محبت اُن جوانوں سے ہے

3262

عالیہ عثمان
۔9 سالہ حذیفہ کی آواز مستقل میرے کانوں میں رَس گھول رہی تھی۔ وہ علامہ اقبال کی مختلف نظموں کے شعر لہک لہک کر پڑھ رہا تھا۔ پھر وہ میرے پاس آگیا ’’نانو میں نے آج بہت پیارا شعر یاد کیا ہے، سنائوں آپ کو :

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘‘

خیر وہ علامہ اقبال کا دیوانہ بچہ علامہ اقبال کے بارے میں ڈھیروں سوال کرکے ذہنی طور پر تھوڑا سیراب ہوکر اپنے کھیلوں میں مگن ہوگیا۔ اب سوچنے کی باری ہماری تھی۔ سوچوں کے در وا ہوئے۔ اے اقبالؒ! آج تیری قوم تیرا قومی دن ڈری اور سہمی ہوئی جمہوری حکومت کے سائے میں شان و شوکت کے بغیر منا رہی ہے۔ تُو نے انہیں مملکتِ خداداد پاکستان کا تصور دیا اور قائداعظم جیسے عبقری رہنما کو اس کے حصول پر لگا دیا۔ پوری قوم تیری عظمت کی احسان مند ہے اور تیری عقیدت کے گیت گاتی ہے۔ ہر طبقۂ فکر تیرے افکار کا دلدادہ ہے کیونکہ تُو نے سب کے لیے اُن کی اپنی اپنی جگہ ہر نوع کے موتی بکھیر رکھے ہیں۔ زندگی میں تجھے گلہ تھا کہ ’’اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں اور بے گانے بھی ناخوش‘‘۔ اب اپنے بے گانے سب تجھ سے خوش ہیں، کسی کو بھی تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
اقبال کی پہلی درس گاہ ماں کی آغوش تھی، اس حوالے سے ان کی شیرخوارگی کے زمانے کا واقعہ خاص طور پر بیان کیے جانے کے قابل ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ’’جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد ڈپٹی وزیراعلیٰ بلگرامی کے ہاں ملازم تھے جو انگریز سرکار کی ملازمت کرتے تھے، اس وجہ سے میری ماں کو شبہ ہوا کہ ان کی آمدنی شرعاً مشکوک ہے، لہٰذا انہوں نے اپنا زیور بیچ کر ایک بکری خرید لی اور مجھے اس کا دودھ پلانے لگیں۔ یہ بات اچھی طرح میرے فہم میں آگئی کہ رزقِ حلال ایمان کی جان ہوتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں یہی میری والدہ کا مجھ پر احسان ہے۔‘‘ اقبال کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی، ان کی والدہ کا انتقال 9 نومبر 1914ء کو ہوا، 9 نومبر ہی اقبال کی پیدائش کی تاریخ بھی ہے۔
اقبالؒ نوجوانانِ ملت کے لیے بہت فکرمند تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کی فکری رہنمائی کی۔ انہوں نے اپنے کلام میں اپنے ’’مثالی نوجوان‘‘ کو عموماً شاہین کہہ کر پکارا ہے، اس لیے کہ ایک مثالی نوجوان میں اقبال جس قسم کے اوصاف دیکھنے کے آرزومند ہیں وہ انہیں شاہین میں نظر آتے ہیں۔ شاہین خوددار اور غیرت مند پرندہ ہے، بے تعلق ہے، آشیانہ نہیں بناتا، بلند پرواز کرتا ہے۔ چنانچہ اقبالؒ نے جگہ جگہ شاہین کی صفت کا ذکر کیا ہے، لیکن اس ذکر سے مراد نوجوانوں ہی کی سیرت و کردار ہے۔

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

عورتوں کے بارے میں علامہ اقبال کا نظریہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ اقبال کے نزدیک کسی قوم کی بہترین روایات کا تحفظ بہت حد تک عورتیں ہی کرسکتی ہیں۔ علامہ اقبال عورت کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فرد کی تعلیم تو فردِ واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا سارے خاندان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔
اقبال خواتین کی مذہبی تعلیم کے حامی تھے، ان کے مطابق خواتین اسلامی تاریخ، گھریلو معاشیات اور حفظانِ صحت کی تعلیم حاصل کرکے مثالی ماں اور بیوی بن سکتی ہیں۔

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

اقبال بچوں کی تربیت کے بارے میں فکرمند ہوگئے تو ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور ایک گلہری، گائے اور بکری، بچے کی دعا، ماں کا خواب، پرندے کی فریاد اور ہمدردی جیسی نظمیں لکھیں، اور یہ سب نظمیں بچوں کے لیے بہت سبق آموز بھی ہیں۔
اقبال ہر قسم کے تعصب سے پاک اور دیانت دار مفکر تھے۔ مغربی تہذیب بھی ان کی فکر میں تبدیلی نہیں لاسکی۔ آپ نوجوانوں کو مغرب کی برائیوںسے بچانا چاہتے تھے، مگر مغرب کے بارے میں متعصب نہ تھے۔ انہوں نے مغرب کی ترقی کی تکنیک کو سمجھنے پر زور دیا اور مسلمانوں کو مغربی قوت کے اصل راز یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی اور تنظیم کو اپنانے کی تلقین کی۔ اقبال کے مطابق جدید علوم کو اپنانا غیر اسلامی نہیں بلکہ یہ وہی میراث ہے جو مسلمانوں نے اپنے آبا و اجداد سے وراثت میں لی اور خوابِ غفلت میں گنوا دی۔

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

حصہ