹم میں شامل کرنے کے لیے 2008میں منصوبہ بندی کی گئی اس منصوبے کی باقاعدہ منظوری2014 میں ہوئی۔ پی سی ون کی منظوری کے باوجود منصوبے کے لیے کوئی عملی کام نہیں ہوسکا تھا۔ تاہم مارچ 2018 کو پی سی ون کے تحت کارروائی کرتے ہوئے پروجیکٹ کے پہلے حصے کا کام معاہدے کے تحت نیشنل لاجسٹک سیل کو دیا گیا جبکہ پروجیکٹ کے دیگر2 مراحل کے کام بھی مروجہ طریقہ کار کے تحت نجی کنٹریکٹر فرموں کو دیے گئے تھے۔ جن پر مجموعی طور پر10 سے13 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ اس مد میں این ایل سی کو 102 ملین رقم کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے اسی طرح کنسلٹنٹ فرم پر بھی کروڑوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ادارے پر غالب غیر تکنیکی ذمے داروں نے پورے منصوبے کو ختم کرکے اس 65 ایم جی ڈی پانی کے منصوبے کو ازسر نو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بنانے کی تجویز دی ہے جسے بورڈ حکام نے حکومت سندھ کی منظوری کے بغیر اپنانے پر غور شروع کر دیا۔ کیونکہ بورڈ کے سربراہ خصوصا ایم ڈی کو یقین ہے کہ حکومت اس تجویز کو منظور کرلے گی۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ منصوبہ آئندہ مزید 5 سال تک مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
لیکن جاری منصوبے کی جگہ نئے مجوزہ پروجیکٹ کو لانے کے غرض سے پروجیکٹ کے 2 درجن انجینئروں افسران اور دیگر عملے کا تبادلہ کیا جاچکا ہے۔ جس کی بظاہر وجہ یہی لگتی ہے کہ کہیں یہ انجینئرز نئے منصوبے پر اعتراضات نہ کردیں۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ فی الحال مذکورہ منصوبے پر کام رک گیا ہے کیونکہ ادارے کے ایم ڈی نے پراجیکٹ کے لیے مزید ادائیگی سے بورڈ کے محکمہ فنانس کو منع کردیا ہے۔
تاہم معلوم ہوا ہے کہ منصوبے کے لیے فنڈز کی ادائیگی روکنے کے حکم پر تمام ٹھیکیدار فرمز شدید نالاں ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے مزاحمت کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ مذکورہ منصوبے کو ختم کرنے کے حوالے سے نمائندہ جسارت نے جب ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اس منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح منصوبے پر کام جاری ہے اس سے شہریوں کو جلد خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ یاد رہے کہ اس منصوبے کو شیڈول کے تحت دسمبر2019 تک مکمل ہونا تھا۔ جسکے بعد کراچی کو اضافی65 ایم جی ڈی پانی ملنا شروع ہو جاتا۔
جبکہ دوسری طرف دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی ازسر نو تنصیب کا پراجیکٹ جو آئندہ سال جون تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس پر کام جاری ہے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ پمپنگ اسٹیشن بھی پی پی پی کے تحت کسی نجی فرم کے حوالے کردیا جائے گا۔جس کا مطلب یہی ہے کہ دھابیجی پمپ ہاوس کو بھی آئوٹ سورس کیا جارہا ہے۔
واٹر بورڈ کے جاری منصوبوں کو آوٹ سورس کرنے کی وجہ اوپر لکھی جاچکی ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ حکومت سندھ کے جاری پراجیکٹ کو تبدیل کیے جانے کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات تو ابھی صرف یہ ہے کہ کراچی کو ضرورت کے مقابلے میں یومیہ کم ازکم600 ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ شہر کو 12 سو ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے لیکن صرف 550 ایم جی ڈی پانی مل رہا ہے جس میں سے بھی 20 ملین گیلن اسٹیل مل کو دیا جاتا ہے جبکہ سو ملین گیلن ترسیل و تقسیم کے نظام میں خرابیوں کی نظر ہوجاتا ہے۔
قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ کراچی میں اضافی 260 ایم جی ڈی پانی کا منصوبہ کے فور جسے اس سال دسمبر تک مکمل ہونا تھا اب آئندہ سال دسمبر تک بھی مکمل نہیں ہونے کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ اس طرح ڈر ہے کہ شہر میں آئندہ سال پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ کوئی نیا اضافی پانی نہیں آسکے گا۔
بس سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی ان کی ضرورتوں کے مطابق فراہم نہیں کرسکتی تو پھر کیا کرسکتی ہے ؟
کے فور۔پانی کی فراہمی کا بڑا منصوبہ
کراچی کو اضافی 260 ملین گیلن یومیہ پانی کا یہ سال منصوبہ اس سال جون میں مکمل کیا جانا تھا مگر واٹر بورڈ نے کنٹریکٹر کی درخواست پر اس پروجیکٹ کی تکمیل کی مدت مارچ 2019 کردی ہے۔ اس کے باوجود خدشات ہیں کہ یہ آئندہ سال دسمبر تک بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کو 260 ایم جی ڈی کے بجائے تین سو ایم جی ڈی کا کردیا جائے تاکہ کراچی کے پانی کی ضروریات دسمبر 2019 تک پوری ہوسکے۔ چوں کہ کے فور صوبے اور وفاق کی مشترکہ فنڈنگ کے تحت بنایا جا رہا ہے اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کی دلچسپی سے یہ منصوبہ اس کی 300 ایم جی ڈی تک توسیع کے ساتھ وقت پر مکمل ہو جائے تو شہریوں کی پانی کی مشکلات کم ہوجائیں گی۔

حصہ