زین صدیقی
ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے ،اچھے لوگ اس معاشرے کا اثاثہ ہیں،وہ جو اس ملک کا سوچتے ہیں،وہ جو اس کے عوام کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق فکر مند رہتے ہیں۔وہ جو بے لوث ہیں۔اپنی ذات کو مٹا کردوسرں کی بہتری کیلئے سرکرداں ہیں۔اگر ایسی ہی کوئی شخصیت آپ کے ارد گرد موجود ہے تو آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں۔ سید محمدرحمت علی ایک بڑی شخصیت کے مالک ہیں ،جنہیں انسانیت کا درد ہے۔وہ رحمت بھائی کے نام سے مقبول ہیں۔رحمت ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی اور چیئرمین ہیں۔ میری ان سے 22سال پرانی رفاقت ہے۔ 75سالہ بزرگ تن تنہا انسانی خدمت میں مصروف ہیں۔ان کے اردگر بھی اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔لوگوں کے غم گسار،ہر کسی کے تکلیف میں دل گرفتہ ہونے والے ،دھان پان سے انسان ،مگر ان کا جذبہ خالص ،ان میںہمالیہ جیسی بلندی ومضبوطی پائی جاتی ہے۔
یوں تو پورا کراچی ہی مسائل کی زد میں ہے ،کہیں کچرے کے ڈھیر ،کہیں برساتی نالوں کی عدم صفائی، کہیں تجاوزات اور کہیں زمین قبضے کامسئلہ ،یہ سب وہ مسائل ہیں جن پر میں نے رحمت بھائی کو فکر مند ہوتے ہو ئے دیکھا ہے۔خاص طور پر مستقبل کے معماروں اورمادر علمی کی حالت زار پر تو وہ بہت ہی فکر مند نظر آتے ہیں۔وہ مجھے بہت دنوں سے اپنے علاقے نئی کراچی کے کئی اسکولوں کی حالت زار سے متعلق بتارہے تھے اور دعوت بھی دے رہے تھے کہ وہاں کا دورہ کیا جائے اوراس اسکول کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی سبیل کی جائے
رحمت بھائی دعوت پر ہم ان کے ساتھ نئی کراچی سیکٹر الیون جے میں واقع مادر علمی گورنمنٹ بوائز اینڈ گرلز پرائری اسکو ل جا پہنچے۔جب ہم اسکول کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو کچرے کے ڈھیر نے ہمارا منہ چڑایا۔جب اسکول کے اندر داخل ہوئے تب بھی ہمارے چہرے پر کسی خوشگوار تبدیلی کے آثار نہیں تھے۔
یہ مادر علمی وسیع وعریض رقبے قائم ہے۔اس میں ہمیں 2لیڈی ٹیچرز ملیں، ایک چپراسی بھی تھا۔ پیون سے مصافحہ کرنے کے بعد ٹیچرزنے ہمارے یہاں آنے کی وجہ پوچھی تو ہم نے انہیں اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ رحمت بھائی اس مادر علمی کی حالت زار سے متعلق بہت فکر مند ہیں اوروہ اس کی اور نئی نسل کی بہتر ی چاہتے ہیں۔ٹیچرزنے ہمیں ویلکم کہا اورنہایت طمانیت کا اظہار کیا اور ہم سے یوں گویا ہوئیںجسے انہیں ہماری شکل میں کوئی مسیحا مل گیا ہو۔جو ان کے اس ادارے کے دکھوں کا مداواکرے۔ ہم نے ٹیچرز سے اس عمارت کی خستہ حالی سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی کہ یہ اس حالت کو کیسے پہنچا ،بلکہ اس کو درپیش مسائل سے ہمیں آگا ہ کر نے پر اکتفا کیا۔
مادر علمی کے بارے میں ہمارے بزرگ وار رحمت بھائی ہمیں پہلے ہی بہت کچھ پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اس اسکول کی تاریخ تو پرانی ہے مگرایک سیاسی تنظیم نے اس میں ماضی میں اپنا دفترقائم کرکے اسے تاریک راہوں پر ڈال دیا تھا ،جو ا ب اس کے جانے کے بعد بھی تاریک ہے۔ٹیچرزنے بتایا کہ اس اسکول کا کوئی پرسان حال نہیں۔وسیع رقبے پر قائم اس اسکول میں بجلی ہے نہ پانی ،صفائی کا کوئی انتظام ہے، نہ واش روم ٹھیک ہیں ،ٹیچرزتو یہاں باقاعدگی سے صبح سے شام کی شفٹ میں آتے ہیں۔ مگر بچے 20سے 25ہیں۔یہاں پلاٹ تو بہت بڑا ہے مگر اس میں گراسی پلاٹ کوئی نہیں ہے۔ہم اسکول کے کمروں میں گئے تو ہم نے عجیب منظر دیکھا کہ فرنیچر غائب تھا۔اکا دکا ڈیسک پڑے تھے،کہیں کتابیں بکھری ہوئی تھیں ،الماریاں تو نظرنہیں آئیں البتہ کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹے ہوئے تھے۔وجہ پوچھنے پر ٹیچرز نے بتایا رات کے اوقات میں چوروں اور نشہ کرنے والوں کی یہ محفوظ پناہ گاہ ہے۔کھڑکیا ں اور دروازے ان ہی لوگوں نے توڑے ہیں۔ٹیچرز کا کہنا تھا کہ ہم نے علاقہ کے لوگوں میں دعوتی مہم شروع کی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرائیں تاکہ یہ اسکول آباد ہو مگر اس کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔لوگ اسکول میں اپنے بچے بھیجنے کو تیار نہیں۔انہوں نے کہا یہ اسکول وسیع رقبے پر ہے اور آپ کے سامنے ہے۔کیا اس کو ٹھیک نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں معلوم ہوا کہ کئی بارمحکمہ تعلیم کی توجہ اس مادر علمی کی تباہ حالی کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے مگر کسی نے ہماری آواز نہیں سنی،ٹیچرز کی آنکھوں میں امید اور امنگ تھی۔مادر علمی کی اپنوں کے ہاتھوں تباہی کی داستان سن کر رحمت بھائی کے چہرے پر افسردگی تھے ،انہوں نے ٹیچرزسے کہا کہ ہم نے اس مادرعلمی کو اپنے خون پسینہ ایک کر کے بنایا تاکہ نسل نویہاں علم حاصل کرکے پڑھ لکھ کر ملک وقوم کی ترقی کا باعث بننے ،لیکن ہماری اس خواہش اور جذبے کو روند دیا گیا۔
رحمت بھائی اور میں سوچ رہے تھے کہ ایک مادر علمی چیخ چیخ کر اپنا حق مانگ ر ہی ہے۔اب بھی سندھ میں ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں ،بہت سے اسکول بھینس باڑے اور اوطاق بنی ہوئی ہیں۔پنجاب ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہزاروں اسکول ایسے ہیں جہاں بچے کھلے میدان میں بیٹھ کرپڑھتے ہیں۔اسکول کا کوئی احاطہ ہے نہ ہی ان میدانوں پر تعمیرات ہیں۔بچے سردی ،گرمی کے احساس سے بے پروا مادرعلمی کی گود میں بیٹھ کرتعلیم کی لوریاں سننے پر مجبو ہیں۔بہت سے اسکول ایسے ہیں جہاں نہ تو ڈیسک ہیں نہ بیٹھنے کیلئے چٹائی نام کی کوئی چیز۔یہ بچے اپنے گھر وں سے بوریوں کے ٹکڑے لاتے ہیں۔بے بسی کا یہ عالم ،سہولتوں کی یہ دستیابی ہے ،21ویں صدی میں 18ویں صدی کا منظرہے۔ہمیں پیچھے رکھا گیا ہے یا ہم خود پیچھے جا رہے ہیں ،مہذب دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
9 اکتوبر 1938 کوسندھ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کراچی میں منعقد ہ د وسرے سیشن سے خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ابتدائی تعلیم کو عام کرکے ان لاکھوں انسانوں کوجو لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہیں، جہالت اور تاریکی سے روشنی میں لانے کے لیے ہمیں عام تعلیم کی اشاعت اور فروغ کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بھی اقدامات کرنے چاہئیں کہ ابتدائی تعلیم کو عام کیا جاسکے۔ابتدائی تعلیم کو مفت کیا جائے گا۔ مسلمانوں کے مذہب اور زبان و حروف کی حفاظت کی جائے گی اور ملک میں رائے عامہ بیدار کی جائے گی۔
قائد اعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان میں تعلیم عام ہے نہ مفت،نجی اسکولوں کی تعلیم عام آدمی کی پہنچ باہراورسرکاری اسکولوں سے تعلیم باہر ہے جس کی وجہ سے ہرکمزورفرد پریشان ہے۔تعلیم کو طبقات میں بانٹ دیا گیا تاکہ امیر اورغریب کا فرق ہمیشہ ہمیشہ برقرار ہے۔عاقبت نہ اندیش سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کو مقدم رکھا ،تعلیم سمیت اس جیسے دیگر شعبوں کو پیچھے ڈال دیا ہے۔
وزیر تعلیم سندھ سید سردارنے گزشتہ دنوں اپنی بیٹی اور بھتیجیوں کوسرکاری اسکول میں داخل کروادیا۔یہ ایک اچھا نما ئشی اقدام ہے اس پروزیر صاحب کو داد تحسین خوب ملی ہے ،مگر اس بات کا بھی جائز ہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا اس طر ح کے نمائشی اقدامات سے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر ہوگی یا تعلیم کی ترقی وترویج کیلئے موثر قانون سازی اس کا حل ہے۔وزیر اعظم عمران خان نئے پاکستان کا نعرہ لے کر آئے ہیں اللہ انہیں کامیابی دے لیکن نئے پاکستان میں نظام پرانا ہو تو یہ نئے پاکستان کو کبھی ہضم نہیں ہوگا۔تعلیم کو نمائشی اقدامات کے بجائے حقیقی اقدامات کی ضرورت لیکن یہ وہ کرسکے گا جوملک وقوم اورقائد اعظم محمد علی جناح سے مخلص ہو گا۔