افروز عنایت
گزشتہ دنوں ایک خبر نظروں سے گزری کہ خاتون کو حجاب کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اگرچہ چھوٹی سی خبر ہے لیکن ایک المیہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس حیا کی بیٹی کو مقام احترام سے نوازا جاتا، اسے تنقید کا نشانہ بنا کر باضمیر انسانوں کے لیے ایک سوالیہ نشان بنادیا گیا۔ آج ہم کس سمت کی طرف رواں دواں ہیں، یہ سوچ ہمیں تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل رہی ہے، مغربیت کی اندھی تقلید نے ہم سے اپنی شناخت چھین لی ہے اور ہم غافل ہیں۔ بے حیائی، لھوولھب، نے ہم کو اسلامی روایات و تعلیمات سے غافل کردیا ہے۔ دین سے دوری نے حیا کی بیٹی کو مقام عبرت پر پہنچادیا ہے، کافی عرصہ پہلے مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا جس میں مولانا صاحب نے عیسائیت کی پستی کی بڑی وجہ عورت کی بے باکی اور بے حیائی بتائی ہے، آج ہمارے معاشرے میں بھی اس کی ابتداء ہوگئی ہے عورت سے حیا کی چادر چھین کر اسے بے حیائی، نمود و نمائش، عریانیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے جس میں ہمارے میڈیا کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ ٹی وی ڈرامے، کھیل وغیرہ کسی بھی خطے کی معاشرتی زندگی کا عکس پیش کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں گھر بیٹھے بچے جوان وغیرہ اس سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اسے اپنا کلچر سمجھ کر اپناتے بھی ہیں، اس کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں، کیا ہمارا میڈیا ہماری نئی نسل کو اپنا کلچر دے رہا ہے یا چھین رہا ہے۔ میری آپی کو اپنے شوہر کی ملازمت کی وجہ سے چند سال جرمنی میں رہنے کا اتفاق ہوا وہاں کے ماحول اور ٹی وی پروگراموں کی حالت زار سے ہر ایک واقف ہے۔ آپی کی بچیاں اس وقت چھوٹی تھیں آپی انہیں ٹی وی دیکھنے نہیں دیتی تھی کہ یہ سب ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے، یہ پروگرام ہمارے لیے نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کے لیے بنائے گئے ہیں، اس لیے آپ اسے نہ دیکھیں اور نہ اپنائیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے آج اپنے وطن عزیز میں یہ سب ہورہا ہے، کس طرح نئی نسل کو کہا جائے کہ یہ ہمارے کلچر کی نمائندگی نہیں کی جارہی ہے، ڈراموں میں عریانیت، شراب، گانے بجانے، رقص لھو ولھب، بے ہودہ قسم کے مناظر و ڈائیلاگ کیا یہ سب ہمارے کلچر اور اسلامی تعلیمات کی مظہر ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ ’’پیمرا‘‘ خاموش تماشائی ہے یا ان کی پشت پناہی سے یہ سب ہورہا ہے؟ جواب دہ کون ہے؟ عام طور پر سنائی یہ دے رہا ہے کہ عوام کی خواہش یہ ہی ہے اس لیے چینلز اپنی کامیابی کے لیے یہ سب کرنے پر مجبور ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ عوام کی پسند کو اس سطح تک پہنچایا کس نے ہے کہ آج ہم سب کی پسند ’’یہ‘‘ ہوگئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سینما ہال میں شمیم آراء اور صبیحہ خانم کی فلموں پر بے انتہا رش ہوتا تھا یہ وہ فلمیں تھیں جو حقیقی کہانیوں پر فلمائی جانے والی اور مکمل لباس زیب تن کی ہوئیں اداکارائوں کی تھیں جسے لوگ پسند کرتے تھے، کافی عرصہ پہلے وی سی آر پر ایک فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ایک صاف ستھری فلم تھی، بڑوں سے سنا کہ اس فلم نے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی تھی کیونکہ چاروں طرف شرافت کا ماحول تھا۔ آج کی نسل سے یہ فلم ہضم ہی نہیں ہوپائے گی کیونکہ میڈیا نے انہیں ’’گندگی‘‘ کا عادی کردیا ہے، اب اگر ٹی وی پر کوئی صاف ستھرا پروگرام نشر ہوتا ہے تو دیکھنے والے صرف ’’بزرگ‘‘ حضرات ہی ہوتے ہیں۔ دن بدن لھوو لھب پروگرام کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے، پیمرا کیوں نہیں ان کی روک تھام کررہا ہے، کیوں انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے، اگر کوئی روک تھام و بندش ہو تو کچھ تو سدباب ہوسکتا ہے، ہر ادارے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط لازمی ہوتے ہیں جن کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی صحیح کام ممکن ہوسکتا ہے۔ پیمرا کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوں گے، اسلامی مملکت کو مدنظر رکھتے ہوئے چینلز کے بے لگام، بے باک پروگرام کو دیکھ کر تو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ پیمرا نے اسلامی مملکت کے چینلز کے لیے اصول مرتکب کیے ہیں، یوں لگتا ہے کہ چینلز کو مکمل چھٹی دے رکھی ہے، پھر اس ’’بے لگام‘‘ چینلز کی جھلک ہمیں اپنے چاروں طرف نظر آرہی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جس سے شادی بیاہ کی محفلیں اور درسگاہیں بھی محفوظ نہیں، ناچ گانے کی سرگرمیاں درسگاہوں میں عام ہوچکی ہیں، جس میں بے حیائی کے رنگ سب کو اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے کافی ہیں۔ آج کے دور میں جو اِن رنگینیوں کی کیچڑ سے اپنے دامن کو بچالے وہ جہاد کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے، ان خرافات کے خلاف لب کشائی کرنے والے کو دقیانوسی ہے۔ لیکن بحیثیت مسلمان دینی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر ایمانداری سے کہیں کہ کیا یہ روش صحیح ہے، کیا ہم صحیح سمت کی طرف ہیں؟ ہماری آنے والی نسلوں کا کیا حشر ہوگا؟ اس میڈیا نے ہر گھر میں آگ لگادی ہے، اس کی لپیٹ سے چند ہی گھرانے بچے ہوئے ہیں، آج کا موازنہ گزری کل سے کریں تو نمایاں فرق صاف نظر آتا ہے آج نوجوانوں کا درسگاہوں میں سرِعام سگریٹ پینا، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دوستانہ تعلقات، محفلوں میں عام شراب نوشی، نمود و نمائش، عورتوں کا مختصر لباس، بے باکانہ قسم کی گفتگو، ناچ گانے، یہود و نصاریٰ و ہندوئوں کی عبادت گاہوں میں حاضری دینا، سود کا عام ہونا، غلط راہوں سے دولت اکٹھی کرنا، جوا وغیرہ یہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے میں سرایت کرگئی ہیں۔ میری بہن مسرت جو گزشتہ آٹھ سالوں سے امریکا میں مقیم ہے وہ پاکستان آئی تو حیران رہ گئی کہ 50 فیصد لڑکیوں کا دوپٹا غائب ہے، اتنی جلدی یہ تبدیلی کیسے رونما ہوئی، وہ پاکستانی چینلز میں تو یہ بات نوٹ کررہی تھی لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ حقیقی دنیا میں بھی یہ ’’گل‘‘ کھل چکا ہے۔ تب ہم نے اسے کہا کہ جو نئی نسل کو دکھایا جارہا ہے وہ ’’وہی‘‘ اپنا رہے ہیں۔ جواب میں میری بہن نے کہا کہ وہاں ’’میڈیا‘‘ بالکل ’’بے باک‘‘ ہے لیکن وہاں رہنے والے پاکستانی اپنے بچوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لیے نہیں، ہمارا کلچر اسلام کی ترجمانی کرنا ہے، ہمیں اپنے آپ کو اُس اسلامی رنگ میں رنگنا چاہیے۔ لیکن یہاں آکر افسوس ہوا کہ اس قدر میڈیا کا رنگ نئی نسل پر غالب آگیا ہے، نہ جانے چند سال بعد نئی نسل کہاں ہوگی۔ کس کے دروازے پر دستک دی جائے کہ اس کی روک تھام ہوسکے اور اپنا دامن اس ’’کیچڑ‘‘ سے بچایا جاسکے۔
معاشرے میں پھیلی تمام برائیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ جہالت کی تمام برائیاں اور گندگی پلٹ کر آج ہم پر سوار ہوگئیں جن کا خاتمہ طلوع اسلام سے ہوا تھا۔ جیسا کہ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے علم دیا ہے کہ میں تمام باجوں، گاجوں کو آلات لہو و لعب کو اور بتوں کو مٹا دوں جن کی زمانہ جہالت میں عبادت کی جاتی تھی‘‘۔
لیکن آج افسوس کا مقام ہے کہ جن برائیوں کا آپؐ نے خاتمہ کیا ان کو دوبارہ زندہ کردیا گیا ہے۔ لیکن ہم اللہ کے عذاب سے غافل ہوگئے ہیں، سرپٹ گھوڑوں کی طرح بے لگام دوڑے جارہے ہیں اور اپنے آپ کو اس دھوکے میں رکھا ہوا ہے کہ ہم ترقی کی طرف گامزن ہیں (استغفراللہ)
ربّ الکریم کا ارشاد ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے اس سے کہ ان پر (دنیا میں) کوئی آفت (نہ) آپڑے یا ان پر (آخرت) میں کوئی درد ناک عذابِ (نہ) نازل ہوجائے۔
اس طرح حدیث مبارکہ ہے کہ ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا شراب کو اور جوئے کو، اور باجوں کو اور طبلوں کو اور طنبوروں کو‘‘
غرض کہ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ ان (میڈیا پر برپا برائیوں کی) برائیوں سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اللہ اور رسول کی نافرمانی پر دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ ربّ العزت ہمیں ان برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے میڈیا کو اور پیمرا کو ہدایت عطافرمائے (آمین) کہ وہ عوام الناس کو گناہوں میں دھکیلنے سے بچائیں۔ اس سلسلے میں ارباب اختیار اور علماء کرام کو بھی اُترنا لازمی ہے تا کہ کچھ نہ کچھ تو روک تھام اور لگام لگ پائے۔
اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ اس عمل کو لگام دی جا سکے۔