سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
پانچواں حصہ
تاریخی پس منظر: اللہ کا بندہ
اللہ کا بندہ :۔ اگر حضرت محمد ﷺ وحی سے پہلے۔۔۔غار حرا کی تنہائیوں میں غور وفکر کے نتائج،اور روحانی تجربات سے لوگوں کو آگاہ کرتے، اور لوگوں کو ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے مراقبہ کرنے اور خدا کو یاد کرنے کے کچھ طریقے اور اذکار بتا دیتے، تو دنیا میں اُن سے بڑا کوئی روحانی پیشوا نہ ہوتا۔۔۔ اگر آپﷺ عرب کے منتشر قبایل کو جمع کر کے دنیا کو فتح کرنے نکلتے تو آپﷺ سے بڑا کوئی فاتح عالم نہ ہوتا۔۔۔ اسی طرح آپ زندگی کے جس شعبے کو لے لیں اور محمد ﷺ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کو دیکھیں تو آپ یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ وہ زندگی کے جس شعبے میں کام کرتے آدم ؑ سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے اِنسانوں میں کوئی بھی اُس شعبے میں ان کے مقابلے کا آدمی نہ ہوتا۔ لیکن آپ ﷺ نے اپنی طرف سے نہ کوئی بات کی، اور نہ ہی کوئی اقدام کیا۔۔۔ کیوں کہ آپﷺ اپنے غور و فکر سے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ ’’تمام خرابیوں کی جڑ انسان کی خدا سے بغاوت ! ہے‘‘ خدا سے بغاوت کر کے انسان اپنے آپ کو خود مختار سمجھنے لگتا ہے۔۔۔اور من مانی کارروایئاں کرنے لگتا ہے اور ظالم بن جاتا ہے۔ یا پھر خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر جھکاتا ہے ۔۔۔ اور اس سے دنیا میں فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ نے اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دیا۔۔۔ اور اپنے خالق، مالک اور آقا کی ہدایت کے منتظر رہے۔ ہدایت ملنے کے بعد ، کسی کمی یا اضافے کے بغیر آپﷺ نے اسے لوگوں تک پہنچایا۔ یہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کا زبردست پہلو ہے کہ فلسفی اور دانشوروں کی طرح آپﷺ نے اپنے ذاتی خیالات پیش نہیں کیے۔۔۔ دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے، جو لوگ آپ ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے بس ایک ریفارمر ماننتے ہیں۔ ۔۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب ان کے اپنے دل ودماغ کی پیداوار تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ ان ہی کے دل ودماغ کی پیداوار تھی تو ان کو نبوت کا نہیں خدائی کا دعویٰ کرنا چاہئے تھا۔۔۔ اور اگر وہ ایسا دعویٰ کرتے تو وہ دنیا جس نے رام کو خدا بنالیا۔۔۔ جس نے کرشن کو بھگوان قرار دینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔۔۔ جس نے بودھ کو خود بخود معبود بنالیا۔۔۔ جس نے مسیحؑ کو آپ اپنی مرضی سے اللہ کا بیٹا مان لیا، جس نے آگ اور پانی اور ہوا تک کی پوجا کر ڈالی۔۔۔ وہ ایسے زبردست باکمال شخص کو خدا مان لینے سے کبھی انکار نہ کرتی۔ مگر آپ دیکھیں وہ خود کیا کہتے ہیں ۔ وہ اپنے کمالات میں سے کسی ایک کا بھی کریڈٹ خود نہیں لیتے!!! کہتے ہیں کہ میں ایک انسان، ہوں تم ہی جیسا انسان۔ میرے پاس کچھ بھی اپنا نہیں۔۔۔ سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ یہ کلام جس کی مثال لانے سے تمام نوع انسانی عاجز ہے، میرا کلام نہیں ہے۔۔۔ میرے دماغ کی قابلیت کا نتیجہ نہیں ہے۔۔۔ لفظ بہ لفظ خدا کی طرف سے میرے پاس آیا ہے۔ اور اس کی تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ یہ کارنامے جو میں نے دکھائے، یہ قوانین جو میں نے بنائے ، یہ اصول جو میں نے تمہیں سکھائے، ان میں سے کوئی چیز بھی میں نے خود نہیں بنائی ہے۔ میں اپنی ذاتی قابلیت سے کچھ بھی پیش نہیں کر سکتا ۔ ہر ہر چیز میں اللہ کی رہنمائی کا محتاج ہوں۔ وہاں سے جو اشارہ ہوتا ہے وہی کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں۔
کیسے انکار کر سکتے ہو:۔ ذرا ٹہر کر سوچیے یہ کیسی حیرت انگیز سچائی ہے۔۔۔ کیسی امانت داری اور راست بازی ہے۔ جھوٹا انسان تو بڑا بننے کے لیے، دوسروں کے ایسے کمالات کا کریڈٹ بھی لے لینے میں دیر نہیں کرتا جن کے بارے میں یہ معلوم کرنا بہت ہی آسان ہوتاہے کہ یہ کہاں سے حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کمالات کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کرتے، جن کو اگر وہ اپنے کمالات کہتے تو کوئی اس کو جھٹلا نہ سکتا تھا۔۔۔ کیونکہ کسی کے پاس ان کے اصلی ماخذ (SOURCE) تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ سچائی کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سچا اور کون ہوگا جن کو ایک نہایت چھپے ہوئے ذریعہ(وحی) سے ایسے بے نظیر کمالات حاصل ہوں اور وہ بلاتکلف اپنے اصلی ماخذ کا حوالہ دے دیں؟ بتا یئے کیا کسی کے پاس ان کی تصدیق نہ کر نے کی کوئی معقول وجہ ہے؟
حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے:۔ ایک اور اہم بات یہاں واضح کر دینا ضروری ہے کہ حضورﷺ کے بعد اب اگر کوئی خفیہ ذرائع سے پیغام حاصل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ یا اپنے کسی کشف و کرامت یا مشاہدے یا سچے خواب کا ذکر کر کے لوگوں کو اپنا پیرو کار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔تو جان لیجیئے کہ وہ بہروپیا اور ڈھونگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر کے ذریعے انتہائی خفیہ ذریعے (وحی) سے پہنچائی جانے والی معلومات کو بھی ڈاکو منت کر دیا ہیاور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا ہے۔ اب انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی چیز خفیہ ذریعے سے نہیں آئے گی۔۔۔ سب ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔۔۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ ﷺ اعلانیہ بتا کر نہ گئے ہوں۔۔۔ اس لیے یہ بات بھی غلط ہے کہ آپ ﷺ کوئی خاص بات کسی کو راز کے طور پر بتا کر گئے ہوں اور وہ سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہی ہو۔ اور یہ بات بھی درست نہیں کہ بنوت تو ختم ہو گئی ہے، مگر امامت جاری ہے!!! یا کچھ غوث، قطب اور ابدال ہدایت و رہنمائی کا کام سنبھالے ہوئے ہیں۔
ریاست و حکومت کی ضرورت:۔ حضور ﷺ کو نبوت و رسالت سے سرفراز کرنے کے ساتھ ہی انسانی تاریخ اور اس میں انبیا کا کردار بتا دیا گیا۔۔۔ اور آپ ﷺ یہ جان گئے کہ انسانوں کی فلاح اور صلاح کا کام، طاقت، قوت اور اقتدار کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے آپ ﷺ نے ریاست و حکومت کے ذریعے کام کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔۔۔ لیکن ریاست و حکومت قائم کرنے اور چلانے کے لیے صرف ایک اعلیٰ درجے کا رہنما ہی کافی نہیں چاہے وہ محمد ﷺ ہی ہوں۔۔۔ صرف ایک نظریاتی کتاب ہی کافی نہیں چاہے وہ قران مجید ہی ہو۔اس کے لیے مزید ضرورت یہ ہے کہ پہلے اس لیڈر اور اس نظریہ کو ایسے ماننے والوں کی کافی تعداد حاصل ہو جو صرف اس کے ماننے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ ا س کے اصولوں سے سچا عشق بھی رکھتے ہوں، اس کو غالب و نافذ کرنے کی کوششوں میں اپنی ساری قوتیں۔۔۔ اور اپنا تمام سرمایہ زندگی کھپا دینے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ اور اس کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لیے، دنیا بھر سے لڑ جانے کے لیے، یہاں تک کہ اپنے عزیز ترین رشتوں کو بھی کاٹ پھینکنے کے لیے آمادہ ہوں۔ اگرچہ مکہ میں پیر وانِ اسلام نے قریش کے ظلم و ستم بر داشت کر کے اپنے ایمان کی سچائی اور اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کی مضبوطی کا اچھا خاصا ثبوت دے دیا تھا۔۔۔ مگر ابھی یہ ثابت ہونے کے لیے بہت سی آزمائشیں باقی تھیں کہ دعوت ِ اسلامی کو جانفروش پیرووں کا گروہ میسر آگیا ہے جو اپنے نصب العین کے مقابلہ میں کسی چیز کو بھی عزیز تر نہیں رکھتا۔ دوسر نمبر پر یہ کہ:۔ اس دعوت کی آواز اگر چہ سارے ملک میں پھیل گئی تھی، لیکن اس کے اثرات منتشر تھے، اس کی فراہم کردہ قوت سارے ملک میں بکھری ہوئی تھی، اس کو وہ اجتماعی طاقت حاصل نہ ہوئی تھی جو پرانے جمے ہوئے نظام جاہلیت سے فیصلہ کن مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھی۔تیسرے نمبر پر یہ کہ:۔ اس دعوت نے زمین میں کسی جگہ بھی جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ابھی تک وہ صرف ہوا میں سرایت کر رہی تھی۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہیں تھا جہاں وہ قدم جما کر اپنے موقف کو مضبوط کرتی اور پھر آگے بڑھنے کی کوشش کرتی۔۔۔ اُس وقت تک جو مسلمان جہاں بھی تھا اس کی حیثیت نظام کفر و شرک میں بالکل ا جنبیAlien) (کی تھی جسے کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ بلکہ سب کا زور اس پر تھا کہ اسے کس طرح نکال باہر کیا جائے۔ چوتھے نمبر پر یہ کہ:۔ اس وقت تک اس دعوت کو عملی زندگی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ نہ یہ اپنا تمدن قائم کر سکی تھی، نہ اس نے اپنا نظامِ معیشت و معاشرت، اور نظام سیاست مرتب کیا تھا۔۔۔ اور نہ دوسری طاقتوں سے اس کے معاملاتِ صلح و جنگ پیش آئے تھے۔ اس لیے نہ تو اُن اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ ہو سکا تھا جن پر یہ دعوت زندگی کے پورے نظام کو قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی، اور نہ یہی بات آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح نمایاں ہوئی تھی کہ، اس دعوت کا پیغمبر اور اس کے پیروں کا گروہ جس چیز کی طرف دنیا کو دعوت دے رہا ہے اس پر عمل کرنے میں وہ خود کس حد تک سچے ہیں ۔
بعد کے واقعات نے وہ مواقع پیدا کر دیے جن سے یہ چاروں ہو گئیں۔
(جاری ہے)
اللہ سُبٰحانہٗ و تعٰالیٰ ہَم سَب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اَور اُس فہم کے مُطابق دین کے سارے تقاضے، اَور مُطالبے پُورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد للہ رب العالمین۔ا