ڈاکٹر نثار احمد نثار
ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے تمام عمر زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا‘ وہ مختلف ادبی تنظیموں کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ سماجی اداروں کی بھی سرپرستی کیا کرتے تھے‘ وہ معاشرے میں اچھائیوں کے علمبردار تھے‘ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک میں دیکھنا چاہتے تھے۔ افسوس کہ موت نے ان کے خواب چکنا چور کردیے اور اس بزم رنگ و بو سے رخصت ہوگئے لیکن ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی‘ وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و سماجی رہنما رونق حیات نے بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام ڈاکٹر اکرام الحق شوق کی یاد میں منعقدہ اجلاس و مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں ڈاکٹر اکرام الحق کا لب و لہجہ سب سے جداگانہ تھا‘ وہ غزل کے روایتی مضامین باندھتے تھے‘ میرے نزدیک وہ دبستانِ داغ دہلوی کے سرخیل تھے اس موقع پر رونق حیات نے ادیبوں اور شاعروں کے مسائل پر بھی گفتگو کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ جن اداروں کو شعر و ادب کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا ہے وہ اپنے کام میں مخلص نہیں حکومت نے قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے جو گرانٹ دی ہے وہ من پسند قلم کاروں کی پروجیکشن پر خرچ ہو رہی ہے بالخصوص کراچی کے قلم کاروں کو نظر انداز کیا جارہا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جدوجہد کریں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ تقریب کے مہمان خصوصی ممتاز شاعر و صحافی ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ ڈاکٹر اکرام الحق شوق ایک مستند انجینئر تھے‘ وہ بلڈنگ کنسٹرکشن سے منسلک تھے ان کے کریڈٹ پر کئی اہم عمارات ہیں۔ انہوں نے شاعری میں بھی نام کمایا وہ جگر مراد آبادی کی روایت کو آگے بڑھا رہے تھے۔ دبستان کراچی میں اب روایتی غزل کے مضامین ختم ہوتے جارہے ہیں ان کے انتقال سے ہم ایک ادبی شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر اکرام الحق شوق عرب امارات میں عالمی مشاعروں کے بانیوں میں شامل تھے انہوں نے 1981ء میں ابو ظہبی میں بہت شاند ار عالمی مشاعرہ ترتیب دیا تھا۔ وہ کلاسیکی روایت کے شاعر تھے غزل کے شاعر تھے وہ ادبی محفلوں کی جان تھے ان کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اس پروگرام میں حافظ فہد نے تلاوتِ کلام پاک کی سعادت حاصل کی جب کہ اجمل شاہین نے نعت رسولؐ پیش کی۔ رقم الحروف ڈاکٹر نثار نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور ڈاکٹر اکرام الحق شوق کے بارے میں کہا کہ وہ بزمِ یاران سخن کراچی کے سرپرست اعلیٰ تھے اور ہماری تقریبات کے روح رواں تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اس پروگرام کی نظامت حنیف عابد نے کی اور خوش نما جملوں سے محفل کو گرمائے رکھا انہوں نے کہیں بھی مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا بلاشبہ وہ ایک اچھے نظامت کار ہیں یہ پروگرام الفاء سیکنڈری اسکول بوہرہ پیر کراچی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا جس میں رونق حیات‘ ظہورالاسلام جاوید‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ سید فیاض علی‘ ڈاکٹر نثار‘ عبدالمجید محور‘ حنیف عابد‘ سحر تاب رومانی‘ حامد علی سید‘ سعدالدین سعد‘ ریحانہ احسان‘ احمد سعید خان‘ رانا محمود قیصر‘ عارف شیخ‘ شاہدہ عروج اور عاشق شوکی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
ادارۂ فکر نو کے زیراہتمام خالد علیگ کی یاد میں مشاعرہ
ادارۂ فکر نونے گزشتہ اتوار گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نمبر 1 کورنگی نمبر 4 کراچی میں ممتاز شاعر و صحافی خالد علیگ کی یاد میں مشاعرہ کا اہتمام کیا جس کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ سعید الظفر صدیقی مہمان خصوصی‘ ظہورالاسلام جاوید‘ مہمان اعزازی اور مظہرہانی مہمان توقیری تھے۔ رشید خاںرشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے دور میں خالد علیگ کے فن و شخصیت پر گفتگو کی گئی اظہار خیال کرنے والوں میں ظہورالاسلام جاوید‘ مظہر ہانی اور شاہد اقبال شامل تھے۔ اختر سعیدی نے منظوم خراج تحسین پیش کیا جب کہ پروفیسر جاذب قریشی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اپنے محسنوں کو یاد کرنا ایک اچھی روایت ہے‘ ادارۂ فکر نو اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے جو کہ ہر سال نور احمد میرٹھی اور خالد علیگ کی یاد میں پروگرام ترتیب دیتا ہے میں اختر سعیدی اور ان کے رفقائے کار کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ لوگ ادب کی آبیاری کے ساتھ ساتھ یادرفتگاں کے حوالے سے بھی تقریبات منعقد کر رہے ہیں۔ انہوں نے خالد علیگ کے بارے میں کہا کہ وہ تہذیبی اقدار کے رول ماڈل تھے انہوں نے گورنمنٹ کے اداروں یا کسی اور انجمن سے کوئی امداد قبول نہیں کی وہ نہایت وضع دار شخصیت تھے وہ یزیدِ وقت کے سامنے پیغام کربلا بیان کرتے تھے وہ کھرے انسان تھے‘ وہ کسی سے ڈرتے نہیں تھے‘ وہ مزاحمت اور انقلابی شاعری کے ذریعے سماجی مسائل پر روشنی ڈالتے تھے وہ منفی قوتوں کے سامنے سینہ سپر رہے انہوں نے صحافتی میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں وہ نہ کبھی بکے نہ جھکے انہوں نے 60 سال تک پرورش لوح و قلم کی ان کی شاعری میں ندرت خیال‘ بانکپن اور جدید استعارے پائے جاتے ہیں انہوں نے نظمیں‘ غزلیں لکھیں لیکن کچھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے۔ ان کی شاعرعی میں تصوف کے مضامین بھی نظر آتے ہیں وہ اپنی ذات میں انجمن تھے ان کی شاعری کے مجموعے اردو ادب کا سرمایہ ہیں ان جیسی عظیم شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موقع پر محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہماری تقریب کو رونق بخشی ہم اپنے پلیٹ فارم سے اپنی مدد آپ کے تحت پروگرام ترتیب دیتے ہیں ہم اپنے ان کرم فرمائوں کے ممنون و شکر گزار ہیں جو ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ظفر محمد خاں‘ سید فیاض علی‘ اختر سعیدی‘ انورا انصاری‘ پروفیسر شاہد کمال‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد‘ یوسف چشتیء‘ گلِ انور‘ عبدالمجید محور‘ احمد سعید خان‘ شاہد اقبال‘ سحرتاب رومانی‘ یاسر سعید صدیقی‘ اسد قریشی‘ خالد رانا قیصر‘ محسن علیم‘ افضل ہزاروی‘ سحر علی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عاشق بلوچ‘ کامران طالش‘ خلیل قریشی‘ زبیر صدیقی‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی اور دیگر شعرا نے کلام پیش کیا۔ اختر سعیدی نے کلمات تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ ہم بھائی نور احمد مرحوم کے افکار و خیالات کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ہم ان کے جانشین ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خالد علیگ جیسے عظیم قلم کار کو خراج تحسین پیش کرنا ہماری ذمے داری ہے کہ وہ ہمارے سرپرست تھے ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ حکومت نے لانڈھی کی ایک سڑک خالد علیگ کے نام سے منسوب کی ہے ہم ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اسد قریشی تازہ کار شاعر ہیں‘ مظہر ہانی
اسد قریشی کے دوسرے شعری مجموعے ’’دھوپ کی شاخ‘‘ کے حوالے سے ممتاز سماجی راہ نما مظہر ہانی نے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں سحر تاب رومانی نے کہا کہ غزل ہر زمانے میں لکھی جاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ آوزوںکے اس شور میں اپنی آواز کو جدا رکھنا ایک مشکل کام ہے آوازوں کے اس جنگل میں وہی آوازیں رہ جائیں گی جو بھرپور توانائی رکھتی ہوں ان بے شمار آوازوں میں ابھرنے والی ایک نئی آواز اسد قریشی کی ہے۔ متوازن شخصیت اور مثبت طرز فکر کے حامل اس شاعر کا شعری سفر دس برسوں پر محیط ہے اس تناظر میں اگر ہم ان کی شاعری کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ اسد قریشی خوب صورت الفاظ کے ساتھ جدید استعاروں سے اپنی شاعری کو آگے بڑھا رہے ہیں ان کے یہاں غزل کے قدیم و جدید مناظر نظر آتے ہیں امید ہے کہ وہ مزید ترقی کریں گے۔ مظہر ہانی نے کہا کہ وہ اسد قریشی کی شاعری سے متاثر ہیں کیونکہ ان کے یہاں سچائی ہے‘ انہوں نے زمینی حقائق سے رو گردانی نہیں کی‘ ان کی زبان سادہ و سلیس ہے۔ شگفتگی‘ شائشستگی‘ برجستگی اور بے ساختگی ان کے اشعار کا محور ہے۔ انہوں نے سماجی اقدار و معاشرتی زبوں حالی کا تصویر کشی کی ہے لیکن تغزل کو بھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ اس موقع پر راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ مظہر ہانی‘ سحر تاب رومانی‘ اسد قریشی‘ محسن سلیم‘ رانا خالد قیصر‘ یوسف ہمدانی اور نجیب یونس نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ اسد قریشی کا دوسرا شعری مجموعہ دھوپ کی شاخ ابھی حال ہی میں ادارہ تہذیب نے شائع کیا ہے جس کی نصف آمدنی ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت مستحق افراد کی فلاح و بہبود کی مد میں خرچ ہوگی۔ اس کتاب کے تبصرہ نگاروں میں فیروز ناطق خسرو بھی شامل ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ اسد قریشی میدانِ سخن کے نووارد شہہ سوار کی حیثیت سے منزلیں طے کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ صاحبِ اسلوب ہونے کی منزل ابھی دور ہے لیکن وہ اسد قریشی کے شعری مستقبل سے ناامید نہیں ہیں۔ اس شعری مجموعے میں ایسے اشعار نظر آتے ہیں کہ جو دل و دماغ پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کے یہاں پختہ کاری پوری طمطراق کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال نے لکھا ہے کہ اسد قریشی وسیع المطالعہ شاعر ہے اس نے اپنی محنت اور لگن سے ادبی منظر نامے میں جگہ بنائی ہے بنیادی طور پر یہ نہایت حساس دل کا مالک ہے یہ اپنے اردگرد کے ماحول کو شاعری بنا کر پیش کر دیتا ہے بالفاظ دیگر اس کی شاعری زندگی سے مربوط ہے ان کے اشعار شعری محاسن سے آراستہ ہیں امید ہے کہ یہ بہت جلد صفِ اوّل کے شعرا میں شامل ہوں گے۔
مشاعرے ہماری اقدار کا حصہ ہیں‘ محمود شام
ممتاز شاعر‘ نقاد اور صحافی محمود شام نے ادبی تنظیم شاعراتِ پاکستان اور سلسلہ ادبی فورم کے اشتراک سے منعقدہ مشاعرے سے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مشاعروں کی روایت ہماری تہذیب کا حصہ ہے زبان و ادب کے فروغ میں یہ ادارہ اہمیت کا حامل ہے جو لوگ مشاعروں کا اہتمام کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں کہ اس پُر آشوب دور میں محفلِ مشاعرہ میں آکر ذہنی سکون ملتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری سننے کو ملی اس قسم کی گھریلو نشستوں میں اچھے اشعار پڑھے جاتے ہیں جب کہ بڑے مشاعروں میں کوئی شاعر رسک نہیں لیتا وہ اپنا منتخب کلام سنا کر داد وصول کرتا ہے۔ اس وقت کراچی کی ادبی فضا بہت خوش گوار ہے نوجوان نسل شاعری میں نئے نئے تجربات کر رہی ہے جس کی وجہ سے نئے عنوانات شاعر میں شامل ہو رہے ہیں یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ مشاعرے کی نظامت ڈاکٹر نزہت عباسی نے کی۔ افروز رضوی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ادبی تنظیم شاعرات پاکستان کے قیام کا مقصد خواتین قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ہے مردوں کے اس معاشرے میں عورت کے حقوق پامال ہو رہے ہیں جب کہ عورت اس معاشرے کا اہم کردار ہے اردو شاعری کی تاریخ میں بہت سی اہم شاعرات کے نام موجود ہیں تاہم اس زمانے میں بھی خواتین ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے مرتضیٰ شریف‘ شیخ عبدالکریم اور دلشاد دہلوی کا شکریہ ادا کیا کہ جن کے تعاون سے مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی سلطان مسعود شیخ‘ مہمانان اعزازی ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ حجاب عباسی‘ مہمان توقیری رانا خالد قیصر اور شجاع الزماں تھے۔ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں محمود شام‘ سلطان مسعود‘ اقبال پیرزادہ‘ حجاب عباسی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ رانا خالد قیصر‘ شجاع الزماں‘ نزہت عباسی‘ وقار زیدی‘ تنویر سخن‘ افروز رضوی‘ مرتضیٰ شریف‘ دلشاد دہلوی‘ اورنگ زیب‘ گل افشاں‘ شائستہ سحر‘ یاسمین یاس اور ناہید عظمیٰ شامل تھے۔