نوشابہ قمر
تعارف:…نام: نازو، سن ِ پیدائش:1965ء۔ بچے :تین بیٹیاں اور دو بیٹے
بیمار شوہر چوبیس سال سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں اور چار سال سے بستر پر ہیں۔ شوگر کی وجہ سے دونوں گردے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ ایک گردہ بالکل ختم، جبکہ دوسرا بھی تقریباً کام کرنا چھوڑ چکا ہے۔ ڈاکٹر جواب دے چکے ہیں۔ دونوں بیٹے ہیروئن کے عادی۔ ایک نشے والی اور ایک فلمی ہیروئن کا۔ نازو گزشتہ دو سال سے آلو، پیاز بیچنے کا کام کررہی ہیں۔ اکثر اپنے فلیٹ کے سامنے سے گزرتے دیکھا۔ دل میں کئی بار خیال گزرا آخر وہ کون سی مجبوری ہے جس کی وجہ سے ایک خاتون پردے میں خود کو ڈھانپ کر آلو، پیاز سے بھرا ٹھیلا گھسیٹ رہی ہے، جبکہ مردوں کے اس معاشرے میں ایک عورت کا باہر نکل کر اس طرح مردوں کے درمیان رزق کی تلاش میں سرگرداں ہونا مشکل ہی نہیں شدید مشقت طلب بھی ہے۔ آخرکار ہمت کرکے ہم ان تک پہنچے، انہیں اپنا تعارف کرواکر اپنے گھر آنے کی دعوت دی جسے انھوں نے ہمارے بے حد اصرار پر قبول کرلیا اور بتایا کہ اکثر لوگ ان سے انٹرویو لیتے ہیں اور متاثر بھی ہوتے ہیں، اور اللہ کے کچھ نیک بندے کھلے اور چھپے امداد بھی کرجاتے ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور ہم آپ کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا نام سن کر وہ بہت خوش ہوئیں اور دعائیں دیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس بار انہوں نے کتاب کو ووٹ دیا تھا۔ الحمدللہ دینی جماعتوں سے محبت و عقیدت کا یہ وہ جذبہ ہے جو ہر سچے مسلمان اور پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ ہم نے نازو بہن سے اجازت طلب کی کہ اگر ہم آپ سے آپ کی کہانی سن کر میگزین میں شائع کریں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا؟ ان کی اجازت کے بعد یہ کہانی آپ تک پہنچائی جارہی ہے۔
نازو نے بتایا کہ جب وہ پیدا ہوئیں تو خاندان میں دور دور تک کسی کے گھر لڑکی نہیں تھی، سب لڑکے ہی تھے۔ پہلی لڑکی ہونے کے ناتے ناز بھی خوب اُٹھائے گئے اور اسی مناسبت سے نام بھی نازو رکھا گیا۔ نازو کی پیدائش کے بعد ہی خاندان میں لڑکیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نازو کا تعلق پشاور سے ہے، اسی لیے احکاماتِ شریعت کی پابندی، غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اور اللہ کی ذات پر ایسا کامل بھروسا ہے کہ جسے سن کر ہمیں بے حد حیرت بھی ہوئی اور ایمان میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا۔
نازو نے بتایا کہ 1965ء کی جنگ کی گولہ باری کے دوران میں ان کی ولادت ہوئی۔ پشاور میں رہائش اور پختون گھرانے سے تعلق ہے۔ شادی کے بعد روزگار کے سلسلے میں شوہر اور بچوں کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئیں۔ روکھی سوکھی کھاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے دن گزرتے گئے۔ اللہ نے بیٹوں اور بیٹیوں دونوں سے نوازا۔ بیٹیاں بڑی تھیں، رب کے فضل سے جلد اپنے گھر کی ہوگئیں۔ بیٹے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ وقت کا کوڑا ایسا برسا کہ شوہر کو شوگر ہوگئی اور ایک پائوں کا انگوٹھا کاٹنا پڑا۔ بیماری بڑھتی گئی اور یوں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بڑا بیٹا جو کہ ابھی چھٹی کلاس میں ہی تھا والد کی جگہ نوکری کا خواہش مند ہوا۔ والد جو کہ برنس روڈ پر کراچی حلیم پر گارڈ کی نوکری کرتے تھے، بیٹے کو ان کی جگہ ملازمت مل گئی۔ کچھ دن ہی وہاں نوکری کو ہوئے تھے کہ ایک ظالم نے حسد کرکے بچے کو ہیروئن کا عادی بنا ڈالا اور مالک کو بھڑکا کر بچے کی نوکری ختم کروادی، اور اس کی جگہ اپنے بھتیجے کو گارڈ رکھوا دیا۔ شوہر کی بیماری کے ساتھ ساتھ بچے کا بھی علاج کروایا، لیکن نشے کی لت ایسی لگی کہ ہر بار علاج کے بعد بیٹا پھر پینے لگتا، یوں اب وہ مکمل نشئی بن چکا ہے۔
دوسرا بیٹا ایک لڑکی کے پیچھے دیوانہ ہے اور پڑھائی چھوڑ کر نکما ہوگیا ہے۔
اسی دوران نازو نے فیصلہ کیا کہ وہ کچھ بھی کرکے شوہر کا علاج کروائیں گی، لہٰذا لڑکیوں کے ایک مدرسے میں روزانہ روٹیاں بھی بنائیں، کیماڑی کے ضیا الدین اسپتال میں گارڈ کی نوکری بھی کی، اور یہ سب پردے، تہجد اور نمازوں کی پابندی کے ساتھ جاری رہا۔ معمولی نوکری اور بڑھتی بیماری کے ساتھ گھر چلانا مشکل ہوتا جارہا تھا، اس دوران شوہر کی بیماری بڑھتی رہی اور ان کا ایک گردہ فیل ہوگیا، وہ بستر سے لگ گئے۔ مالک مکان کو اللہ خوش رکھے، کرایہ نہ دینے پر بھی گھر خالی نہ کروایا اور مہلت دیتا رہا، یہاں تک کہ اللہ نے غیبی مدد فرما کر 70 ہزار روپے کرایہ اور دیگر 35000روپے قرضہ ادا کروا دیا۔
ہوا کچھ یوں کہ میاں کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔ اللہ بھلا کرے انڈس اسپتال والوں کا کہ ڈاکٹروں کی فیسیں تو ادا کرنا نہ پڑتیں مگر دوائیاں خود لینی پڑتی ہیں۔ پھر بنارس سے انڈس اسپتال کے سفر کا کرایہ اور گھر کا خرچ بہت مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایک مرتبہ دوا لینے کے لیے پیسے بھی نہ تھے کہ کوثر میڈیکل اسٹور پر گئی اور کہا میرے پاس دوا کے پیسے تو نہیں، یہ میرا شناختی کارڈ رکھ لو، جب پیسے ہوں گے تو دے کر شناختی کارڈ لے جاؤں گی۔ اللہ کے اس بندے نے کہا: تمہارا ضامن کون ہوگا اگر تم واپس نہ آئیں؟ نازو نے کہا: اللہ کے سوا تو میرا کوئی ضامن نہیں ہے۔ اللہ جانے اس بندے کے دل میں کیا نیکی آئی، بغیر پیسوں کی فکر کیے دوائی دیتا رہا، یہاں تک کہ 35000 کا قرض چڑھ گیا۔ یہی نہیں، اس نے کہا: ماں جی ایک لاکھ تک تو میرے ذمے ہے کہ دوائیں دیتا رہوں گا، اس سے اوپر ممکن نہ ہوگا۔
خیر حالات کی ماری نازو کا گارڈ کی نوکری سے کام نہ چلتا تھا تو کچھ دن لڑکیوں کے مدرسے میں روٹیاں پکانے کا کام بھی شروع کردیا۔ اس پر بھی گزارا مشکل ہوا تو آخرکار بہت سوچ بچار کے بعد نازو نے ایک بہت مشکل فیصلہ کیا۔
دراصل نازو کے ایک جاننے والے آلو پیاز بیچا کرتے تھے۔ نازو نے ان کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں بھی آلو پیاز بیچنا چاہتی ہوں، اور نازو کی ضد پر وہ اس کی یہ بات مان گئے۔ آج سے دو سال قبل بارشوں کا زمانہ تھا اور نازو ایک بڑا قدم اٹھانے جارہی تھیں۔ دل میں خوف اور امید کے سائے منڈلا رہے تھے اور لب پر دعا تھی کہ اے اللہ پردے اور عورت کی عزت کی لاج رکھنا۔ اللہ سے تعلق تو ویسے ہی مضبوط تھا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند، اللہ سے ڈرنے والی تہجد گزار نازو… آج اپنے رب کی رضا میں راضی تھیں۔ وہ پہلا دن تھا اور گھر سے قدم باہر نکالنا بہت کٹھن فیصلہ تھا جو وہ دل میں کرچکی تھیں، مگر جوں جوں رات کی گھڑیاں گزرتی جارہی تھی اور ایک نئی صبح منتظر تھی، نازو کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔ آج ان کے دل میں شدت کے ساتھ ایک تمنا سر اٹھا رہی تھی کہ کاش کہیں سے غیرت ملتی ہوتی تو وہ اپنے جوان بیٹوں کے لیے خرید لاتیں، مگر ایسا نہ ہوسکا اور اپنے شوہر کے علاج کی خاطر انہوں نے قدم اٹھا لیا۔ اللہ کی رحمت جوش میں تھی، برستے بادلوں کو مات دے کر نازو نے جب پردے میں ملبوس اپنے نازک بازوؤں سے پہلی بار ٹھیلے کو دھکیلا تو یہ وہ وقت تھا جب چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ حوا کی ایک بیٹی اپنی آبرو کی حفاظت کرتے ہوئے غیرت اور خودداری کی عظیم مثال بن گئی۔
اب نازو کا معمول تھا کہ روز نمازِ فجر ادا کرکے اور گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر اپنے کام پر نکل جاتیں۔ وہ نازو جن کی پیدائش پر سارے خاندان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے اور جنہیں بڑے نازوں سے پالا پوسا گیا تھا، انہیں آج وقت کی بے رحم موجوں نے کہاں لا کھڑا کیا تھا! بازار میں خریدار ایک باپردہ عورت کو یوں آلو، پیاز بیچتا دیکھ کر بڑے حیران ہوتے اور دیگر لوگوں پر ایک باپردہ عورت سے خریداری کو ترجیح دیتے۔ کوئی متاثر ہوکر طرح طرح کے سوالات کرلیتا، کوئی خاموشی سے کچھ رقم بطور امداد دے دیتا، تو کوئی راشن لادیتا… غرض اللہ نے نازو کو ہر لمحہ اپنی امان میں بھی رکھا اور انسانیت کے دل میں ان کے لیے بے پناہ عزت اور ہمدردی بھی پیدا کردی۔
نازو کا کہنا ہے کہ اللہ نے مجھے کبھی مشکل میں تنہا نہیں چھوڑا۔ قدم قدم پر میری غیبی مدد کی اور باپردہ ہونا میرے لیے جس طرح باعثِ رحمت بنایا وہ لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
نازو نے ایک واقعہ یہ بھی سنایا کہ جب کوثر میڈیکل والے کا قرض 35000روپے تک پہنچ گیا تو اللہ نے کسی نیک دل میاں بیوی کے ہاتھوں نازو کی غیبی مدد کی جس پر میڈیکل اسٹور والے کا قرض ادا کرنا ممکن ہوا۔ جب قرض کی رقم لے کر نازو میڈیکل اسٹور پہنچیں اور رقم ادا کی تو میڈیکل اسٹور والے نے اپنے مالک کو بلایا اور بتایا کہ دیکھو اللہ کے نام پر دیا ہوا قرض کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ مالک نے بتایا کہ یہ قرض ہرماہ تھوڑا تھوڑا کرکے ادھار دینے والا شخص اپنی جیب سے چکاتا رہا تھا اور آج اللہ پر توکل کا ایک نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
قارئین کرام! نازو کی زندگی کی اس کہانی میں تمام مسلمان عورتوں کے لیے سبق ہے کہ چاہے کیسی ہی مشکل ہو، اللہ پر بھروسا، اس سے تعلق اور شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر حالات سے لڑ جانے والے کو رب کائنات کبھی تنہا نہیں چھوڑا کرتا۔
نازو کو امید ہے کہ ایک روز ان کے دونوں بیٹے بھی ان کے دست و بازو بنیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں نیک راہ ضرور دکھائے گا۔ آج بھی نازو جب کبھی ہم سے ملنے آتی ہیں تو ہر بار ہمارے ایمان، حمیت اور اللہ پر توکل کو بڑھا جاتی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ نازو کی امیدوں کو ضرور پورا کرے۔ آمین ثم آمین۔
گھریلو ٹوٹکے
چہرے پر تازگی:
آدھا چھٹانک دہی میں ایک چمچ لیموں کا عرق ملا لیں، اسے ہر شام باقاعدگی سے چہرے پر لگائیں۔ دھوپ کے اثرات ختم ہوجائیں گے اور رنگ نکھر آئے گا۔ دھوپ سے اگر رنگ زیادہ جل جائے تو ایک چمچ جَو کا آٹا کھٹے دہی میں اس قدر ملائیں کہ وہ پیسٹ بن جائے۔ اس میں ایک چمچ کھیرے کا رس ملا لیں۔ جلی ہوئی رنگت پر اس آمیزے کی مالش کریں، نصف گھنٹے تک لگا رہنے دیں، پھر کسی اچھے صابن سے دھو لیں۔
آنکھوں کی حفاظت کیجیے:
اکثر خواتین کی آنکھوں کے نیچے ابھار سا پیدا ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان میں پانی آجاتا ہے۔ اس کا علاج: ایک گلاس گرم پانی میں نصف لیموں کا رس ملائیں اور صبح نہار منہ پئیں۔ اس عمل کے آدھے گھنٹے بعد ناشتا کریں۔ روئی کے دو پھائے نمک ملے گرم پانی میں بھگوئیں اور بند آنکھوں کے پپوٹوں پر اُس وقت تک رکھیں جب تک پھائے ٹھنڈے نہ پڑ جائیں۔ اس عمل سے آنکھوں کے ابھرے ہوئے پپوٹے صحیح حالت میں آجائیں گے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ دائروں سے محفوظ رہنے کے لیے سن گلاس استعمال کریں اُس وقت جب آپ دھوپ میں باہر نکلیں۔ سن گلاس گہرے رنگ کے نہ ہوں، ان سے آنکھوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر آپ کی آنکھیں نیند سے بوجھل یا تھکی تھکی ہوں تو نیم گرم پانی میں نمک ملا کر اس میں روئی کے پھائے بھگو کر آنکھوں پر تھوڑی دیر رکھیں۔ دو چار بار یہ عمل کرنے سے آنکھوں کا بھاری پن اور تھکن دور ہوجائے گی۔ صبح پانی بھر بھر کر آنکھوں میں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارا کریں، اس عمل سے آنکھوں کے پپوٹوں میں سختی آئے گی، آنکھوں میں ٹھنڈک پہنچے گی اور روشنی تیز ہوگی۔ پڑھنے، لکھنے اور سلائی وغیرہ کا کام تیز روشنی میں کیا کیجیے۔ روشنی پشت کی جانب ہو۔ اگر آپ کے چہرے پر جھائیاں ہیں تو اس کے لیے ایک چائے کا چمچ شہد لیں، اس میں ایک انڈے کی سفیدی پھینٹ کر ملائیں اور آنکھوں کے اردگرد لگائیں۔
چہرے کے نکھار کے لیے:
ایک پائو تازہ پودینہ لے کر اس کا رس نکالیں اور کسی کولڈ کریم کی شیشی کی ساری کریم نکال کر کسی پیالے میں ڈال کر آہستہ آہستہ پودینے کا رس ڈال کر پھینٹیں۔ جب جھاگ دار کریم بن جائے تو چہرے پر لگا کر پانچ منٹ رہنے دیں۔ پھر نیم گرم پانی سے دھوکر ٹھنڈے پانی کی پھوار لیں۔ ہفتے میں دو بار یہ عمل کریں، چہرے کا رنگ نکھر آئے گا۔