جسارت نے جبر و استداد کے ہتھکنڈوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا

915

حامد ریاض ڈوگر
محترم ریاض احمد چودھری کا شمار وطن عزیز کے سینئر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے، وہ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے۔ جسٹس ذکی الدین پال مرحوم اور خواجہ رفیق شہید کے ساتھ تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ 1946ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کے امیدوار چودھری نصر اللہ خاں کی انتخابی مہم چلائی جو یونیسنٹ امیدوار چودھری عبدالحق کو ہرا کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ریاض چودھری صاحب نے اپنے دادا چودھری دین محمد مرحوم کے ہمراہ منٹو پارک لاہور میں 23-22 مارچ 1940ء کو منعقد ہونے والے مسلمانوں کے تاریخی اجتماع میں شرکت کی جس میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔
ریاض احمد چودھری گزشتہ 65 برس سے خار زار صحافت میں ہیں اور متعدد اردو اور انگریزی اخبارات میں مختلف اہم ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔روزنامہ ’’آفاق ‘‘ میں نیوز ایڈیٹر رہے 37 برس تک پروگریسو پیپرز کے اخبارات روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز سے وابستہ رہے۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے اجراء کا فیصلہ ہوا تو یہ اس کی ٹیم کے نمایاں افراد میں شامل تھے ابتدائی ایام میں چند ماہ جسارت ملتان کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ’’جسارت‘‘ کے حوالے سے ایک خصوصی ملاقات میں ریاض احمد چودھری صاحب نے بتایا کہ 1970 ء کے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو محسوس ہوا کہ یہ انتخابات اسلام اور سوشلزم کے مابین ایک معرکے کی حیثیت رکھتے ہیں تحریک پاکستان میں کام کرنے کے باعث ہم اسلام اور پاکستان سے گہری محبت رکھتے تھے مگر صورت حال یہ تھی کہ صحافت کے میدان میں کوئی موثر اخبار اسلام کے حامی عوام کی ترجمانی کے لیے موجود نہیں تھا، ’’نوائے وقت‘‘ اپنے اندرونی خاندانی تنازعات کے باعث دم توڑ رہا تھا۔ روزنامہ کوہستان بھی بند ہو چکا تھا، اور جو اخبارات موجود تھے ان میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر سیاسی جماعتوں کے حامی اور کارکن چھائے ہوئے تھے ، چنانچہ 1969ء کے اوائل میں اردو ڈائجسٹ والے قریشی برادران ڈاکٹر اعجاز حسن،قریشی اور الطاف قریشی صاحب کے ساتھ مشاورت کے بعد ملتان اور کراچی سے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے نام سے ایک نئے اخبار کے اجراء کا فیصلہ ہوا اور ’’جسارت‘‘ کے نام سے ایک نئے اخبار کے اجراء کا فیصلہ ہوا اور ’’جسارت پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کے لیے میں نے بہت بھاگ دوڑ کی، بڑی تعدادمیں لوگوں کو اس کمپنی کے حصہ دار بننے پر آمادہ کیا جب کہ چند مال دار افراد کو بحیثیت ڈائریکٹر کمپنی میں شامل ہونے کی دعوت دی، یوں ’’جسارت‘‘ کے لیے بنیادی سرمایا فراہم ہو گیا تو پہلے ملتان سے اخبار کا اجراء کیا گیا اور میں نے بطور ایڈیٹر اخبار میں کچھ عرصہ خدمات انجام دیں۔ پھر اخبار کو کراچی سے شروع کرنے کا پروگرام بنا تو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ مرحوم و مغفور نے مجھے طلب کیا، انہیں مولانا نعیم صدیقی مرحوم کے ذریعے ’’جسارت‘‘ کے اجراء کے سلسلے میں میری کوششوں کا علم ہو چکا تھا، مولانا مرحوم سے ملاقات میں ’’جسارت‘‘ کے معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ مولانا نے خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ تعاون کریں تو ہم کراچی سے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’جسارت‘‘ کی اشاعت کا آغاز کر سکتے ہیں چنانچہ مولانا کی ہدایات کے مطابق کراچی جا کر میں نے امیر جماعت کراچی چودھری غلام محمد مرحوم سے ملاقات کی، ان سے میری پہلے بھی ملاقاتیں رہتی تھیں تاہم یہ ملاقات خصوصی طور پر ’’جسارت‘‘ کے کراچی سے اجراء کے مقصد کی خاطر تھی… طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق میں نے چودھری غلام محمد مرحوم کو ساتھ لے کر جناب اے۔ کے۔ سومار سے ملاقات کی، جو اس وقت رکن قومی اسمبلی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین تھے، ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کی وجہ سے میرے سو مار صاحب سے اچھے اور نظریاتی مراسم تھے۔ انہیں جب ہماری سوچ کا علم ہوا تو انہوں نے اسے سراہااور ’’جسارت‘‘ کے کراچی سے اجراء کے لیے فنڈز کی فراہمی اور دیگر ہر طرح کے تعاون کی بھر پور یقین کرائی اور چودھری غلام محمد مرحوم سے کہا کہ اب میں ان سے براہ راست رابطہ رکھوں گا…!!!
چودھری غلام محمد مرحوم کی شبانہ روز محنت اور بھرپور کاوشوں کے نتیجے میں جلد ہی ایور ریڈی چیمبرز کراچی سے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہو گیا۔ ابتداء میں ’’جسارت‘‘ ملتان اور کراچی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے تاہم کراچی ’’جسارت‘‘ کا انتظام جماعت اسلامی کے پاس تھا جب کہ ملتان کے معاملات قریشی برادران دیکھتے رہے۔ انتخابات قریب تھے، مجھے جماعت نے فیصل آباد سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کی ہدایت کی کیونکہ میں پہلے وہاں سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتا رہا تھا… لہٰذا میں روزنامہ ’’جسارت‘‘ کی ادارت سے استعفیٰ دے کر فیصل آباد چلا گیا…!!!
انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ’’جسارت‘‘ کو اپنے شدید انتقام کا نشانہ بنایا اور طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دیں اس صورت حال میں قریشی برادران نے ملتان سے ’’جسارت‘‘ بند کر دیا… بھٹو کے آمرانہ طرز عمل کا شکار ہو کر قریشی برادران پس دیوار زنداں چلے گئے اور ان کے ماہنامہ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کو بھی بار بار مختلف نوعیت کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا… کراچی سے ’’جسارت‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ تاہم جاری رہا۔ اگرچہ یہاں بھی بھٹو حکومت کی طرف سے نہ صرف اشتہارات کی بندش رہی اورہر طرح کی دوسری آزمائشیں بھی ’’جسارت‘‘ کی انتظامیہ، مدیر اور کارکنوں کو برداشت کرنا پڑیں… آئے روزڈیکلریشن منسوخ کر کے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی جاتی اور اس کے مدیر اور پبلشر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاتا رہا… سنسر عائد کر کے بھی اس کی حکومت پر تنقید اور حق گوئی کو روکنے اور بے اثر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں مگر ’’جسارت‘‘ اور اس کے کارکنوں نے ان تمام پابندیوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور آزادی صحافت کا علم بلند رکھنے کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیں…!!!
محترم ریاض احمد چودھری صاحب نے بتایا کہ وہ مطمئن ہیں کہ ’’جسارت‘‘ اجراء کے وقت صاف ستھری اور جرات مندانہ صحافت کے فروغ کی جو پالیسی طے کی گئی تھی ’’جسارت‘‘ کی انتظامیہ اور کارکنوں نے ہر طرح کے جبرو استبداد کے باوجود اس پر عمل جاری رکھا اور پھر جب بہت سے لوگوں سے مال و دولت دنیا کی خاطر ضمیر فروشی کو اختیار کیا تب بھی ’’جسارت‘‘ نے اپنا راستہ نہیں بدلا اور اس کے کارکنوں نے ہر لالچ کو ٹھکرا کر پاکستانی عوام اور امت مسلمہ کی آواز کو جرات اور بے باکی سے بلند کیا۔ ’’جسارت‘‘ اول روز سے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نظریات کا علم بردار رہاہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں تحریکوں کا ترجمان ہے ’’جسارت‘‘ نے ایک سنجیدہ باوقار اور متوازن اخبار کی حیثیت سے ملکی صحافت میں اپنا مقام تسلیم کر دیا ہے جس کا اپنے ہی نہیں مخالف بھی برملا اعتراف کرتے ہیں… ملک کے سینئر ترین اخبار نویس اور ’’جسارت‘‘ کے بانی کارکن ریاض احمد چودھری صاحب نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ’’جسارت‘‘ کو اس کے مشن میں کامیابی سے نوازنے اور بانی تحریک اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لگایا ہوا یہ پودا ہمیشہ پھلتا پھولتا رہے… آمین…!!!

حصہ