پاکستان کا سوفٹ امیج ’’ آخر پورا ہوا …جو خواب تھا کپتان کا‘‘

841

نون ۔ الف
’’ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے اور اس گلوبل ولیج میں ہمیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلنا ہوگا ۔‘‘
یہ بیانیہ جس قدر خوش کن ہے اسی قدر بھیانک بھی ہے – سماعتوں اور بصارتوں سے ٹکرانے والے اس بیانئے کا آدھا حصہ سچ اور آدھے حصے میں موجود خبا ثت کوئی دیدہ بینا ہی جان سکتی ہے ۔
بیانئے کے پہلے حصے کی حقانیت کو مسلمان سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے؟- ہمارے پاس قرآن کریم کی صورت میں جو نسخہ کیمیا موجود ہے اس میں ذوا لقرنین کے واقعات ، یاجوج ماجوج کی دنیا ، ملکہ سبا اور حضرت عیسیٰ و موسیٰ و ہارون و ابراھیم کے ادوار یہاں تک کہ نبی پاک کے منہ سے ادا ہوئے قیصر و کسری کے بارے میں جملے اور عا لم ارضی سے پرے افلاک کی دنیاؤں کے مناظر سب کچھ اس گلوبل ولیج کی حقیقت جاننے کے لئے بہت کافی ہیں ، مگر بیانئے کی دوسری بات میں مضمر مغربی آقاؤں اور ان کی تہذیب کی خواہشات کی عکاس ہے ۔ قدم سے قدم ملا کر چلنا ، بمعنٰیتقلید و اتباع کے ہیں ۔
اس شوگر کوٹڈ گنجلک پیغام کو ’’ہم مشرق کے ماروں ‘‘ کے لیے آسان بنانے کا کام سب سے پہلے اس خطے میں سر سید احمد خان کے ہاتھوں لیا گیا ، جنھوں نے آسان زبان میں ہمیں سمجھا نے کو کوشش کی کہ ہاتھوں سے کھانا کھانا اور انگلیاں چاٹنا نری بدتہذیبی ہے – با الفاظ دیگر وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ مغرب کی نقالی اور اتبا ع میں ہی دنیا کی فلاح و ترقی کا راز پوشیدہ ہے ۔
اس ا بتدائی دور میں اس خیال کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، مگر مغربی آقاؤں کی مسلسل معاونت اور سرپرستی میں اس ایجنڈے پر کبھی ڈھکے چھپے کبھی کھل کھلا کر عمل ہوتا رہا – مغربی افکار و خیالات بتدریج اپنا کام دکھا رہے تھے ، معاشرے میں اثر پزیری کی رفتار اگرچہ بہت سست روی کے ساتھ تھی مگر یہ جاری رہی ۔
سب سے پہلے مغربی نقالی کا کلچر اشرافیہ نے اڈاپٹ کیا اور آہستہ آہستہ یہ سرایت کرتا ہوا نیچے کی جانب آیا – شریف برادران کے پہلے دور میں مغربی تہذیب کو قابل قبول بنانے کے لئے ” پاکستان کا سوفٹ امیج ” کا نعرہ تخلیق ہوا – اور مشرق کی صدیوں پرانی تہذیب سے چھٹکارا پانے کے لئے منصوبہ سازی کی گئی جس کی ابتداء”اسلامی جمہوری پاکستان میں“ام الخبائث – شراب کے کارخانوں اور فروخت کی آزادی کو صورت میں ادا کی گئی – یہی نہیں بلکہ جمعہ المبارک کی عام تعطیل کو اتوار سے تبدیل کرکے اپنے آپ کو مغرب کے ساتھ کھڑا کرنے کی سعی عارفانہ کی گئی – مگر مغرب اس پر بھی راضی نہ ہوا – اس کا مطالبہ اس سے سوا تھا ، سو مرتے کیا نہ کرتے۔ فور ٹریس اسٹیڈیم سے لیکر دی مال روڈ تک نوجو ان لڑکیوں کو کچھے اور لیگنز پہنا کر آزاد خیالی کا پیغام دیا گیا – اس کے بعد مخلوط میراتھن کا انعقاد بھی کامیابی کے ساتھ کروایا گیا – پرویز مشرف کے دور میں ’’ڈومور‘‘ کا نعرہ ایک تکرار کے ساتھ سامنے آیا جس میں پتھر کے دور میں بھیجنے کی دھمکی بھی شامل تھی۔ جس کے بعد مغربی آقاؤں کی مرضی و منشا سے خانہ جنگی کا طوق اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں پہنا گیا ( جس کی قیمت ہم آج تک چکا رہے ہیں ) ۔ اسی دور میں اسلامی جمہوری پاکستان کی ایک خوبرو اداکارہ کی بہن کو عالمی مقابلہ حسن کے مقابلے میں بھیجا گیا ، جہاں بکنی اور نیم برہنہ جسم پر پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھ ہر بڑے فیشن میگزین میں تصاویر نمایاں کرکے لگوائی گئیں ۔ یہ تھا ہمارے پاکستان کا وہ سوفٹ امیج جو مغربی تہذیب کے پائیدان کی پہلی سیڑھی بھی نہیں چڑھ سکا ۔
پھر جب بار بار کے جمہوری نمایندے مغرب کی خواہشات کی تکمیل میں مسلسل ناکام رہے تو ضرورت پڑی ایک چیمپئن ، حوصلہ مند دلیر انسان کی جو دلیرانہ فیصلے کرسکتا ہو ، ایسے میں آقاؤں کو1992 کی کرکٹ ورلڈ کپ ٹیم کا کامیاب کپتان دکھائی دیا۔ جو دیکھنے میں اسمارٹ ، بولنے میں ان کے جیسا ، مکاری میں یکتا !

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

اس بحر بلاخیز میں کودنے سے پہلے کپتان نے نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کی ’’سرکار ! اگرچہ اس میدان میں نیا ہوں ، مگر میری وفاداری پر شاکی نہ ہوں ، میں اور میری ٹیم ہر ناممکن کو ممکن کر دکھائے گی … بس اتنی سی درخواست ہے کہ ’’مجھے ایک ایسی عدلیہ عنایت فرمادیں جو بوقت ضرورت آپ کے لیے مرضی کے فیصلے کرسکے تاکہ جن کو چاہوں اندر کروادوں ، جس کو چاہوں باہر نکلوا دوں‘‘ اور ایک ایسی لاٹھی عطا فرمادیں جو ان فیصلوں پر ’’ترنت‘‘ عمل درآمد کروا سکے… ہاں ساتھ ساتھ اتنا ضرور کردیں کہ جو اسمبلی دیں اس میں اس بات کا دھیان رہے کہ کوئی پنگے باز مولوی بھی نہ ہو ، تاکہ غیر ضروری مباحث سے بچا جاسکے۔‘‘
جتنے بڑے مطالبات تھے ان کے سامنے یہ معصومانہ مطالبے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے چنانچہ دونوں خواہشات کی تکمیل کی گئی اور لاٹھی و عدلیہ مرضی کے مطابق فراہم کردی گئیں ۔
اس طرح قوم نے دیکھا کہ’’ وہ جو اک خواب تھا ، پورا ہوا کپتان کا !‘‘
اب خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر تعبیر دیکھنے کا وقت ہے – سوفٹ امیج کی تعبیر درحقیقت برسوں پہلے دیکھی گئی مغرب کی خواہشات کی ایک وسیع و عریض کینوس پر موجود ایک ڈرائنگ تھی – جس میں کئی رنگ بھرنے مقصود تھے- اسلام آئزشن کے رنگ کو نیوٹرا لا ئز کرنے کے لئے فرقہ وارانہ مذہبی جھڑپوں کا لال رنگ ملانے کی خواھش ، مولوی اور مذھب کے ٹیسکچر کو جنسی بے رہ روی کے اسٹروک مار کر دھندلانا ، بیک گراؤنڈ میں دکھائی دینے والے اسلامی شعائر کو لبرالائز کرنے کے لیے بیکن ہاوسز کلچر کے ننگے پن کو اسکول کی سطح پر لا کر نوجوان نسل کے لیے قا بل قبول و دل کش بنانا اور اس کے بعد سب سے ضروری ہے کہ خاندانی نظام ، رسم و رواج ، مشرقی تہذیب ، اخلاقیات کے نام پر جو ہلکے رنگ ہیں انہیں ریموو کرکے ہم جنس پرستی، زنا بالرضا کے مغربی گہرے کلرز سے ریپلیس کرنا‘ قانون ختمِ نبوت اور قانون توہین رسالت جیسے معاملات سے ڈرائنگ کی لائف جز وقتی ہو جاتی ہے لہٰذا اس کو نکا ل دینا ہی مناسب ہے ۔
اوران ہدایات کے ساتھ جو پہلی ڈرائنگ ’’ کپتان‘‘ کے حوالے کی گئی وہ تھی ، شاتم رسول ملعونہ آسیہ مسیح کی !
اس ڈرائنگ میں جس خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ کپتان نے مغربی آقاؤں کی مرضی کے رنگ بھرے ہیں ان سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ اور اس طرح کپتان نے سوفٹ امیج کو بہتر سے بہتر بنانے کا مغربی چیلنج قبول کرلیا ۔ اور آج سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک لاٹھی نے کام دکھایا ، کس طرح ایک مقننہ نے مرضی کے فیصلے لکھے ،کس طرح ہمارے کپتان نے ٹی وی پر آکر مقننہ کے فیصلوں کی تائید کی اور کس قدر حوصلے اور جوش کے ساتھ پاکستان کے ایک نہایت ” چھوٹے طبقے ” کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کیا۔
ہاں… مگر اتنا یاد رہے کہ بدی اور کفر کے مقابلے میں ہمیشہ 313 اور 72 کی عددی نفری والا ’’ چھوٹا طبقہ‘‘ ہی بارگاہِ خداوندی اور نگاہ رسالت مآبؐ میں کامیاب اور سرخ رو ٹھہرا۔

حصہ