نعیم الرحمن
ادب میں ہمیشہ نئے لکھاری آتے رہتے ہیں۔ انہی نئے مصنفین اور شعراء سے ادب کا چمن گلزار بنتا ہے۔ فارس مغل بھی ایسا ہی ایک روشن چراغ ہے، جس کا پہلا ناول’’ہمجان‘‘ ایک انوکھے موضوع پر بے مثال تخلیق ہے۔ 224 صفحات کا ناول ماورا نے صوری ومعنوی حسن سے آراستہ شائع کیا ہے۔ عمدہ کاغذ پر بہترین پرنٹنگ کے ساتھ شائع شدہ ناول کی قیمت 600 روپے بھی مناسب ہے۔
مشہور شاعر اور ناول کے پبلشر خالدشریف کہتے ہیں کہ ’’فارس مغل کا قلم معجزے تخلیق کرتا ہے۔ وہ نثر میں شاعری کرتا ہے، وہ ایک خواب ناک ماحول تعمیرکرتا ہے اوراُس میں زندگی کرنے کی راہیں نکالتا ہے۔ ’ہمجان‘ ایک غنائیہ ہے، ایک تاثر، ایک رپورتاژ، ایک نظم یا پھر ایک نغمہ ہے جسے فارس مغل نے دھنک کے رنگوں سے سجایا ہے۔ ’ہمجان‘ کا ڈکشن فارس مغل کی ایجاد ہے جو اس سے پہلے ناول کی صنف میں نہیں برتی گئی۔ ’ہمجان‘ کو پڑھتے ہوئے ایک خوش کن فرحت کا احساس ہوتا ہے جیسے ٹیولپ کے کھیت سے ہوا کی لہریں گنگناتی ہوئی گزر رہی ہوں ۔ ’ہمجان‘ کو پڑھنا ایک مختلف تجربہ ہے۔ عام نثری روایت سے بالکل مختلف یہ مستقبل کا ناول ہے جسے آج لکھ دیا گیا ہے۔‘‘
محمود ظفر اقبال ہاشمی نے ناول کے بارے میں لکھا ہے کہ ’ہمجان‘ درد اورمحبت کے رسم الخط میں دنیا کے سب سے خاص لوگوں پر لکھا ہوا ایسا مسحور کن ڈسکورس ہے کہ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد ادراک ہوتا ہے کہ اسے کسی ناول نگار نے نہیں بلکہ ایک سخن ورنے نثری بیانیہ کے جلو میں قُرب اور کرب پر لکھی پُراثر نظم کی چھوٹی بڑی سطروں کو طلوع کرتے ہوئے تخلیق کیا ہے، یا پھرکسی طبیب یا ماہرِ نفسیات نے برسوں پر محیط تحقیق و مشاہدے کے بعد یہ گیان پانے کے بعد تخلیق کیا ہے کہ محرومِِ وفا لوگ کیا اورکیسے سوچتے ہیں۔ ناول کے مطالعے کا تجربہ کسی ایسی سپرہٹ فلم کی طرح لگتا ہے جسے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا جاتا ہے۔ ناول کی بُنت جتنی بل دار اورگنجلک ہے اتنی ہی دلچسپ ہے۔ معیاری اور کلاسیکل ناول نگاری کی جو تعریف و توضیح ہے وہ یہی ہے۔‘‘
مشہور اور منفرد ناول و افسانہ نگار آغاگل ’’فارس مغل اکیسویں صدی کا ابھرتا ہوا ناول نگار‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ فارس کا ناول ’’ہمجان ایک نہایت ہی مشکل تکنیک میں لکھا گیا ہے، جسے نبھانا خاصہ دشوار تھا۔ جس طرح اساتذہ شعوری طور پر سنگلاخ زمینوں میں غزلیں کہہ کر اپنا لوہا منواتے ہیں بعینہٖ فارس مغل نے بے حد مشکل ڈکشن اور تھیم میں نہایت ہی فلسفیانہ انداز میں محبت اور لطیف جذبوں کی ماہیت بیان کرتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھایا ہے، تاہم نہایت چابک دستی سے ناول کو رومانس سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ ناول میں اردھانگنی کا ہندی فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ مرد عورت کو باہم جوڑکر بنایا گیا ہے۔ یونانی فلسفہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ مرد عورت کوکاٹ کر الگ الگ پھینک دیا گیا، جونہی وہ سامنے آتے ہیں جڑت کو بے تاب ہوجاتے ہیں۔‘‘
ادب و فن کے ان مستند استادوں کی آراء سے یہ واضح ہے کہ فارس مغل اردو ادب کا نیا روشن چراغ ہے، جس کی روشنی کو اگلے کئی عشروں تک ادب کی رہ گزر پر چراغاں کرنا ہے۔ انہوں نے ابتدا ہی میں ایسے منفرد اور انوکھے موضوع پر قلم اٹھاکر اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ جبکہ ان کا دوسرا ناول ’سو سال وفا‘ بھی بلوچستان کے مسئلے پر لکھاگیا بہترین ناول ہے۔ فارس مغل جسمانی معذوری کو معذوری نہیں سمجھتے اور اپنے کرداروں کے ذریعے یہی پیغام عام کرتے ہیں۔ ’سوسال وفا‘ کی ہیروئن بینائی سے محروم ہوکر بھی حوصلہ مند ہے، جبکہ ہمجان کا مرکزی کردار ویرا قوتِ سماعت سے محروم اور لپ ریڈنگ کی ماہر ہے۔ غفران کی پہلی محبت نرمین بھی ایک معذور لڑکی ہے، جس کی جدائی پر غفران خود بھی اسی قسم کی معذوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان کرداروں کے سنگم سے فارس مغل نے ایک ایسا مونتاج تشکیل دیا ہے جو قاری کو مسحور کردیتا ہے اور سوچ کے نئے در وا کرتا ہے۔ حقیقت اور خواب کے امتزاج سے تشکیل شدہ بیانیہ ایک ایسے تحیرکو جنم دیتا ہے کہ ناول ختم کرنے کے بعد بھی قاری اس کے سحر سے نکل نہیں پاتا اور کہانی اور اس کے کرداروں کے بارے میں نت نئے نظریے قائم کرتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
ناول کا پہلا باب ’محبت کے رخسار پر لکھی کہانی‘ اس کا مجموعی تاثر ڈیڑھ صفحات میں پیش کردیتی ہے: ’’صبح کی تازہ ہوا میں پھولوں کی مہکار شامل تھی۔ ’’ایک خوبصورت پنک گلاب دینا‘‘ نابینا نوجوان نے پھول والے سے کہا۔ دکاندار کے پاس پنک گلاب نہیں تھے۔ اس نے نابینا گاہک کو سرخ گلاب پنک کہہ کر تھما دیا۔ بس اسٹاپ پر نوجوان نے حسین لڑکی کو سرخ گلاب یہ کہہ کر پیش کیا ’’اب تم اپنے اس پنک لباس کے ساتھ یہ پنک گلاب اپنی زلفوں میں لگاؤ گی تو مجھے یقین ہے کہ مزید خوبصورت دکھائی دوگی‘‘۔ لڑکی کو پھول دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہ سمجھ گئی کہ پھول والے نے اسے دھوکا دیا ہے۔ وہ غصے کو پی گئی اور بولی ’’یہ تو بے انتہا خوبصورت پھول ہے، بالکل میرے لباس جیسا۔آئی لو یو۔‘‘
اس سارے واقعے میں بہت کچھ کہی اَن کہی کہہ دی گئی۔ لوگوں کی دھوکے بازی، پیارکرنے والوں کے جذبے کی حوصلہ افزائی۔ ویرا کو یہ کہانی بہت پسند تھی۔ ناول کے چار مرکزی کردار ہیں: ویرا، اس کی بہن شیزا، ارمان اورغفران۔ جبکہ ذیلی کرداروں میں پروفیسر، ماجد، ڈاکٹرقدرت علی اور نرمین کہانی کو آگے بڑھانے کا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔ تصویروں کی ایک نمائش میں پروفیسر سے ویراکی ملاقات ہوتی ہے، جو اسے بتاتا ہے کہ ہرشخص کی طرح تمہارا بھی ہمجان ہے جو تمہیں جلد ملے گا۔ وہ اس کی چند نشانیاں بھی ویرا کو بتاتا ہے۔ لیکن ان نشانیوں کے مطابق ملنے والا ہمجان اس کی نظروں کے سامنے حادثے کا شکار ہوکر مرجاتا ہے۔ یہیں سے حقیقت اور خواب کی ایک انوکھی داستان شروع ہوتی ہے۔ سماعت سے محروم ویرا کی سب کچھ اس کی بڑی بہن شیزا ہے، جو اس پر بہت اعتماد کرتی ہے۔ محبت کی پہلی دستک ماجد ایک تقریب میں ویرا کے دل پر دیتا ہے۔ ویرا اس کے نام اپنی پوری زندگی کرنے کو تیار ہے، لیکن بہت جلد اسے یہ علم ہوجاتا ہے کہ وہ محبت نہیں بلکہ ہوس کا پجاری ہے۔ ناول کا دوسرا باب یہیں پر ختم ہوجاتا ہے۔
’عشق کی پہلی بارش‘ ناول کا تیسرا باب ہے، جو دو سال سے نامعلوم بیماری میں مبتلا معذور غفران اور نو ماہ سے اس کا علاج کرنے والے ڈاکٹر قدرت علی کی بات چیت سے شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر، غفران سے اُس کی معذوری کی وجہ جاننا چاہتا ہے، جس کے لیے اسے اموشنل بلیک میل بھی کرتا ہے۔ اور غفران ایک فائل ڈاکٹرکے حوالے کرتا ہے جس میں وہ لکھا ہے جو وہ زبانی نہیں بتا سکتا۔ یہ غفران اور نرمین کی ایک انوکھی پریم کتھا تھی۔ نرمین ایک معذور امیر لڑکی تھی جو غفران کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ جو اپنوں کے ستم کا شکار ہے اور کسی کے پیار کو قبول کرنے پر تیارنہیں۔ لیکن غفران کا سچا پیار نرمین کو اپنی کہانی سنانے پر مجبورکردیتا ہے۔ وہ پندرہ سال کی عمرتک نارمل تھی، لیکن عضلات کی موروثی بیماری سے رفتہ رفتہ وہیل چیئر پر آگئی۔ جسمانی معذوری کا شکار فرد کے احساسات کا کیا دلدوز اظہار ہے۔
’’پچھلے سال کی بات ہے، کچھ لوگ میری چھوٹی بہن ثانیہ کے رشتے کے سلسلے میں ہمارے گھرآئے ہوئے تھے۔ ڈرائنگ روم میں سب لوگ بہت خوشگوار موڈ میں باتیں کررہے تھے لیکن صرف اُس وقت تک جب تک میں اپنی وہیل چیئر پر رینگتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل نہیں ہوئی تھی، مجھے دیکھتے ہی تمام مہمانوں پر جیسے موت کا سناٹا چھا گیا۔ اُس روز شام کو ان لوگوں نے ایک بڑا ہی قیامت خیز عذر پیش کرکے رشتے سے انکارکردیا۔ وہ عذر یہ تھاکہ آپ کیا گارنٹی دیتے ہیں کہ شادی کے بعد ثانیہ کے ہاں معذور بچہ نہیں ہوگا!‘‘
نرمین نے بتایاکہ میرے زمیندار سگے باپ کو اس بات پر غصہ تھا کہ میں ڈرائنگ روم میں کیوں آئی؟ میرے باپ نے ماں سے کہا کہ میں اپنی معذوری اس کے پیٹ سے لے کر آئی ہوں، میں بڑی اولاد ہونے کے ناتے باقی بہن بھائیوں کے لیے رکاوٹ بن رہی ہوں۔ مجھے شکر کرنا چاہیے کہ میں پُرآسائش گھر میں رہتی ہوں، دوسرے معذوروں کی طرح سڑکوں پر بھیک نہیں مانگتی پھرتی۔ نرمین سے غفران کی اسپتال میں آخری ملاقات اور نرمین کی موت کا بیان پتھر دل کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کردیتا ہے۔
نرمین کی المناک موت کے دکھ نے غفران کو معذوری کا شکار بنادیا۔ ڈاکٹر قدرت علی حقیقت جان کر اسے دوبارہ نارمل انسان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس منفرد لو اسٹوری کے اگلے دو باب بھی کسی لمحے قاری کی توجہ ہٹنے نہیں دیتے، اور ناول ختم ہونے کے بعد بھی پڑھنے والا اس کے سحرسے آزاد نہیں ہوپاتا۔
۔۔۔۔۔
سیمیں کرن قدرے نئی اور بے حد عمدہ افسانہ نگار ہیں۔ ایک دوست نے فیس بُک پر مستقبل کے دس افسانہ نگاروں کا نام لکھنے کو کہا تو سیمیں کرن کا نام میرے انتخاب میں شامل تھا۔ اور ان کے افسانوی مجموعے ’بات کہی نہیں گئی‘ نے میرے اس انتخاب کو درست ثابت کردیا۔ اردو افسانے کی اس نووارد اور توانا آواز پر بات ہونی چاہیے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’شجرِ ممنوعہ کے تین پتے‘ شائع ہوچکا ہے۔ ’بات کہی نہیں گئی‘ مثال پبلشرز نے بہت عمدہ کاغذ پرخوبصورتی سے شائع کیا ہے۔ 240 صفحات کی کتاب کی قیمت پانچ سوروپے ہے۔
(جاری ہے)