چہار مجموعہ ہائے سخن

720

فیض عالم بابر
’’مرگِ ناوقت‘‘ نظموں پر مبنی احسان اصغر کا 87 صفحات پر مشتمل مختصر سا مجموعہ ہے جسے کولاج لاہورنے شائع کیا ہے۔احسان اصغر کی نظمیں منفرد لفظیات لیے ہوئے ہیں ۔یہ نظمیں عقل اور وجدان کی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔عقل اور وجدان کی کشمکش میں مبتلا شاعر یا کوئی بھی شخص غیر معمولی ہوتا ہے اور اس پر دنیا کا دائرہ اس کشمکش کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنگ ہوتا جاتا ہے۔ایسے غیر معمولی اور دنیا بے زار آدمی کو زندگی جینے کے لیے غیر معمولی حوصلے کی ضرورت ہے ۔احسان اصغر کی نظموں کی خوبی یہ ہے کہ ہر نظم میں ایک سے زائد نظمیں چُھپی ہوئی ہیں۔ ایک نظم ملاحظہ کیجیے جس کا عنوان ہے ’’مرگِ مسلسل کی راتوں میں‘‘
دھن چھڑتی ہے
سنسان دریچوں کے باہر
جہاں کوئی چراغ نہیں جلتا
جہاں کوئی امید نہیں جگتی
ان راتوں میں
جب آنکھیں بھیگتی جاتی ہیں
اور آنسو نوحہ پڑھتے ہیں
ان راتوں کا جب چہل چراغ جلانے والے خاک ہوئے
جب خوابوں میں اک تیز آندھی کا شور ہوا
اور میٹھی نیند سے جاگنے والی آنکھوں میں
ناوقت کی بیداری سے تھکاوٹ سی جھلکی
پیشانیوں پر حیرت کی سلوٹ پڑنے لگی
باہر آوازوں کے جھکڑ چلتے ہیں
اور میں سنتا ہوں
میں ایک چراغ سے بجھنے لگتا ہوں۔۔۔
کوئی چیختا ہے
میں باہر گلی میں جھانکتا ہوں اور دیکھتا ہوں
سناٹا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
سینے کے اندر اٹھتے ہیں
وہ بین جو اس شب عورتوں نے دہرائے تھے
میں شور سے باہر بھاگتا ہوں
پھر باہر کے سناٹے سے گھبرا کر اندر ہوتا ہوں
جب آدھی رات کی نیند گزر جاتی ہے
اور اس دھن میں عمرِ رواں کا لمحہ چھلتا جاتا ہے
تب کوئی چراغ نہیں جلتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے کہ احسان اصغر اگر عقل اور وجدان کی باہمی کشمکش کو غزل کے فریم میں ڈھال لیں تو کوئٹہ کے جواں مرگ شاعر دانیال طریر کا خلا کسی حد تک پُر ہوجائے گا اور ادب کو ایک توانا شاعر میسر آجائے گا۔اب دانیال طریر کا ذکر آہی گیا ہے تو اس کے دو شعر بھی سن لیں۔
بلاجواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں تو آسماں کے شجر بھی ثمر نہ دیں
جس خاکِ بے نمود میں گوندھا گیا مجھے
احسان اصغر کی کتاب میں کسی کا مضمون شامل نہیں ،صرف پیش لفظ سے کام چلایا ہے، البتہ پس ورق فہمیدہ ریاض اور حسین عابد کی مختصر آرا شامل ہیں۔
’’دھوپ کی شاخ‘‘ اسد قریشی کا شعری مجموعہ ہے جس میں فیروز ناطق خسرو، مدیرِ دنیائے ادب ڈاکٹر اوجِ کمال،ذوالفقار بلوچ اور سحر تاب رومانی کی آرا اور مضامین شامل ہیں۔ 160 صفحات کی یہ کتاب 102 غزلوں پر مشتمل ہے۔
بعض سینیئر شعراء لکھنے میں کتنے غیر ذمہ دار ہوتے ہیں،سوچے سمجھے بغیر جو من میں آئے لکھ دیتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ انکا لکھا خود ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔اسد قریشی کی کتاب میں شامل سحر تاب رومانی کی رائے کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’اسد قریشی کی شاعری بیک وقت مشرق،مغرب،شمال اور جنوب کی شاعری ہے‘‘۔
اسد قریشی کی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں جدید رنگِ سخن بھی جھلکتا ہے۔کتا ب کے پس ِ ورق شاعر کی تصویر اور نیچے ایک غزل چسپاں ہے۔کتاب میں شامل اسد قریشی کی غزلوں سے چند اشعار۔
کوئی چھپ چھپ کے مجھ کو دیکھتا ہے
میں اکثر ناگہاں دیکھا گیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وحشت نے مچا رکھا ہے اک شور سا دل میں
اور دل کو ہوا ہے یہی کہرام سہولت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زخم پوشاک ہوئے جاتے ہیں
ایسی پوشاک سے آزردہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر کچھ کچھ ٹوٹ کے گرتا رہتا ہے
باہر بھی آرائش ہوتی رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو ہاتھ دکھا جائے گا
بھاشن سنتے رہ جائو گے۔

غزل

خدا کی ذات ہے سب کچھ، بشر وشر ہے فریب
یہ عقل وقل ہے دھوکا، اگر مگر ہے فریب

پھر ایک دن مری آوارگی نے دیکھ لیا
سفر وفر ہے تماشا، نگر وگر ہے فریب

کُھلا ہے چادرِ نجمِ فلک اُلٹنے سے
یہ شمس ومس ہے دھبّا، قمر ومر ہے فریب

تمھارا حسن مری آنکھ کی ضرورت ہے
یہ پیار ویار ہے جھوٹا، نظر وظر ہے فریب

یہ صرف آنکھ کی پتلی کا کھیل ہے ورنہ
یہ رات وات ہے مایا، سحر وحر ہے فریب

لطیف علم کی برکت سے میں نے جان لیا
فسوں وسوں ہے کثافت،اثر وثر ہے فریب

یہ واہ واہ کی آواز سے کھلا بابر
سخن وخن ہے تسلّی ،ہنر ونر ہے فریب
فیضِ عالم بابر

حصہ