تعمیر کراچی کانفرنس

413

یاسمین صدیقی
ہیومن رائٹس نیٹ ورک جہاں انسانی حقوق کے لیے کام کر رہا ہے، وہیںانسانی زندگیوں سے جڑے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اس کا مقصد ان مسائل کو اجاگر کر کے ان کا حل تلاش کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں کراچی پریس کلب میں ’’تعمیر کراچی کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد کراچی کے سلگتے ہو ئے مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔ کانفرنس میں امن وامان ، پانی، صحت وصفائی، بجلی، شناختی کارڈز، لاپتا افراد کی بازیابی اور اسٹریٹ کرائمز سمیت دیگر مسائل کو موضوع گفتگو بنایا گیا۔ کانفرنس کی صدارت معروف قانون دان جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کی۔ مہمان خصوصی جماعت اسلامی کراچی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری تھے۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، نظامت کے فرائض سیکرٹری ایچ آراین شہزاد مظہر نے انجام دیے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے کہا ہے کہ کراچی کی ترقی کے لیے سب کو ایک ہونا ہوگا۔ بنگالیوں کو شناختی کارڈز جاری کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی ترقی کے لیے تعصبات کو بھول جانا چاہیے۔ ہماری سوچ ایک ہونی چاہیے۔ سندھی، مہاجر، پٹھان کی سوچ سے نکلنا ہوگا۔ پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو آج تک قانون کے مطابق نہیں چلایا جا رہا۔ بنگالی و بہاری 1971سے پاکستان میں ہیں ،ان کے پاس آج تک شناختی کارڈ اور بچوں کے پاس ب فارم نہیں ہے۔ انہیں شناختی کارڈز جاری کیے جائیں تاکہ روزگار ودیگر مسائل حل ہوں۔
صدر ہیومن رائٹس نیٹ ورک انتخاب عالم سوری نے کہا کہ ماضی میں ملک دشمنو ں کا ساتھ دیا گیا، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا تسلسل قائم کیا گیا۔ کراچی ڈس ایبل رہے گا تو پورا ملک پیچھے جائے گا۔ کراچی کو پیچھے دھکیلا گیا، نئی حکومت کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، اچھے کاموں کی تعریف کریں گے بُرے کاموں کی نشاندہی کریں گے۔ کراچی کو تیس سال بعد مافیا سے آزادی ملی، ہم نے ٹریفک اور دیگر مسائل کو اجاگر کیا ۔ کراچی سمیت پورے پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں، پچاس لاکھ مکانوں کی منصوبہ بندی کے بجائے حکومت پاکستان کی اراضی پر توجہ دے تو تمام قرضے ادا ہوں گے اور پھر کسی ٹیکس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ شہریوں کو تحفظ دیں، امن بحال کریں تاکہ جو کمپنیاں یہاں سے جا چکیں وہ واپس آئیں، ہم روڈ سیفٹی پرکام کررہے ہیں ۔ڈاکٹر عافیہ کے ایشو کو ہم نے اجاگرکیا ، جب تک وہ وطن نہیں آتیں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سیکرٹری شہزاد مظہر نے کہا کہ فشریز ڈپارٹمنٹ کے دس ہزار لوگوں کو شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت سے نکال دیا گیا، بنگالیوں کا شناختی کارڈ نہیں بنایا جاتا ۔ ان کے بچوں کے ب فارم نہیں بنتے ، وہ مسائل کا شکا ر ہیں ،شناخت سے متعلق ان کے مسائل حل کرنے ہوں گے ۔
جے یو پی کے رہنما قاضی احمد نورانی نے کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو وہ عہدہ چھوڑ دیں، سندھ حکومت کہتی ہے کہ ان کے پاس اختیار ہے، سوچنا ہوگا نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں۔ کراچی غریبوں کا شہر ہے، یہ شہر برباد ہوا تو کچھ نہیں بچے گا۔ قوم کو پیچھے ڈال دیا گیا ۔
ولی محمد نے کہا جگ کراچی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیچھے رکھا گیا۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ فنڈز دے ۔ آمروں کی حکومتوں نے کام کیا، سیاسی جماعتوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ قانون ساز ادارے عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کریں ۔ اگر اداروں میں کرپشن ہے تو چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیے۔ کراچی منی پاکستان ہے ،کراچی سب کا شہر ہے، تجاوزات کے نام پر گھروں کو گرانا ظلم ہے۔ پاکستان کوارٹرزکی زمین ایک با اثر شخص کو فروخت کی جارہی ہے، اس پر عدالت عظمیٰ کوئی نوٹس نہیں لے رہی، انصاف کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کی ضروریات کودیکھیں، اس کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ کراچی ڈھائی کروڑ لوگوں کا شہر ہے جہاں ملک بھر سے آئے لوگ رہتے ہیں، اگر یہ لوگ حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو گلی گلی دھرنا ہوگا۔
ہیومن رائٹس کے نمائندے وسماجی رہنما شفیق اللہ کراچی انتظامیہ اور اخلاقی طور پر تباہی کا شکار ہے، سڑکیں خراب ہیں، ٹریفک گھنٹوں جام رہتی ہے، عوام اذیت کا شکار ہیں، قوم کو مسائل کا عادی بنادیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کی، جس دن لوگ سڑکیں بند کردیں گے اس دن مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہم سب کو مل کر کھڑا ہونا ہوگا، عوامی نمائندوں کا انتظار کرنا چھوڑ دیں۔ عوامی خدمت کے ادارے اپنے کاموں سے غافل ہیں، ان سے کون کام کرائے گا۔ عوام ایم این ایم پی ایز سے توقع رکھنا چھوڑ دیں ۔کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں ہے۔گندگی، پانی کی عدم فراہمی ، امن وامان، منشیات کی بہتات اور ٹریفک جام شہر کے بڑے مسائل ہیں، سیاسی جماعتیں اپنی صفوں سے جرائم پیشہ افراد کو نکال دیں۔ عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ وہ عوام میں جائیں۔
کسان مزدور تحریک کے رہنما ایس ایم الطاف نے کہا کہ شہر کی تباہی کے مجرم سیاسی جماعتیں اور عوام ہیں۔ نا اہل اور بدعنوان لوگوں کو عوام نے خود مسلط کیا ہے اور ان کے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ موجودہ حکومت مہنگائی کا پہاڑ کھڑا کر رہی ہے‘ چیف جسٹس کس کس مسئلے پر سوموٹو ایکشن لیں، کیا کبھی قانون سازی ہوگی۔ شہر کی بربادی میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ ہمیں نیا پاکستان نہیں چاہیے بلکہ ہم پاکستان کو قائد اعظم کے اصولوں پر چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ زرداری نے ملک کو اپنا اسٹیٹ بینک سمجھ رکھا ہے۔ حکومت کسی سے ایک پیسہ نہیں لے سکتی کیوں کہ قانون میں سقم ہے،خاموشی توڑنی ہوگی۔ دنیا کی نظریں پاکستان کی جانب لگی ہوئی ہیں، ہمیں ملک کو بچانا ہوگا ۔
سماجی رہنما عبدالقادر بلو نے کہا کہ تعمیرکراچی کانفرنس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شہر میں ناقص بلدیاتی نظام کی وجہ سے عوام پس رہے ہیں۔ کونسلر کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ صورت حال خراب ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ دوسال قبل چینی کمپنی کو کہا گیا بس کی انشورنس کے لیے یہاں کوئی سسٹم نہیں۔ انہیں یہاں تحفظ کا یقین دلا یا گیا لیکن کمپنی نہیں مانی۔ نئی نسل ہیلمٹ استعمال کرے انہیں حادثات سے بچنا ہوگا ۔

حصہ