کتوں والی سڑک

1040

زاہد عباس
ابو کہا کرتے تھے ’’کتے بھونکتے رہتے ہیں اور قافلے نکل جاتے ہیں‘‘۔ اُس وقت شاید ایسا ہی ہوتا ہو، اب تو کتے بھی قافلوں کی صورت ہی نکلا کرتے ہیں۔ کسی گلی، محلے یا پھر کسی بھی سڑک پر نکل کے دیکھ لیجیے، کچھ ایسی ہی صورتِ حال دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن ان حالات میں بھی ہمیں لگتا ہے جیسے کاشف کا کتوں سے چھتیس کا آنکڑا ہو۔ محلے کا کوئی بھی کتا اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ کسی کونے میں بیٹھے کتے کو لات مارتے ہوئے گزرنا، یا گلی سے گزرتے کتوں پر بالٹی بھر پانی انڈیل دینا اس کے پسندیدہ مشاغل میں شامل ہے۔ ویسے یہ بات تو ہے کہ اس معاملے میں وہ ہمیشہ سے ہی بڑا خوش قسمت رہا ہے کہ اس کا سامنا کبھی بھی اصل کتے سے نہیں ہوا۔ وہ تو فقط کتوں سے ہی متھا لگاتا آیا ہے، شاید اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے ہی محلے کے کتے اب ہماری گلی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے، بلکہ سڑک پر جانے کے لیے ہماری گلی میں قدم رکھنے کے بجائے دو گلیوں کی مسافت طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو بھی ہے، مگر ایک بات تو طے ہے کہ کتے بدل گئے پَر کاشف اب تک نہ بدلا… اور بدلے بھی کیسے، شہر میں کتوں کی تیزی سے ہوتی افزائشِ نسل اس کو بدلنے کا موقع ہی کہاں دیتی ہے! ابھی کل ہی کی بات ہے، کاشف پتھر اٹھائے دوڑے جا رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر بولا ’’آج کالے کتے کی خیر نہیں، پرسوں مرغی کے دو چوزے لایا تھا، ایک غائب ہے، ضرور اسی نے کام دکھایا ہوگا، ورنہ کسی کی کیا مجال!‘‘ لاکھ سمجھانے کے باوجود کاشف نہ سمجھا اور کتے کی تلاش میں لگا رہا، پر وہ نہ ملا۔
ویسے تو کتے بڑے وفادار ہوا کرتے ہیں، یہ نہ صرف انسانوں سے وفا نبھاتے ہیں بلکہ زمین کی محبت میں بھی گرفتار رہتے ہیں۔
آوارہ کہلانے کے باوجود یہ جہاں رہتے ہیں اُس زمین کو چھوڑ کر نہیں جاتے۔ بس اسٹاپوں، بازاروں اور ریلوے اسٹیشنوں پر دیکھو تو کئی آوارہ کتے نظر آتے ہیں… اور تو اور، بعض تو ریلوے لائن پر آکر اپنی ٹانگ تک کٹوا بیٹھتے ہیں مگر پھر بھی ریلو ے اسٹیشن نہیں چھوڑتے، حالانکہ ان کے سامنے روزانہ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار، زمین سب کچھ چند پیسوں کی خاطر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ان آوارہ کتوں کو کوئی دھتکارتا ہے تو کوئی مارتا ہے، لیکن وہ کبھی بھی اپنی جگہ یا علاقہ نہیں چھوڑتے۔ پَر کاشف میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے محلے کے سارے ہی کتے اُس سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ نہ صرف محلہ بلکہ اپنا آبائی علاقہ تک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں؟ اُس کی اس خصوصیت کے باعث میرا حکومت کو مفت مشورہ ہے کہ وہ شہر کے آوارہ کتوں کو شہر بدر کرنے کا ٹھیکہ کاشف کو دے دے، تاکہ کراچی میں بڑھتے سگ گزیدگی کے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔
ایک زمانہ تھا جب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت آوارہ کتوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جاتی تھی۔ ذرا اور پیچھے جائیں یعنی برٹش دور میں، تو اُس وقت کتوں کے باقاعدہ دو طبقات بنا دے گئے تھے… ایک آوارہ کتا، تو دوسرا پٹے والا کتا۔ یوں سرکار بغیر پٹے ڈلے کتوں کو اٹھا لیا کرتی۔ پٹہ ایک قسم کا لائسنس کہلاتا۔ اس طرح عوام کو بہت حد تک آوارہ کتوں کے حملوں سے محفوظ کردیا جاتا۔ اُس زمانے میں گھروں کی چوکیداری، زمینوں پر قائم ڈیروں کی رکھوالی، یہاں تک کہ انسان اپنی حفاظت کے لیے محافظ کے طور پر کتے رکھتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلی آئی کہ آج کتوں کے لیے انسان رکھے جارہے ہیں جو نہ صرف ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلکہ کتوں کو نہلانے، کھلانے اور ٹہلانے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ برسرِِ روزگار انہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان لوگوٖں کو بطور خاص کتوں کی دیکھ بھال کے لیے ہی ماہوار تنخواہوں پر رکھا جاتا ہے۔ شام کے وقت پوش علاقوں کی سڑکوں پر جاکر دیکھیے کہ یہ ملازم کس طرح ان کتوں کے ناز نخرے اٹھانے پر مجبور ہیں۔ وہ بظاہر کتے کے گلے میں پڑی زنجیر تو تھامے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے ملازم اور خدمت گزار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مزاج نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ کتوں کے گلے میں زنجیر ہونے کے باوجود دیکھنے والوں کے لیے ان دونوں کے درمیان اصل کی شناخت کرنا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔ اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ کل تک انسان کتے پالتا تھا جبکہ آج کتے کی وجہ سے نہ صرف ایک انسان بلکہ اس کا پورا گھرانہ پل رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
خیر، بات ہورہی تھی شہر میں بڑھتے آوارہ کتوں کو شہر بدر کرنے یا ان کی بڑھتی ہوئی نسل پر حکومتی خاموشی اور اداروں کی عدم توجہی کی… جس کے باعث جہاں نظر اٹھائیں آپ کو آوارہ کتوں کے غول کے غول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں خود ایک ایسی سڑک سے واقف ہوں جہاں سے گزرنے والوں کو بیسیوں کتے باقاعدہ پروٹوکول کی صورت سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچایا کرتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پروٹوکول دیتے بھونکتے کتوں کے درمیان سے گزرنا بڑی مہارت کا کام ہوتا ہے۔ گاڑی چلاتے وقت آپ کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے کہ آپ کی گاڑی کی رفتار دوڑتے کتوں سے زیادہ نہ ہو، بصورتِ دیگر اس کا خمیازہ کسی بھی نجی اسپتال سے لگوائے جانے والے چودہ ٹیکوں کی صورت بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب ہماری صوبائی وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا عجب منطق پیش کرتے ہوئے یہ کہیں گی کہ کتا کاٹے تو اسے پکڑلیں، اکثر کتے اپنے تحفظ کے لیے کاٹتے ہیں، ہرکتے کے کاٹے کے شکار شخص کو ویکسین نہیں لگوانی چاہیے، کتوں کے کاٹے کی ویکسین ہمارے پاس کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن مہنگی ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ… تو ایسی صورت میں متاثرہ شخص ریبیز جیسی خطرناک بیماری سے بچنے کے لیے کسی بھی نجی اسپتال کا ہی رخ کرے گا۔
اب آئیے ذرا صوبائی وزیر صحت کی جانب سے دی جانے والی منطق پر بات کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر کے نزدیک کتوں کے کاٹے سے ریبیز نامی بیماری ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ریبیز انتہائی خطرناک بیماری ہے، اگر ریبیز کا شکار کتا کسی شخص کو کاٹ لے تو متاثرہ شخص پانی سے خوف کھاتا ہے، کیونکہ جب اسے پانی دیا جاتا ہے تو گلے میں اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ پانی نیچے نہیں اترتا، مریض بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے، اس کی طبیعت میں بے چینی بڑھنے لگتی ہے، جس کے بعد سانس اکھڑنے سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ تاہم اس کی موت کے مراحل نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اگر اس مرض کا بروقت علاج ہوجائے تو مرض رک جاتا ہے، ورنہ عام طور پر ریبیز کا شکار مریض آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اب عوام کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں! صوبائی وزیر صحت کی جانب سے پیش کی جانے والی منطق نئی نہیں، سندھ میں بسنے والا ایک ایک شخص قائم علی شاہ کے دور سے لے کر اب تک اسی قسم کی دی جانے والی منطقوں سے بخوبی آگاہ ہے، لہٰذا حکومتِ سندھ، خاص طور پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمے داری ہے کہ وہ شہر میں کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کتا مار مہم جیسے اقدامات کرے، تاکہ شہر بھر میں سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سدباب ہوسکے۔

حصہ