حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

1667

علی عبداللہ
آزادی اظہار رائے کا لبادہ اوڑھ کر توہین رسالت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مغرب بھی اب اس بات کو مان چکا ہے لیکن نجانے ہمارے منصفین کو ایسا کیا نظر آیا کہ بنیادی عدالتی فیصلوں کو رد کر کے توہین رسالت کی مرتکب ایک خاتون کو بے گناہ قرار دے دیا۔ نتیجتاً عوام مشتعل ہوئے اور ہمیشہ کی طرح غصہ حکومتی املاک اور عوام الناس کے لیے طرح طرح کی رکاوٹوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ حالانکہ ماہرین کے نزدیک یہ کیس نہایت مضبوط تھا لیکن کسی بیرونی اشارے پر جلد بازی میں یہ فیصلہ سنا کر ان دیکھی قوتوں کی خوشی حاصل کی گئی ہے۔ اس فیصلے پر مختلف آراء دیکھنے میں آ رہی ہیں۔کچھ لوگ اسے انصاف کا بول بالا کہہ رہے ہیں جب کہ کئی لوگ اس سے ناخوش اور غم و غصے کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ توہین رسالت ایک اہم معاملہ ہے جسے حکومت وقت نظرانداز نہیں کر سکتی۔اہل عقل جانتے ہیںکہ گستاخی، مذاق اور نامناسب الفاظ کہنے کا جرم کتنا سخت ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے مجرم کو معافی دے سکتی ہے لیکن اپنے وزیر اور صدر کی شان کو گھٹانے پر سخت ایکشن لیتی ہے لیکن یہاں معاملہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ جن کی توہین ساری امت کی توہین ہے ۔
گستاخی رسول صل اللہ علیہ وسلم کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک ؒ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے بارے پوچھا تو آپ نے فرمایا، ’’اس امت کی کیا زندگی ہے جس کے پیغمبر کو گالیاں دی جائیں‘‘۔ اسی طرح شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ ؒ کے دور میں ایک نصرانی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے چھ سو صفحات کی ایک کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘تصنیف فرمائی جس میں آیات و احادیث، اجماع صحابہ و تابعین، خلفاء راشدین اور عقلی دلائل سے شاتم رسول کا واجب القتل ہونا ثابت کیا۔
3 ہجری میں ایک یہودی تاجر ابو رافع جو رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اسے آپ کی ہی اجازت سے قبیلہ خزرج کے لوگوں نے خیبر میں قتل کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں عام معافی کا اعلان کیا وہیں بارگاہ نبوت کے حد درجہ گستاخ افراد کو قتل کرنے کا بھی حکم دیا۔ سورہ احزاب میں اللہ نے فرمایا، ’’یہ ملعون جہاں کہیں پائے جائیں پکڑے جائیں اور خوب قتل کیے جائیں جیسا کہ مفسدین کے بارے میں اللہ کی سنت ہے اور اللہ کے آئین اور عادات میں کوئی تغیر و تبدل نہ پاؤگے‘‘۔ لہذا ان میں عبداللہ بن خطل گستاخ رسول بھی تھا اور اس نے فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑا ہوا تھا لیکن آپؐ نے اسے وہیں قتل کرنے کا حکم دیا- یہ شخص آپ کی ہجو میں شعر کہا کرتا تھا- اس کے علاوہ حویرث بن نقید، مقیس بن صبابہ اور حارث بن طلاطل وغیرہ شامل تھے جنہیں گستاخی رسول کی بنا پر قتل کیا گیا۔
مندرجہ بالا قتل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ہوئے اور یقیناً اس میں اللہ کی مرضی بھی شامل تھی اور وہ ان فیصلوں کی حکمت سے واقف ہے لیکن موجودہ دور میں گستاخ رسول کو قتل کرنے کے لیے عام عوام کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اور امن و امان کی صورت حال کو بگاڑنے کی دین بالکل اجازت نہیں دیتا۔ بے شک یہ ایک جذباتی معاملہ ہے اور ہر مسلمان اس سے دلبرداشتہ ہے لیکن اسلام کسی بھی شخص کو احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑ، راستے بند کرنا، لوگوں کے کاروبار زبردستی بند کروانے کا بالکل حکم نہیں دیتا بلکہ پرامن احتجاج اورحکومت سے صحیح ترین عدالتی کارروائی کے لیے زورڈالنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کاروبار بند کرنے کی اپیل کی جا سکتی ہے لیکن اس میں کسی قسم کی شدت پسندی کی اجازت نہیں ہے۔ عدالتوں میں انصاف کا نہ ہونا اور گستاخ رسول کو عام معافی دینا نہایت قبیح اور قابل افسوس بات ہے اور اس کے لیے جید علماء اور عوامی نمائندوں کو مضبوطی سے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے لیکن اس کی آڑ میں سرکاری املاک کا نقصان، عام لوگوں سے بد زبانی اور زبردستی انہیں ہڑتالوں پرمجبور کرنا مناسب نہیں ہے۔
ہرملک میں مجرموں کو سزا دینے کے لیے عدالت ہوتی ہے ،جہاں اسلامی نظام نہیں وہاں ہمیں عدالت کا سہارا لے کرشاتم رسول کو کڑی سے کڑی سزا دلانے پر زور ڈالنا چاہیے۔ اس طرح تمام عوام متحد ہوکر گستاخ کو سزا دلانے پر اڑ جائے تو حکومت کو بھی مجبور ہونا پڑجائے گا۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر اتحاد ہو۔ گستاخ رسول دنیا میں اگردنیاوی سزا سے بچ بھی جائے تو اخروی انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے،’’ اور جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسواکن عذاب ہے۔‘‘
فتنوں کے اس دور میں جب آزادی اظہار رائے کے نام پر معاذاللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کے مختلف انداز اپنائے جا رہے ہیں تو امت مسلمہ کی ذمے داری بھی مزید بڑھ چکی ہے۔ دور حاضر میںباطل اپنے بھرپور فتنوں کے ساتھ بام عروج پر ہے اور جہاں آزادی اظہار رائے کو خصوصی طور پر اسلام دشمنی کے لیے استعمال کر کے مسلم امہ کے صبر و تحمل کو آزمایا جاتا ہے وہیں یہ بھی باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید اب محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مر مٹنے والے نایاب ہو چکے ہیں لیکن زمانہ گواہ ہے کہ جب بھی ناموس رسالت پر کسی نے حرف اٹھانے کی جرات کی اسے ہر ممکن طریقے سے منہ توڑ جواب دے کر ثابت کیا گیا کہ کمزور ہونے کے باوجود گستاخی رسول کسی صورت برداشت نہیں ہے۔ عوام الناس کو چاہیے کہ اب پر امن لیکن مؤثر طریقے سے مسئلہ توہین رسالت کو حکومتی سطح پر اجاگر کریں اور اس بارے واضح اور مکمل قانون پاس کروایا جائے تاکہ نہ شک و شبہے کی بنیاد پر مجرم رہا ہو سکیں اور نہ ہی کسی پر کوئی جھوٹا توہین رسالت کا الزام لگایا جا سکے۔

حصہ