قسط نمبر161
(انیسواں حصہ)
پاکستان بچانے کی آخری کوشش کے طور پر ‘آپریشن سرچ لائیٹ’ کا آغاز 25 مارچ 1971 کی صبح اس طرح ہوا کہ اپنے کمرے میں بیٹھے میجر جنرل خادم حسین راجہ کا فون زور دار آواز میں گرجا، یہ مقامی ہاٹ لائن تھی جس کی آواز دوسرے ٹیلیفونز کی نسبت قدرے مختلف تھی ۔ یہ کال جنرل ٹکا خان کی تھی ۔ ” خادم ۔ آج رات ” ۔
اسی وقت 14th ڈویژ ن کے اسٹاف نے یہ اطلا ع ڈھاکا سے با ہر چھاؤنیوں کو دینی شروع کی آپریشن سرچ لائیٹ کے منصوبے میں یہ بات شامل تھی کہ ڈھاکا میں تین ہیڈ کواٹر ہوں گے جہاں سے آپریشن کنٹرول کیا جائے گا ۔ایک کے انچارج میجر جنرل راؤ فرمان علی تھے، جن کے ذمے ڈھاکا شہر تھا ۔ ان کے ساتھ برگیڈئیر ارباب ک سربراہی میں 57 برگئیڈ تھا ۔ دوسرے آپریشن ہیڈ کوارٹر کے انچارج میجر جنرل خادم حسین راجہ تھے،14 ڈویژ ن ان کے ساتھ تھی ۔ جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے مارشل لاء ہیڈ کوارٹر میں رات گزا رنے کا فیصلہ کیا تاکہ آپریشن کا جائزہ لیتے رہیں ۔ یہ تیسرا آپریش ہیڈ کوارٹر تھا جو ڈھاکا ائیر پورٹ کا مغربی کنارے پر واقع تھا ۔ پاک فوج نے باقاعدہ طور پر ان علاقوں میں جہاں فوجی چھاؤنیاں موجود تھیں، غیر بنگالیوں کی جانوں کو محفوظ بنانے کا آغاز کرنا تھا ۔ پاک فوج کی اولین ذمہ داری تھی کہ خانہ جنگی اور فساد کو ہر قیمت پر روک کر امن و اما ن کو بہتر بنایا جائے ۔
رات ایک بجے مقا می کمانڈرز نے کاروائی کا وقت پہلے کردینے کی درخوا ست کی جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مخالفین کو فوجی کاروائی کا علم ہوچکا ہے اور وہ پوری شدت کے ساتھ مزاحمت کے لیے تیار ہیں ۔ بہت نازک وقت تھا، جنرل یحی خان کا جہاز مشرقی پاکستان سے پرواز تو کرچکا تھا مگر مغربی پاکستان نہیں پہنچا تھا۔ جنرل ٹکا خان نے حسا ب لگا یا کہ ابھی یحی خان کا جہاز سری لنکا پر سے گزر رہا ہوگا اگر مشرقی پاکستان میں اسی وقت فوجی آپریشن شروع کیا جائے گا تو ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں ہندوستانی جہاز جنرل یحی خان کے طیارے کو فضا میں ہی نقصان نہ پہنچائیں ۔ چنانچہ یحی خان کے مغربی پاکستان لینڈ کرجانے کا انتظار کرنا ہی مناسب ہے ۔
مگر برگیڈئیر ارباب چھاؤنی سے پہلے دستے کو لیکر نکلے ہی تھے کہ انہیں فارم گیٹ پر مزاحمت کا کا سامنا کرنا پڑا ۔ باغی راستے میں حائل تھے ۔ سڑک پر رکاوٹیں ڈال کر جئے بنگلہ کے نعرے لگا رہے تھے ۔ اسی میں گولیاں چلنی شروع ہوگئیں گولیاں،،، پھر نعرے، گولیاں اور پھر نعرے ۔ پندرہ منٹ بعد ہنگامہ رکا اور نعرے مدھم پڑگئے ۔ کاروائی از خود شروع ہوچکی تھی ۔ ریڈیو پاکستان سے شیخ مجیب کا غالبا پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام نشر ہورہا تھا کہ ” عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان ہوگیا ہے ۔ شیخ مجیب کہہ رہا تھا کہ ” شا ید یہ میرا آخری پیغام ہو، میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ‘ آج سے بنگلہ دیش آزاد ہے ۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ جب تک غاصب فوج کا آخری سپاہی دھرتی سے باہر نہیں نکل جاتا، آپ اپنی جنگ جاری رکھیں ”
اس ضمن میں سابق سفارتکار بنگلہ دیش،سابق آرمی آفیسر پاکستان فوج (باغی) اور بنگلہ دیش کے آزادی کے عسکری رہنما کرنل شریف دالیم نے اپنی سرگزشت Bangladesh Untold Facts میں اس طرح کا نقشہ کھینچا، (وہ مغربی پاکستان (کوئٹہ چھاؤنی) میں تعینات تھے، اور مارچ کے مہینے میں ہی اپنے تین بنگالی آرمی آفیسرز کے ساتھ بہاولپور کے راستے ہندوستان فرار ہو ئے اور ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کرکے بنگلہ دیش کے قیام اور آزادی کے لیے جدو جہد اور اپنی وفاداری کا اعلان کیا) ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ” فروری کے آخر تک شیخ مجیب جو اس وقت دھان منڈ ی میں اپنی قیام گاہ پر موجود رہتے تھے، وہ حالات کی خرابی کے باوجود عوامی قیادت اور مزاحمت کی تحریک کو منظم کرنے کے لیے زیر زمین جانے پر تیار نہیں تھے حالانکہ پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں، اور دیگر افراد نے ان کو یہ بات با ور کروانے کی بارہا کوشش کی کہ حالات کی خرابی کے پیش نظر زیر زمین روپوش ہو جانا چاہیے۔ لیکن شیخ مجیب ایک بات پر بضد تھے کہ وہ صرف جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور کسی قسم کی مسلح جدوجہد میں شریک نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے اس بات کو بھی پوری طرح تسلیم نہیں کیا تھاکہ پاکستانی فوج آخر کار معصوم لوگوں پر وحشیانہ تشدد کا آغاز کردے گی ۔ آخر وقت تک انہوں نے کسی کی منطق اور دلیل نہیں ما نی آخر کار انہوں نے 27 مارچ کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا….. وہ مزید لکھتے ہیں کہ فوج نے ٹی وی اسٹیشن اور ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرلیا تھا شہر میں ٹینک گھوم رہے تھے۔ شدید فائرنگ سے ڈھاکا شہر گونج اٹھا، رات بارہ بجے اچانک توپوں کے گولے اور مارٹر اور مشین گنوں کے فائر کی آوازیں شدید تر ہوتی چلی گئی ۔ عظیم پو ر، نیو مارکیٹ، جیل خانہ اور یونیورسٹی کے علاقے میں بلند شعلے دور سے دکھائی دیتے تھے، مرتے ہوئے لوگوں کی چیخ و پکار، زخمیوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی تھی قتل و غارت گری کا یہ کھیل تمام رات جاری رہا ۔….. تین روز بعد شہر کی صورتحال قدرے بہتر ہو گئی ۔ فوج نے شہر کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا تھا حکومت نے ریڈیو ٹی وی سے اعلان کروایا کہ تمام سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر ہوجائیں ۔ اسی دوران چٹا گانگ ریڈیو پر میجر ضیا الرحمن (پاک فوج کا باغی میجر) کی آواز چلی کہ ہم نے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کردیا ہے تمام بنگالی مزاحمتی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ ڈھاکا پاکستانی فوج کے کنٹرول میں تھا جبکہ دوسرے علاقوں پر بنگلہ دیش آزادی کے مجاہد قابض تھے ۔ چٹا گانگ، کھلنا، کومیلا، نواکھلی، جیسور، راج شاہی، رنگ پور، دیناج پور اور باقی ماندہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی آزادی کے مجاہدین کے کنٹرول میں تھے ہر جگہ مقامی انتظامیہ، سیاسی لیڈر، کارکن، طالب علم اور عوام مسلح افواج سے بغاوت کرنے والے بنگالی فوجیوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے”
یہ وہ حالات تھے جن میں غیر بنگالی اور بنگالی دونوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق تھے ۔ جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کو پاک فوج کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا، ان سے اگر پوچھا جائے کہ ان حالات میں اسلام پسند محبان پاکستان کے لیے پھر کونسا طریقۂ کار باقی بچتا تھا؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب اس لیے نہیں ہوتا کہ وہاں کے حالات سے انہیں مکمل آگاہی نہیں ۔
اب آتے ہیں البدر کی ضرورت اور قیام کی تفصیلات کی جانب ۔۔۔۔۔
اسلامی چھاترو شبر کی صوبائی شوریٰ(صوبہ مشرقی پاکستان) نے اسی ہنگامی اجلاس میں یہ قرارداد بھی منظور کی تھی کہ فوری طور پر جمہوری عمل کی ابتدا کرتے ہوئے اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کیا جانا چاہیے ۔ البدر کے قیام کا فیصلہ تو ہوچکا مگر اب اس کو پورے مشرقی پاکستان میں کارکنان تک اسی روح کے ساتھ منتقل کرنا جو اس فیصلے اور قربانی کی متقاضی تھی، من و عن پہنچانا جا ن جوکھم میں ڈالنے جیسا تھا ۔ مواصلات کا نظام درہم برہم تھا، ڈاک کی نگرانی ہورہی تھی ۔ آزادانہ خط و کتابت پر پابندی تھی ۔ سرکلر کے ذریعے پیغا م دینا موت کو دعوت دینا تھا ۔ لہٰذا طے پایا کہ صوبائی شوری کے چار اراکین مشرقی پاکستان کے اضلا ع کا دورہ کریں اور جہاں جہاں کارکنان موجود ہیں ان تک اس پیغا م کو نہ صرف پہنچائیں بلکہ آئندہ کے لیے صف بندی بھی کریں ۔ 15اور 16 مارچ کو چاروں اراکین نے اپنے دورے کا آغاز کی اور ایک ہفتے کی شبانہ روز محنت کے بعد مشرقی پاکستان میں کارکنان تک اپنے پیغا م کو پہنچا یا، ہر مقام پر اس فیصلے کو سراہا گیا اور نئی صف بندی کے لیے تیاری شروع ہوگئی ۔ اپریل اسی تیا ری میں گزر گیا۔ کارکنان جمعیت کی سرگردگی میں ایک علیحدہ رضاکار فورس کی تجویز تھی جسے پاک فوج کی ” ایسٹرن کمانڈ ” نے سرخ فیتے کی نظر کردیا، مگر فو ج میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس وقت اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے ۔ 31 ۔ بلوچ رجمنٹ کے نوجوان میجر ریاض بلوچ نے ہمت کرکے اس سمت پہلا قدم اٹھایا ۔
اپنے ایک انٹرویو میں میجر ریاض حسین ملک نے البدر کے قیام کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا ” دشمن تعداد میں بہت زیادہ تھا ۔ تخریبی عناصر بھی کچھ کم نہ تھے ۔ ہمارے ذرا ئع معلومات نہ ہونے کے برابر اور ذرا ئع مواصلات غیر مربوط تھے ۔ ہمارے جوان حال ہی میں مشرقی پاکستان آئے ہیں ۔ بنگلہ زبان اور بنگال کی فضاء سے قطعی ناواقف تھے ۔ ہماری تربیت کے دوران اس امکان کی جانب کبھی سوچا ہی نہیں گیا تھا ۔
ان حالا ت میں وطن کے دفاع کا فریضہ انجام دینا انتہائی مشکل تھا۔ ہمیں ایک مخلص، قا بل اعتماد، اور محب وطن بنگالی گروہ کی ضرورت تھی جو پاکستان کی سالمیت کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہو ۔ پچھلے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں بنا ئی جانے والی رضاکار فورسز کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا، تاہم میں نے یہ دیکھا کہ میرے سیکٹر میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی نوجوان بڑے اخلاص کے ساتھ دفاع، رہنمائی اور حفظ راز کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے اس لیے میں نے ہائی کمان سے اجازت لیے بغیر قدرے جھجکتے ہوئے کچھ نوجوانوں کو علیحدہ کیا، ان کی تعداد 47 تھی ۔16 مئی 1971 کو شیر پور میں (ظلع میمن سنگھ) انہیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا ۔ ان کارکنان کی محنت، لگن اور تکنیک دیکھتے ہوئے ایک ہفتے بعد میں نے ان سے خطا ب کا ازخود فیصلہ کیا۔ دوران خطاب میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملے ادا ہوئے کہ ” آپ جیسے سیرت و کردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندان اسلا م کو ” البدر ” کے نام سے پکارا جانا چاہیے ۔ اس طرح تین ماہ کے اندر اندر پورے مشرقی پاکستان میں جمعیت سے وابستہ نوجوانوں کو اسی نام سے منظم کیا گیا ” البدر ” کے پہلے کمانڈر کامران تھے جو اس وقت انٹر سائنس کے طالبعلم تھے ”
حوالہ جات: Witness to surrender میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا ۔ صدیق سالک شہید
Bangladesh Untold Facts: کرنل شریف دالیم
البدر؛ پروفیسر سلیم منصور خالد
(جاری ہے)