شریکِ مطالعہ

960

نعیم الرحمن
احمد حاطب صدیقی عرف ابونثر انتہائی دل چسپ اور شگفتہ کتاب ’’جو اکثر یاد آتے ہیں‘‘ اچانک ہاتھ آگئی۔ جسے ایمل پبلشرز نے شائع کیا ہے۔ دوبارہ پڑھ کر کتاب کی دل چسپی پہلے سے بڑھ کر محسوس ہوئی۔ کتاب میں ابونثر نے اپنے احباب، ملنے جلنے والوں اور بزرگوں کی سنہری یادوں کو تازہ کیا ہے۔ ایمل پبلشرز نے مختلف صفحات پر تصاویر اور روایتی انداز کے بجائے دو کالمی اشاعت سے نہ صرف کتاب کی خوب صورتی میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس میں زیادہ مواد بھی سمو دیا ہے جس کے لیے پبلشر شاہد اعوان مبارک بادکے حق دار ہیں۔ ابونثرکی تحریر میں موجود شگفتگی نے اس کی دل چسپی کو دو چند نہیں سہ چند کر دیا ہے اور قاری کوکتاب شروع کرنے کے بعدختم کرنے پرمجبورکردیتی ہے۔ ’جواکثریادآتے ہیں‘ میں اڑتالیس معروف اورغیرمعروف افرادکی یادوں کوتازہ کیاگیاہے۔یہ نہ خاکے ہیں اورنہ ہی سوانح بلکہ مصنف جن لوگوںسے ملتاجلتا رہا۔ان کے ساتھ پیش آنے والی چند دلچسپ یادوںاورواقعات کواپنے دلچسپ اورشگفتہ اندازمیں بیان کردیا ۔ دوسو اسی صفحات کی بے مثال کتاب کی قیمت چارسواسی روپے بھی انتہائی معقول ہے۔
پیش لفظ اورعرضِ ناشرمیں ہی شگفتگی کی جولہرشروع ہوتی ہے۔وہ کتاب کے اختتام تک برقراررہتی ہے اوراسے ریڈایبل بنادیتی ہے۔منفرد مزاح نگارڈاکٹرایس ایم معین قریشی کہتے ہیںکہ’’ابونثرصاحبِ طرزمزاح نگار،پختہ کارکالم نویس اورمیرے پسندیدہ مزاح نگار ہیں۔اطہر ہاشمی اظہارِخیال کرتے ہیںکہ ’’ابونثرکے کالموں میں جہانِ معنی آبادہے۔ان کے کالم پاکستان کے کسی بھی اچھے کالم نگارسے کم نہیں بلکہ کبھی کبھی وہ بہت آگے بڑھ جاتے ہیں۔ہم ان کے کالم پڑھتے تھے اورجلتے تھے کہ ہم ایساکیوں نہیں لکھتے۔مرحومین کے خاکے توانہوں نے ایسے لکھے کہ مرنے والوں کے جی اُٹھنے کی حسرت پیداہوگئی۔‘‘ڈاکٹرطاہرمسعود کاارشاد ہے کہ ’’ابونثرکے تمام کالموں میں مقصدیت چھپی ہوتی ہے۔وہ ایک دلِ دردمندرکھنے والے کالم نگار ہیں اور پڑھنے والوں کواپنی تحریروں سے محظوظ کرناچاہتے ہیں چنانچہ ان کی تحریریں شگفتہ ہوتی ہیں۔وہ اول وآخر ایک سچے مسلمان اورکھرے پاکستانی ہیں۔انہیں اپنی تہذیب واقدارسے لگاؤ ہے۔اپنے وطن سے پیار ہے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہرطرف تلخیاں بکھری ہوں، اخبارات میں روزانہ دُکھ دیتی اور آنسو رُلاتی خبریں چھپتی ہوں، ابونثر کے نثر پارے ہوا کا تازہ اور خوشگوار جھونکا ہیں۔‘‘ سلیم منصورخالد نے لکھاکہ ’’ابونثراس نثرکے بادشاہ ہیں،جس میں ایمان کی خوشبو، مقصدیت کی روشنی اورمزاح کی چاشنی اس شان سے بانہوں میں بانہیں ڈال کرچلتے ہیں کہ سچائی کمجسم شکل اختیارکرلیتی ہے۔‘‘ لیکن سب سے بڑا خراج ِ تحسین استادمحترم اورصاحبِ طرزادیب اور خاکہ نگار ڈاکٹراسلم فرخی نے ابونثرکوان الفاظ میں پیش کیاہے کہ ’’عام طورپر ہوتا یہ ہے کہ وقتی موضوعات اورہنگامی حالات پرلکھے جانے والے کالم بہت جلداپنی مقصدیت اوراہمیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔لیکن ابونثر کے کالموں کومزاح کی پھلجڑیوں نے مقصدیت اورطویل دورانیہ عطاکیاہے۔ان کا ہرشگفتہ ،فکرانگیز ،تہ دار اورمعنی خیزفقرہ آج بھی ذہن کوگدگداتاہے،چٹکیاں لیتاہے اورغوروفکرکے نئے در،بازکرتا ہے ۔ہماری صحافت غیرمعمولی سنجیدگی اور خشکی کاشکارہوگئی ہے۔طنزومزاح کا پیرایہ اول تونظرہی نہیں آتااوراگرکہیں ہے توٹھونسم ٹھاس کے طورپر۔ابونثرکے مزاحیہ کالم شگفتگی ،زندہ دلی اوران کے پس پشت زندہ وتوانا قلب ونظرکی نشان دہی کرتے ہیں۔‘‘
ان بڑے لوگوں کے اظہارِ خیال کے بعد اگراڑتالیس ممدوحین کے بارے میں ابونثرکی خاکہ نماان تحریروں کاسرسری جائزہ بھی لیاجائے تومضمون شیطان کی آنت بن جائے۔ان افراد میں شاعر افتخار عارف، دانشور ڈاکٹر حمید اللہ، سیاستدان پروفیسر غفور احمد، محسنِ قوم حکیم سعید، مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی، ڈکٹیٹر ضیاالحق سے لے کرآصف فرخی، مشفق خواجہ، سید قاسم محمود اور مزاحیہ شاعرعنایت علی خان، میجر آفتاب احمد اور ایک نامعلوم شخص اور نور محمد پاکستانی تک عام اورخاص ہرقسم کی شخصیات شامل ہیں اور ہرتحریر قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔
کتاب کی پہلی یادافتخارعارف سے متعلق ہے۔یاد آتاہے کہ جامعہ کراچی آرٹس لابی کی ایک منڈیرپرتنہا(کسی بلبل کی طرح) اُداس بیٹھاتھا کہ یکایک استاد محترم سحر انصاری کاوہاں سے گزرہوا۔ انہوں نے ہماراہاتھ پکڑااوراپنے کمرے میں لے آئے،(کبھی ایسے اساتذہ بھی ہوتے تھے) پوچھا’ہاں میاں بتاؤکیابات ہے؟‘اپنے حالات کے تجزیے کی روشنی میں ان سے کہا’سرنوکری چاہیے!‘ انہوں نے میز کی دراز سے ایک کاغذ نکالا۔ واسکٹ کی جیب سے قلم کھینچا، کچھ دیرتک قلم سے کاغذ پر مشقِ سخن کرتے رہے‘ کر چکے تو اپنا لکھا تہہ کرکے ہمیں تھماتے ہوئے بولے بھئی اس وقت ہم تمہارے لیے کچھ اور تو نہیں کرسکتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن،کراچی مرکز میں ہمارے ایک دوست ہیں،افتخارعارف۔یہ پرچہ لے کران کے پاس چلے جاؤ۔اگرکچھ ہوسکاتووہ ضرورتمہاری مدد کریں گے۔ہم جامعہ کراچی کے بس سے نیوٹاؤن پولیس اسٹیشن کے اسٹاپ پراُترگئے۔وہاں سے پیدل پی ٹی وی پہنچے۔استقبالی کلرک ہمیں ہرحیلے بہانے ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔ نہ ٹلے توآخرافتخارعارف صاحب سے فقط فون پربات کروائی۔انہوں نے سحرانصاری کانام سنتے ہی ہمیں فوراً اندر بلوالیا۔ پرچہ (یا رائج الوقت الفاظ میں پرچی) پڑھنے کے بعد افتخار صاحب نے ہم سے چند بنیادی سوالات کیے۔ہرچند کہ ہمارے جوابات سے خاصے متاثر نظرآئے ۔مگریہ پوچھ کرہمیں مایوس کردیاکہ بیٹے ،کہاآپ کاپی رائٹرکی حیثیت سے کام کرلیں گے؟ہم نے دل ہی دل میں بڑی تیزی سے کاپی رائٹرکااردوترجمہ کیانقل نویس اورفوراً انکار میں گردن ہلادی۔نہیں ،کاپی رائٹرتونہیں۔کوئی بہترکام ہو تو بتائیے!افتخارعارف صاحب ہماراجواب سن کرمسکرادیے۔ممکن ہے کہ بعدمیں مسکرامسکرا کرتمام کاپی رائٹرصاحبان کوہمارایہ جواب سنایا ہو اور اُن کے تلملانے سے لطف اُٹھایاہو۔مگرہم سے تواُس وقت یہی فرمایاتھاکہ ’اچھابیٹے،کوئی بہترکام نکلاتومیں سحرانصاری صاحب کومطلع کردوں گا۔‘اے صاحبو،افتخارعارف صاحب کی لاعملی دیکھیے کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھاکہ ہمیں کاپی رائٹرکامطلب نہیں معلوم۔جس روز پہلی بار معلوم ہواکہ یہ نہ صرف تخلیقی کام ہے بلکہ یہ واحدتخلیقی کام ہے۔جس میں آمدنی بھی ہوتی ہے۔توہماری حالت اسی شخص کی سی ہوئی جس نے پہلی بارگینڈا دیکھ کریہ جاناکہ بیس برس پہلے اُس شخص کی گینڈے سے کیامرادتھی۔
کیادلچسپ انداز ہے۔واقعہ بیان کرنے کا۔ہنسی ہی ہنسی میں پرانے اساتذہ کااپنے شاگردوں سے دلی تعلق،افتخارعارف کی سحرصاحب سے عقیدت اوران کے حکم کی تعمیل کی کوشش اوراپنی نالائقی کوبیان کیاہے۔اس کاجواب نہیں۔یہی اندازبیان معروف مذہبی اسکالر اور دانشور ڈاکٹرحمیداللہ کے واقعہ میں بھی ہے۔یہ واقعہ خود ڈاکٹرصاحب کے الفاظ میں سنیے۔وہ کہتے ہیں۔’’ایک مرتبہ ایک فرانسیسی نن نے تعدد ازدواج کے متعلق اعتراض کیا۔میں نے اسے جواب دیاکہ’ اگراورلوگ مجھ پریہ اعتراض کریں توقبول،لیکن مجھے تم سے اِس اعتراض کی توقع نہیں تھی،کیوں کہ تمہارے اپنے عیسائی مذہب کے مطابق نن خداکی بیوی کہلاتی ہے۔اس طرح تمہارے شوہرکی تولاکھوں بیویاں ہیں ، جب کہ تم صرف چاربیویوں پرمجھ پرمعترض ہو۔‘ واضح رہے کہ ڈاکٹرصاحب کی ایک بھی بیوی نہیں تھی۔انہوں نے تمام عمرشادی ہی نہیں کی۔اُ ن کی شادی تحقیق وتصنیف وتالیف سے جوہوگئی تھی۔اس مختصرواقعے سے ابونثر نے ڈاکٹرحمیداللہ کی قابلیت اوردلیل کے ساتھ کسی بھی اعتراض کاجواب دینے کی قدرت کوبیان کیاہے۔اسی طرح کی کئی واقعات اس خاکے میں موجود ہیں۔
حکیم محمدسعید شہید کے خاکے میں کیاسبق آموزواقعہ درج ہے۔کہنے لگے کہ ’’ہمدردوالوں کواپنی سالانہ تقریب کے لیے کوئی مہمان خصوصی نہیں ملتاتومجھے بلاکرکرسیء صدارت پربٹھادیتے ہیں۔ایسی ہی ایک تقریب کے اختتام پرمحترمہ پرنسپل صاحبہ نے اعلان کیا’ہربچہ اپنی اپنی کرسی خوداُٹھاکرواپس ہال میں پہنچائے گا‘ میں کرسی صدارت پربیٹھا تھا۔میں نے بھی بچوں کی طرح اپنی کرسی اپنے سرپراٹھالی۔حاطب میاں ، آپ کوشاید علم ہوکہ کرسی صدارت کتنی بھاری ہوتی ہے۔بچوں کی قطار میں اپنے سرپراپنی کرسی لیے ہال کی طرف چلاجارہاتھاکہ میں نے دیکھاایک خاتون بچے سے کرسی چھین کراُسے پرے پھینک رہی ہیں۔اُسی حالت میں(سرپراپنی کرسی اُٹھائے ہوئے) میں تیزی سے ان کے پاس پہنچااورپوچھاکہ آپ کیاکررہی ہیں؟یہ دیکھنے کے باوجودکہ میں نے خوداپنے سرپرایک کرسی لادی ہوئی ہے،مجھ سے کہنے لگیں ،میں نے اپنے بچے کوآپ کے اسکول میں اس لیے داخل نہیں کیاکہ وہ کرسیاں ڈھوئے۔میں نے اُن سے نرمی سے عرض کیا،پھر آپ کل سے اپنے بچے کوہمارے اسکول نہ بھیجیں! اوریقین کروکہ میں نے اگلے دن فون کرکے معلوم کیاکہ وہ بچہ اسکول تونہیں آیا؟۔‘‘اسی خاکے میں حکیم سعید کی شہادت کے بارے میں تحریر ہے کہ ’’ ایک اردواخبارنے اپنے ذرائع سے حکیم سعید کے قتل کی سازش کی مکمل روداد مفصل شائع کی تھی۔سازش کے شرکاء کے نام بھی بتائے۔منصوبہ سازوں نے برنس روڈ کی ایک قدیم عمارت میں قاتلوں کونشہ پلاپلاکر جگائے رکھا۔جب صبح پونے سات بجے حکیم صاحب کی گاڑی وہاں آکررُکی توانہیں بتایاگیاکہ اس میں سے جوشخص اُترے گا،اُسی کونشانہ بنانا ہے۔ملزموں میں سے ایک شخص نے اخباری نمائندوں کوروتے ہوئے بتایا،ہمیں واپس لے جاکرسلادیاگیاتھا۔شام کواُٹھ کرجب اپنے گھرپہنچاتومیں نے اپنی ماں کوبری طرح روتے ہوئے دیکھا۔میرادل دھک سے رہ گیا۔میں نے پوچھا اماں کیاہوگیا؟کیوں رورہی ہو؟ ماں نے ہچکیوں کے بیچ میں بتایا آج صبح کسی بدبخت نے حکیم سعید کوشہید کردیاہے۔تب مجھے معلوم ہواکہ وہ حکیم سعید تھے۔
کس قدردلدوز واقعہ ہے ۔جس سے علم ہوتاہے کہ ہمارے معاشرے میں قاتل خود نہیں جانتے وہ کسے اورکیوں قتل کررہے ہیں۔مشتاق احمدیوسفی کے بارے میں ابونثرلکھتے ہیں کہ’’ہماری چوکڑی یاچھکڑی یوسفی صاحب کی تحریروں کاباجماعت مطالعہ کرتی تھی۔باجماعت مطالعہ ہماری کمزوری نہ تھی۔ضرورت بن گئی تھی۔وجہ اس کی یہ سمجھ آتی ہے کہ یوسفی صاحب کافقرہ پڑھتے ہی جی چاہنے لگتا تھاکہ فوراً جاکرکسی کو سنائیے۔ہمارے ایک دوست تویوسفی صاحب کے حافظ ہوگئے تھے۔اُن سے آپ کسی وقت بھی اورکوئی بھی معلومات حاصل کرسکتے تھے۔ پوچھ سکتے تھے کہ یوسفی صاحب نے اس موضوع جوبات کہی ہے،یااس فقرے سے ملتی جلتی جوبات کہی ہے وہ کیاہے؟ حضرت نہ صرف فقرہ مطابق اصل سنادیتے تھے۔بلکہ کوئی لفظ آگے پیچھے کرتے تھے نہ ہونے دیتے تھے۔اگرکوئی کربیٹھے توفوراًتصحیح کرتے تھے۔متعلقہ کتاب اورمتعلقہ مضمون کاحوالہ بھی دیاکرتے تھے۔اُ ن کاکہنا تھاکہ یوسفی کے فقروں کوپروف ریڈروں جیسی مہارت سے پڑھناپڑتاہے۔ہماری توجہ اس امرکی طرف انہی نے مبذول کرائی تھی کہ جس فقرے کوہم ہمیشہ یوں پڑھتے رہے کہ ’کھانے کی ترکیبیں بھی ذہن نشین کراتے جاتے تھے‘ وہاں غورسے دیکھ کر پڑھو۔’ذہن نشین ‘نہیں،’دہن نشین‘ لکھاہے۔یہ مختصر خاکہ مشتاق احمدیوسفی کے فن کاکیاشاندارمحاکمہ ہے۔ جس سے یوسفی صاحب کی تحریرکوزیادہ باریک بینی سے پڑھنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
(جاری ہے)

حصہ