ڈاکٹر نثار احمد نثار
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بیاد سرشار صدیقی فن و شخصیت پر خصوصی لیکچر اور محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت اردو زبان کے معروف شاعر محمد خان ظفر نے کی۔ مہمان خصوصی پروفیسر نوشابہ صدیقی تھیں۔ اس موقع پر سرشار صدیقی فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے ظفر محمد خان نے اپنے صدارتی خطاب میں خصوصی لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ سرشار صدیقی کا اصل نام اسرار حسین محمد امان ہے‘ دسمبر 1927 کانپور میں پیدا ہوئے‘ 22 مئی 1950 کو وہ تنہا پاکستان آگئے بقول سرشار ان کے خاندان میں ان سے پہلے کوئی شاعر نہیں تھا‘ وہ فرماتے ہیں کہ ان کے ہاں شاعر ہونا سگریٹ پینے سے زیادہ جرم تھا۔ ان کی پہلی غزل 1944 میں علامہ نیاز نے نگار میں چھاپی تھی۔ اس موقع پر معروف دانش ور نوشابہ صدیقی نے کہا کہ زندگی کے حسن سے پیار اور تخلیقی فراوانی سرشار صدیقی کے ہاں جذباتی گھٹن پیدا نہیں ہونے دیتی وہ ہر وقت اپنی ذات سے مکالمے میں مصروف رہتے ہیں‘ اس سے انہیں اپنے ماحول میں گھٹن سے زیادہ نبرد آزما ہونے میں مدد ملتی ہے آپ نے اپنے اردگرد کے ادبی ماحول سے اثرات ضرور قبول کیے ہیں لیکن یہ اثرات وقتی طور پر اس کی شاعری میں ظاہر ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں ایک باطنی تحریک ہے جو اسے ہمہ وقت آگے بڑھنے کے لیے اکساتی رہتی ہے۔ سکھر سے آئے معروف شاعر سید نور رضوی نے کہا کہ سرشار صدیقی ترقی پسند فکر اور خردافروزی کے نظریات کے ساتھ منسلکہ اہل قلم انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی رہے آپ کی تخلیقات حسن و خیر کے فروغ اور مجبور و مظلوم طبقوں کی حمایت کے آفاقی رویوں سے عبارت ہے‘ آپ ادبی حلقوں میں نہ صرف شاعر بلکہ ایک ادب دوست شخصیت طور پرپہچانے جاتے ہیں۔ معروف شاعر طاہر سلیم سوز نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ سرشار صدیقی کا نام زبان پر آتے ہی دل میں عقیدت اور احترام کے ہزاروں جذبات کا ایک ایسا تلاطم ہوتا ہے اور کرشمہ دامنِ دل سی کشد کہ جا این جا است کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک لمحے کے لیے یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے کہ اس شخصیت کی بوقلمونی کے کس پہلو کو حلقہ تحریر میں لایا جائے‘ کس موضوع پر لکھا جائے اور کس کو نظر انداز کیا جائے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ آپ کے ہاں جذبے کی شدت نے محبت کو عشق کا درجہ دے کر اسے لازوال بنا دیا ہے۔ نرم خو مترنم بحروں میں غزل کہنے والا یہ شاعر اتنی آسانی سے آئے ہوئے غزل کا شکار کرتا ہے کہ خیال پر الہام کا گمان ہونے لگتا ہے۔ خیال اور لفظ کو مدم کی طرح گداختہ کرکے شعر میں ڈھالنے کا فن بھی سرشار صدیقی کی شاعری میں صاف نظر آتا ہے۔ جہاں جہاں جو شعر وارد ہوا ہے اس میں فکری وحدت ایسی ہے کہ کسی طرح کی گنجائش باقی نہیں رہتی بہت سہولت کے ساتھ کہے گئے شعروں میں بھی فکر کا ایک جہاں آباد ہو جاتا ہے۔ آپ کا شعری منظر نامہ ایک کائنات متشکل کرتا نظر آتا ہے۔ اس موقع پر ظفر محمد خان ظفر‘ سید نور رضوی‘ نوشابہ صدیقی‘ طاہر سلیم سوز‘ نجیب عمر‘ وقار زیدی‘ فیض سومرو‘ عشرت حبیب‘ آصف علی آصف‘ محمد رفیق مغل‘ محمد علی زیدی‘ صدیقی راز ایڈووکیٹ‘ تاج علی رعنا‘ فرح دیبا‘ زارا صنم‘ قمر جہاں قمر‘ اقبال سیہوانی‘ دل شاد احمد دہلوی‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ شجاع الزماں خان‘ الطاف احمد‘ اقبال رضوی‘ نثار اختر‘ جمیل ادیب سید‘ تنویر حسین سخن نے اپنا کلام سنا کر سرشار صدیقی کو خراج تحسین پیش کیا۔
کراچی پریس کلب میں غلام علی وفا کی تقریب پزیرائی
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام ایک شام غلام علی وفا کے ساتھ منائی گئی جس میں ان کی 50 سالہ ادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پروفیسر جاذب قریشی نے صدارت کی‘ ڈاکٹر عالیہ امام مہمان خصوصی تھیں۔ صاحب صدر نے کہا کہ غلام علی وفا ایک پختہ کار شاعر ہیں ان کے اشعار میں زندگی کے تجربات نظر آتے ہیں‘ ان کی شاعری کی کتاب ’’دھوپ دریا تشنگی‘‘ میں شعری محاسن کے ساتھ ساتھ رعایت لفظی کا استعمال بہت عمدہ ہے‘ ان کی شاعری سُر سنگیت اور دھنک لیے ہوئے ان کے ہاں حسن و عشق کے مضامین موجود ہیں‘ ان کے اشعار خوب صورت مضامین کا آئینہ ہے۔ ان کی پانچ دہائیوں پر پھیلی ہوئی شعری کاوش قابل تحسین ہے۔ راگ راگنیوں اور موسیقی میں گوندھا ہوا کلام اپنی شناخت رکھتا ہے اس تقریب کے مہمانان خصوصی ڈاکٹر شاہد ضمیر‘ ڈاکٹر عالیہ امام تھے‘ زیب اذکار حسین اور سخاوت علی نادر مہمانان اعزازی تھے۔ جہانگیر سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت عبدالمجید محور نے حاصل کی جبکہ ثانی سید نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ ثانی سید نے غلام علی وفا کے بارے میں کہا کہ وہ ایک سینئر شاعر ہیں اور ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں ان کے اشعار میں غزل کا روایتی اور جدید لب و لہجہ نظر آتا ہے۔ تاج علی رانا نے کہا کہ غلام علی وفا شاعری اور موسیقی کے رموز سے واقف ہیں انہوں نے فلمی گیت بھی لکھے ہیں۔ معروف گلوکارہ مہناز نے ان کا گیت گا کر اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا۔ سخاوت علی نادر نے کہا کہ غلام علی وفا ایک گوشہ نشین شاعر ہیں انہوں نے پچاس سال تک ادب کی خدمت کی لیکن ان کی پزیرائی نہیں ہوئی اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی P.R کمزور ہے۔ ان کی شاعری میں قدیم و جدید لفظیات کا سرگرم ہے۔ غنایت سے بھرپور غزلیں ان کی پہچان ہیں۔ مجید رحمانی نے کہا کہ غلام علی وفا شاعر بھی ہیں اور موسیقار بھی ہیں یہ عروض سے بھی واقف ہیں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا بھی ادبی حلقوں کا فرض ہے یہ منسکرالمزاج آدمی ہیں اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ گروہ بندیوں سے دور ہیں ان کی قائم کردہ ادبی تنظیم کورنگی میں اکثر مشاعرے ترتیب دیتی ہے۔ میں انہیں اس تقریب کے حوالے سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس پروگرام کے دیگر مقررین میں رحمن نشاط‘ رشید خاںرشید‘ ڈاکٹر شاہد ضمیر‘ انورانصاری‘ زیب اذکار حسین اور ڈاکٹر عالیہ امام شامل تھے۔ پروفیسر سید علی اوسط نے غلام علی وفا کو منظوم خراج تحسین پیش کیا اس موقع پر غلام علی وفا کو گل دستے پیش کرنے کے علاوہ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ غلام علی وفا ایک کہنہ مشق شاعر ہیں انہیں فنِ موسیقی سے بھی واقفیت ہے‘ ادبی حلقوں میں غلام علی وفا اپنی پہچان رکھتے ہیں ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی ہے‘ یہ محبتوں کے انسان ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ سید زیب اذکار حسین نے کہا کہ کراچی پریس کلن کی ادبی کمیٹی اردو زبان و ادب کی ترقی میں بے حد فعال ہے ہم اس پلیٹ فارم سے تقریب پزیرائی کا اہتمام بھی کرتے ہیں آج کی یہ محفل بھی تقریب پزیرائی ہے کہ ہم غلام علی وفا کی ادبی خدمات کا اعتراف کر رہے ہیں یہ بہت اچھی روایت ہے کہ ہم کسی شخص کی زندگی میں ہی اس کے فن و شخصیت کو خراج تحسین پیش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں ادبی پروگرام کا انعقاد اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ غلام علی وفا نے اپنا کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔
بزم یاور مہدی کی 138 ویں نشست
ممتاز براد کاسٹر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سابق سیکرٹری یاور مہدی ہر ماہ پابندی کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے کے ڈی اے آفیسر کلب کشمیر روڈ کراچی میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس مذاکرے کا عنوان تھا ’’بیرون ممالک اردو کا مستقبل‘‘ اس تقریب کے مہمان اعزازی اشفاق حسیین (کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے) نے کہا کہ انہوں نے زندگی کے چالیس برس اسی دشت کی سیاحی میں گزارے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا اردو صرف شاعری کی زبان ہے‘ بین القوامی سطح پر بھی اس زبان کو ہندی سے الگ کرکے نہیں دیکھا گیا اردو کا تنازع اسکرپٹ کا ہے اردو میں اعراب ختم کر دیے گئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ رسم الخط کا معاملہ ہے اردو اسلامی دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے اس کا مستقبل روشن ہے۔ اردو رابطے کی زبان ہے‘ پاکستان کے علاوہ بھی بہت سے ممالک میں اردو بولی جاتی ہے۔ اردو کی ترقی کے لیے ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ قمر رضی نے کہا کہ یاور مہدی نے ایسا سلسلہ شروع کیا ہے جو ہم سب کو بہت کچھ دے گا اردو بولنے والے ہمیں سنگاپور‘ ملیشیا‘ ٹوکیو میں بھی مل جاتے ہیں اور مڈل ایسٹ کی ریاستوں میں بھی اردو موجود ہے۔ اردو وسعت پزیر ہے انحطاط پزیر نہیں۔ محمود شام نے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن بھارت میں اس پر زیادہ کام ہو رہا ہے۔ صدر تقریب پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ کل صحافت ادب کی گود میں تھی اب ادب صحافت کی گود میں ہے زبان کا بیانیہ مختلف ہوتا ہے پاکستانیوں کو بیانیہ کی طرف آنا چاہیے ورنہ ہم ترقی نہیں کریں گے ہم کب تک دوسروں کے بیانیہ پر عمل کریں گے ہمارا قومی تشخص ہمارے بیانیہ سے مشروط ہے۔ اس پروگرام کے ناظم ندیم ہاشمی تھے جب کہ عزیز الدین خاکی نے تلاوت کلام پاک اور نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔
بزم تقدیس ادب پاکستان کا نعتیہ مشاعرہ
ربیع الاوّل کا مہینہ اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس مبارک مہینے میں ہم عید میلاد النبیؐ مناتے ہیں‘ نعتیہ مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اسی تناظر میں بزمِ تقدیس ادب پاکستان کے زیراہتمام ایک نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت سہیل غازی پوری نے کی۔ ساجد رضوی مہمان خصوصی تھے۔ قمر وارثی اور اختر سعیدی مہمانانِ اعزازی تھے‘ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمانانِ اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے نعتیں پیش کیں ان میں سید آصف رضا رضوی‘ انورانصاری‘ سید علی اوسط جعفری‘ سید فیاض علی فیاض‘ عبیداللہ ساگر‘ شوکت اللہ خان جوہر‘ اکرام الحق اورنگ‘ خلیل احمد ایڈووکیٹ‘ انور جاوید ہاشمی‘ طاہر سلطانی‘ حامد علی سید‘ سراج الدین سراج‘ جمال احمد جمال‘ رشید خان رشید‘ عبدالمجید محور‘ ذاکر عادل‘ آسی سلطانی‘ نعیم انصاری‘ عتیق الرحمن عتیق‘ سلیم عکاس‘ انیس جعفری‘ شاہد اقبال شاہد‘ اسد قریشی‘ تنویر سخن‘ اکرم رازی‘ ضیا حیدر زیدی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ آغا ذیشان‘ عقیل احمد عباسی‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ محمد چاند‘ طالب احمد اور دیگر شامل تھے۔
احمد سعید خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نعت نگاری ہمارے دین میں کارِ ثواب ہے لیکن نعت لکھنا بہت دشوار طلب کام ہے کیونکہ یہ وہ صنف سخن ہے جس میں غلو کی گنجائش نہیں۔ نعت لکھتے وقت دل و دماغ کو حاضر رکھنا پڑتا ہے۔ نعت میں حمدیہ مضامین بیان نہیں ہوسکتے۔ نعت کا مرکز و محور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔؎
صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ نعت گوئی کا آغاز رسالت مآب حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ ذکر رسول عین عبادت ہے جب تک ہم نعتیہ محفل میں بیٹھے رہتے ہیں ہم پر رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ عشقِ رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی جو لوگ نعتیہ محافل سجاتے ہیں وہ قابل ستائش ہیں کہ اس طرح تعلیماتِ رسولؐ کی ترویج و ترقی ہو رہی ہے۔