میرا نام مریم ہے

921

فارحہ شبنم (کینیڈا )
(چوتھی قسط)
نہ جانے رات کے کس پہر میری آنکھ لگی۔ جب اٹھی تو دن نکلنے کو تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر فجر کی نماز ادا کی اور اس کے بعد اپنی آگے آنے والی زندگی کے لیے رو رو کر اللہ تعالیٰ سے ڈھیر ساری دعائیں کیں۔ نماز سے فارغ ہی ہوئی تھی کہ موبائل کی بیپ کی آواز کان میں پڑی۔ دیکھا تو سعد کے نام کے ساتھ ان کا میسج تھا کہ وہ مجھے شام پانچ بجے لینے آئیں گے اور عصر کی نماز کے بعد امام مسجد نکاح پڑھائیں گے۔ میں کمرہ سمیٹ کر فارغ بیٹھی تھی۔ اسکول جانا میں نے پچھلے ہفتے سے ہی ختم کردیا تھا۔ اچانک خلافِ توقع ماما دروازہ کھٹکھٹا کر اندر جھانکتے ہوئے بولیں کہ بابا ناشتے کی ٹیبل پر میرا انتظار کررہے ہیں۔ میں نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ شاید میری جدائی کا کوئی غم وہاں اپنی جھلک دکھا جائے، مگر اس سے پہلے ہی وہ لوٹ چکی تھیں۔ بابا کا میرے ساتھ ناشتے کا معمول ایک عرصے سے ختم ہوچکا تھا۔ شاید آج میرا یہاں آخری دن تھا اس لیے مجھے یہ پروٹوکول دیا جارہا تھا۔ میں خاموشی سے اٹھ کر بھاری قدموں سے ان کے پیچھے چل دی۔ بابا اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں ان سے دور ٹیبل کے دوسرے کنارے پر جاکر کھڑی ہوگئی۔ میری آمد محسوس کرکے انہوں نے اخبار بند کردیا اور چائے کا کپ اٹھا کر میری طرف دیکھے بغیر بولے ’’آؤ بیٹھو‘‘۔
میں ان کے قریب آنے کے بجائے وہیں میز کی دوسری جانب کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ میرا دل بھی پوری طرح بغاوت پر مائل تھا اور میں اس طرح اُن کے سامنے اپنے جذبات اور غم و غصّے کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔
’’تو آج شام تم اس گھر سے رخصت ہورہی ہو۔ میں نے تمہاری ماں کو کہہ دیا ہے، وہ ہم دونوں کی طرف سے ایک بلینک چیک تمہیں لکھ دے گی۔ تم جو رقم چاہو اس پر لکھ لینا۔ سعد اچھا لڑکا معلوم دیتا ہے، مجھے امید ہے وہ تمہارا خیال رکھے گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے چائے کا کپ پیے بغیر واپس ٹیبل پر رکھا اور آفس جانے کے لیے کھڑ ے ہوگئے۔ اچانک میرا سارا غصہ اور ساری ضد خدا جانے کہاں اڑ گئی اور میں بے اختیار سسکیاں لیتے ہوئے بھاگ کر ان کے گلے لگ گئی۔ مجھے آج بھی ان کے پاس سے آنے والی مخصوص کلون کی خوشبو یاد ہے جو وہ ہمیشہ استعمال کرتے تھے، مگر اس روز ان کے بازوؤں کے گھیرے میں وہ گرم جوشی نہ تھی جو ان کا خاصا تھی۔ میں ان سے لپٹ کر کھڑی تھی جب چند لمحوں بعد وہ میرے شانے کو تھپکتے ہوئے بولے:
’’میری این! تم ہمارا خون ہو اور رہو گی۔ ہم چاہیں بھی تو اس بات سے انکار نہیں کرسکتے۔ مگر جس دین کو تم نے اپنایا ہے میں اس دین کا نام بھی اپنے گھر میں نہیں سننا چاہتا۔ مجھے امید ہے کہ تم اس بات کا ہمیشہ خیال رکھو گی‘‘۔ میں ان کی آواز کا غم اور لہجے کی شکستگی اپنے دل پر محسوس کرسکتی تھی۔ ان کے بھنچے ہوئے لب بتا رہے تھے کہ وہ کس قدر مضطرب ہیں اور کتنی مشکل سے اپنے جذبات کو ضبط کررہے ہیں۔ میں ان کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی مگر بالآخر وہ میرے بازوؤں کی گرفت سے خود کو زبردستی آزاد کرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر تیزی سے باہر نکل گئے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میرا دل پھٹ جائے گا اور میں غم سے اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھوں گی۔ مجھے خود کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا ۔ میں نے ماما کی طرف دیکھا تو اُن کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی میری جانب آئیں اور اپنے بازو سے مجھے تھام کر اپنے بیڈروم لے گئیں۔ وہاں انہوں نے اپنے جیولری بکس سے زمرد کے نگینے والی خوبصورت سی انگوٹھی نکال کر میری انگلی میں پہنا دی۔ مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ وہ ان کی پسندیدہ انگوٹھی تھی جو وہ خاص مواقع پر ہی پہنتی تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی چیک بک نکال کر مجھے چیک لکھ دیا۔ اب میرے لیے مزید ضبط کرنا ناممکن ہوچکا تھا، میں ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ میرا خیال تھا کہ شاید اتنے دنوں کی کسک ایک ہی دفعہ میں پوری ہوسکے گی اور میری آنکھوں سے بہنے والے آنسو میرے اندر کے خالی پن کو دور کردیں گے۔ مگر افسوس، یہ محض میری غلط فہمی تھی۔
ٹھیک پانچ بجے سعد کی ٹیکسی دروازے پر تھی۔ میں آخری دفعہ ماما سے گلے مل کر باہر آگئی۔ سعد مجھے دیکھ کر خوش دلی سے مسکراتے ہوئے آگے بڑھے اور میرے ہاتھ سے بیگ لے لیا۔ میں ان سے نظریں بچا کر آگے بڑھ گئی۔ پتا نہیں میں ان سے بننے والے نئے رشتے کی وجہ سے جھجھک محسوس کررہی تھی یا اپنی بے چارگی کا اشتہار لگانے سے بچنا چاہتی تھی۔ انہوں نے میرے لیے دروازہ کھول کر مجھے بٹھایا اور خود سامان ٹرنک میں رکھنے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھ گئے۔ اب وہ ڈرائیور کو راستہ سمجھا رہے تھے۔ میرے علم میں نہ تھا کہ برونو کی مسجد کس طرف ہے۔ تقریباً دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد جس دروازے پر ٹیکسی رکی وہ ایک سادہ سی عمارت تھی جس کے اندر تقریباً پچاس لوگوں کی گنجائش تھی۔ سرخ دبیز قالین پر قدم رکھ کر چلتے ہوئے میں عجیب سی کیفیات کا شکار تھی۔ امام صاحب سے یقینا سعد کی گفتگو ہوچکی تھی۔ انہوں نے مجھے اندر آفس میں بٹھادیا کیونکہ نکاح عصر کی نماز کے بعد ہونا تھا۔ ماضی کی یادوں، مستقبل کے خوف اور امید کے درمیان ڈوبتے ابھرتے، وقت تیزی سے گزر گیا اور جلد ہی امام صاحب نے نکاح کے لیے میری رضامندی لے کر مختصر خطبے کے ساتھ اس کام کو انجام تک پہنچا دیا۔
اگلے چند دن ایک خواب کی طرح تیزی سے گزر گئے۔ ہم نے کچھ دن گھومنے پھرنے میں لگائے اور کچھ خریداری میں، اور ایسے لگا کہ جیسے آنکھ کھلی تو خود کو کینیڈا میں پایا۔ سعد کے بہن بھائیوں نے مجموعی طور پر اچھی طرح ہی استقبال کیا، البتہ یہاں کا موسم میرے لیے انتہائی سخت تھا۔ کئی قسم کی کریمز اور لوشنز استعمال کرنے کے باوجود میری جلد متاثر رہتی، اور باہر ہر سو پھیلی ٹھنڈی سفید برف سے دل اور دماغ بھی منجمد سے محسوس ہوتے۔ مانٹریال ہمارا صرف ویک اینڈ پر ہی جانا ہوتا تھا، لیکن جب بھی وہاں ہوتی تو سعد کی فیملی کے درمیان مجھے اپنا آپ بہت اجنبی اور مختلف محسوس ہوتا۔ ان کے کھانے میرے لیے بہت زیادہ مرچ والے ہوتے، ان کی آپس کی گفتگو بے حد کوشش کے باوجود باربار انگلش سے اردو میں منتقل ہوجاتی کیونکہ ان کی والدہ انگریزی نہیں بول پاتی تھیں، اور ایسے مواقع پر میں خود کو بہت تنہا اور اجنبی محسوس کرتی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ