سیدہ عنبرین عالم
دل تمہارا گھبرائے نہ‘ یہ کتاب جو تم پر آئی ہے
خبردار کرو اور عاشقوں کو ہمارا پیغام سنا دو
ہر بات پر عمل کرو اس کی‘ یہ کتاب جو تم پر آئی ہے
کہنا نہ ماننا کسی اور کا‘ کوئی ا ور تمہارا دوست نہیں
نہ تم مانتے ہو‘ نہ کبھی مانی ہے‘ جو نصیحت کو سنائی ہے
شعیب اور ندیم گہرے دوست تھے‘ باوجود شدید ضد کے‘ ان کے والدین نے انہیں موبائل فون نہیں دلایا تھا۔ ان کے تمام دوست موبائل فون پر لگے رہتے تھے اور یہ بے چارے ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہتے۔ اس کا حل ندیم نے یہ نکالا کہ دونوں مل کر قرآن ترجمے سے پڑھ لیا کرتے اور ہر آیت پر گفتگو کرتے تاکہ سمجھ آجائے۔
شعیب: یار! آج مجھے ایک صاحب ملے‘ جو مجھ سے شکایت کرنے لگے کہ تمہارے والد صاحب فون پر مجھے قرآنی آیتیں پیغام کے ذریعے بھیجتے ہیں۔ میں جب ان پیغامات کو ڈیلیٹ کرتا ہوں تو ایسا بنا ہوا آتا ہے کہ یہ ڈیلیٹ کیے گئے پیغام ایک کچرے کے ڈبے میں جمع کر ختم ہوگئے اور اس طرح قرآنی آیتوں کی بے ادبی ہوتی ہے۔
ندیم: یار! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ بھی ہوا ہے کہ جو صحابہ کرامؓ قرآن سنانے کے لیے دوسرے مخالف قبیلوں میں گئے‘ انہیں شہید کر دیا گیا‘ کیا اس سے بڑھ کر قرآن کی بے حرمتی ہو سکتی ہے کہ کسی انسان کو صرف اس قصور میں ذبح کر دیا جائے کہ اس کے سینے میں قرآن محفوظ ہے‘ مگر اس پر بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو بھیجنا نہ چھوڑا۔
شعیب: بالکل یار! قرآن شریف 1,500 سال سے چھپ رہے ہیں اور آج تک کروڑوں کی تعداد میں اس کی کاپیاں تمام دنیا میں لوگوں کے پاس موجود رہیں کیا یہ کروڑوں قرآن شریف کی جلدیں آج سب کی سب موجود ہیں؟
ندیم: نہیں‘ بوسیدہ ہونے پر مختلف طریقوں سے ضائع کر دی جاتی ہیں۔
شعیب: تو کیا مسلم امہ کو اس ڈر سے قرآن کی نئی جلدیں شائع کرنی چھوڑ دینی چاہیے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال بعد اس جلد کو بوسیدگی کے بعد ضائع کر دیا جائے گا؟
ندیم: ہرگز نہیں! آج بھی سیکڑوں نئی جلدیں روزانہ شائع ہو تی ہیں‘ اس کے علاوہ اسکولوں اور مدرسوں میں جو اساتذہ قرآن کی تعلیم دیتے ہیں وہ روزانہ دس آیتیں لکھتے اور دس آیتیں مٹاتے ہیں‘ اس کے بغیر تعلیم ممکن نہیں۔
شعیب: اچھا یاد دلایا وہ صاحب فرما رہے تھے کہ قرآن کی آیتیں اگر مٹائی جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے‘ اس لیے میں آیتیں ڈیلیٹ نہیں کرنا چاہتا اور اللہ کا واسطہ دے دے کر کہہ رہے تھے کہ اپنے ابو سے کہو کہ مجھے قرآنی آیات نہ بھیجیں۔
ندیم: میرا خیال ہے کہ وہ قرآنی آیات کے کچرے کے ڈبے میں جانے سے آزردہ خاطر ہیں ورنہ قرآنی آیات تو اگر موبائل فون پر آئیں تو وہ لوگ بھی دن بھر میں ایک آدھ آیت پڑھ لیتے ہیں جن کے پاس قرآن شریف نہ پڑھنے کے لیے ہمیشہ ٹائم نہ ہونے کا بہانہ حاضر ہوتا ہے‘ موبائل پر دو گھنٹے تک فیس بک چلاتے ہوئے اچانک اگر ایک آدھ آیت پیغام کی صورت میں مل جائے تو پڑھ ہی لیتے ہیں۔
شعیب: وہ کون سا اصل کچرے کا ڈبہ ہوتا ہے‘ ایک خاکہ ہوتا ہے اور حقیقت بتائوں تو ساحلوں پر جا کر دیکھو قرآن شریف کے اوراق کیسے بکھرے ہوتے ہیں‘ اس بات کا خیال کسی کو نہیں‘ لیکن جہاں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے قرآن زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے وہاں ان کے شیطانی ذہن نئے نئے آئیڈیاز لا رہے ہیں کہ قرآن کو عام لوگوں تک نہ پھیلایا جاسکے۔
ندیم: جو لوگ بھی قرآن کو پھیلانا چاہتے ہیں ان کو ہر دور میں شیطانی حربوں کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اللہ رب العزت سورۃ اعراف میں فرماتا ہے کہ یہ کتاب جو تم پر نازل ہوئی اس کی وجہ سے تم پر جو مشکلات آئیں‘ اُن سے گھبرائو مت بلکہ لوگوں تک پیغام پہنچاتے رہو۔ شاید وہ اللہ کے ڈر سے پیغام قبول کر لیں‘ نہ بھی کریں تو کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہوں گے جو اللہ سے محبت کرتے ہوں گے اور ان کے دل اللہ کے کلام سے منور ہو جائیں گے۔
شعیب: قرآن کی ترویج کا سب سے بہتر طریقہ اللہ جل جلالہ نے سورہ اعراف کی ابتدائی آیات میں بتایا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہر مومن قرآن کے احکام پر مکمل عمل کرے‘ ان کی اخلاقی برتری اور معاملات میں درستی خودبخود غیر فعال ایمان والوں اور کافروں کو قرآن کی جانب راغب کرے گی اور وہ ہدایت پا لیں گے۔
ندیم: یار اصل چیز ہے عشق‘ اگر ہم عشقِ حقیقی یعنی اللہ سے محبت رکھتے ہیں تو شیطانی حربے نہ ہمارا راستہ روک سکتے ہیں نہ ہمیں غلط فہمی میں مبتلا کر سکتے ہیں‘ تربیت اتنی کارآمد نہیں جتنی اثر انداز محبت ہوتی ہے۔ آپ کسی کو اللہ کا مکمل فرماں بردار بنانے کے لیے کیا کیا سکھائو گے؟ سچ بولانا‘ امانت‘ خوش اخلاقی‘ درگزر اور کئی احکامات ہیں جنہیں اللہ مومنین کے مزاج کا حصہ دیکھنا چاہتا ہے‘ کیا آپ تمام معاشرے کے ہر فرد کو یہ ایک ایک حکم سکھا سکتے ہو؟
شعیب: تو پھر کیا طریقۂ کار اختیار کرنا چاہیے؟
ندیم: اس کا حل ہے توحید‘ صرف اور صرف اللہ سے محبت اور شدید محبت۔ جب معاشرے کا ہر فرد اللہ سے محبت کرتا ہوگا تو اللہ کا جز روح میں فعال ہو جائے گا اور وہ جز اس قدر طاقتور ہے کہ خود بخود انسان کو صحیح راہ پر لے آتا ہے۔
شعیب: اللہ کا جز؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کا جز انسان میں آجائے؟
ندیم (مسکراتے ہوئے): ہاں بھائی! یہ حقیقت ہے‘ ہر انسان میں اللہ کا جز موجود ہوتا ہے‘ اسے ’’ضمیر‘‘ کہتے ہیں‘ یہ اللہ کی طرف سے Virus detection کا نظام ہے‘ اس نظام کو اللہ ہی کنٹرول کرتا ہے اور مسلسل ہر انسان کے اندر سے ہدایت اور بھلائی کی پہچان پیدا ہوتی رہتی ہے۔
شعیب: ہاں! اس طرح تو ’’شیطان کا جز‘‘ بھی ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے جو اسے برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔
ندیم: اور تیسرا جز ’’نفس‘‘ ہے‘ یہ انسان کا فیجصلہ اور خواہش ہے‘ جو اللہ کے جز یا شیطان کے جز میں سے ایک کو چنتا ہے۔ بعض لوگ اتنی شدت سے شیطان کے جز اور نفس کو دباتے ہیں کہ ان کے ضمیر میں اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خود بخود ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق کرنے لگتے ہیں اور یہ عشق کی کیفیت اس قدر انتہا پر جاتی ہے کہ اللہ بھی ان کی مرضی کا خیالرکھنے لگتا ہے۔
شعیب: خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
ندیم: درست! تم نے پہلے زمانے کے لوگ نہیں دیکھے‘ نہ انہوں نے قرآن کے ترجمے اور تفسیریں پڑھی تھیں نہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے‘ نہ درس لیتے تھے‘ بس بھینسیں چراتے اور کھانا کھا کر سو جاتے‘ مگر وہ بے ایمانی نہ کرتے‘ جھوٹ نہیں بولتے تھے‘ کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔ ہر ایک کی مدد کرنے کو تیار رہتے‘ ان کے ضمیر بہت مضبوط تھے اور ان کو بھلے کسی نے اللہ کے احکام نہیں سکھائے مگر ان کا ضمیر انہیں اللہ کے راستے پر چلاتا۔
شعیب:ہاں اور آج کل ہم درس کراتے ہیں‘ میلاد کراتے ہیں‘ پانچ سال کی عمر سے قرآن پڑھنا شروع کردیتے ہیں مگر ہمارے اندر کا شیطان اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم اللہ کے نافرمان ہو چکے ہیں‘ ہمارے ضمیر مر چکے ہیں‘ ہمارا نفس اتنا سہل پسند ہوگیا ہے کہ ہر حرام اور ناجائز کو قبول کرلیتا ہے اور شیطان کی مانتا ہے۔
ندیم: اگر ہمارے اندر ’’اللہ کا جز‘‘ فعال ہو جائے تو اسی کیفیت کو ’’اللہ سے دوستی‘‘ کہتے ہیں اور جب اللہ دوست بن جائے تو کسی اور دوست کی بات ماننا شرک کہلائے گا۔ اصل چیز ہی یہ ہے کہ زندگی کے ہر ہر لمحے میں توحید کو مدنظر رکھا جائے‘ اللہ کی رضا ہمارا ٹارگٹ ہو‘ چاہے ساری دنیا ناراض ہو جائے‘ لا الٰہ الااللہ‘ کسی سے کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اللہ کے۔
شعیب: قرآن کی حیثیت ایک ٹیلی فون کی سی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے رب سے رابطہ رکھتے ہیں‘ اس کی پسند نا پسند جانتے ہیں‘ اس سے باتیں کرتے ہیں‘ اس سے پیار کرتے ہیں‘ بہت سے راز معلوم کرتے ہیں اور بہت سے گُر سیکھتے ہیں۔ قرآن دل میں یہ احساس پیدا کر دیتا ہے کہ اللہ ہے‘ ہاں اللہ ہے اور اسے ہماری بہت فکر ہے‘ وہ ہمارا بہت خیال کرتا ہے‘ قرآن پڑھو اور اللہ سے قریب ہو جائو۔
ندیم: یار یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قرآن سمجھ آرہا ہو‘ دل میں اتر رہا ہو‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ یا تو عربی سیکھی ہو ہو یا قرآن کا ترجمہ اپنی مادری زبان میں پڑھیں۔ پتا چلے کہ اللہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا کہنا چاہتا ہے؟ بغیر سمجھے قرآن پڑھنا میری نظر میں بے کار ہے‘ سمجھ کر پڑھو تو قرآن میں واقعی یہ طاقت ہے کہ عشق ایسی کہ سمندر دلوں میں موجزن کر دے اور اصل امتحان یہی محبت ہے‘ جس دل میں رب کی محبت ہے وہی رب کی کائنات میں نائب کی حیثیت سے حکومت کرے گا۔ باقی سب سختیاں اور آزمائشیں تو پیمانہ ہے کہ کس کو اپنے رب سے کتنی محبت ہے۔
شعیب: میرے بڑے بھائی بتا رہے تھے کہ اکثر فون پر انہیں ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ یہ آیت اتنے لوگوں کو بھیجو تو خوش خبری ملے گی یا ہم ہم نے آیت کریمہ کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ دس بار پڑھ کر آگے بھیج دیں‘ کئی بار آیات اور احادیث کا غلط ترجمہ پیغام کی صورت میں بھیجا جاتا ہے۔
ندیم: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے تابعدار اور وفادار نہیں ہیں اس لیے انہیں اللہ کے کلام‘ احادیث اور دیگر متبرک کلام میں ردوبدل کرتے ہوئے ذرا خوف نہیں آتا‘ ہمارا فرض ہے کہ ایسے پیغامات کو آگے بڑھانے سے پہلے پوچھیں کہ آپ نے یہ کلام کہاں سے حاصل کیا ہے‘ منبع بتایئے؟
شعیب: اور شاید ان لوگوں پر وحی اترتی ہے کہ کون سا پیغام آگے بڑھانے سے خوش خبری ملے گی۔
ندیم: اسلام پر عمل کرنے اور اللہ سے عشق کرنے کا رجحان مکمل طور پر ختم ہر لیا گیا‘ چند متبرک چیزوں کو پڑھنے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی عبادت کا حق ادا کر دیا‘ ہم بہت نیک ہوئے جو دس بار یا سو بار اللہ کا کوئی نام یا درود پڑھ لیتے ہیں۔
شعیب: بالکل‘ جش منانا‘ تہوار منانا‘ چند مخصوص عبادات کو اسلام سمجھ لیا گیا ہے جب کہ اسلام ذاتی زندگی سے لے کر معاشرتی زندگی‘ خاندانی زندگی سے لے کر ریاستی معاملات تک ہدایات اور احکام دیتا ہے کوئی بات ماننے کو تیار نہیں‘ بس 100 بار درود پڑھ لینے سے سمجھ لیتے ہیں کہ رسولؐ بھی خوش‘ اللہ تعالیٰ بھی خوش اور ہم سیدھے جنت میں۔
ندیم: کوئی اگر اچھا برا سمجھائے تو اس سے ناراض‘ اس کے ہر کام میضں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔
شعیب: وہی بات ہے‘ نفس اور اندر کا شیطان‘ ہمیں نہ ضمیر کی سننے دیتے ہیں نہ ہمیں کوئی نصیحت پسند آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ضمیر زندہ ہو تو نصیحت کی ضرورت ہی نہیں پڑتی‘ ہر بری بات پر نفس چوکنا ہو جاتا ہے اور فوراً سیدھے رستے پر چل پڑتا ہے‘ اسی طرح نیکی کرنے کے لیے دل تڑپنے لگتا ہے اور اللہ کا جز اس قدر طاقتور ہو جاتا ہے کہ خود بخود نیکی کا صدور ہو جاتا ہے۔
ندیم: نفس اور ضمیر کی یہ طاقت صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کو باقاعدگی سے اپنی زبان میں پڑھا جائے‘ یہی وہ جادو ہے جس نے تمام عرب کو تسخیر کیا۔