صاحب نے جلدی کار کا شیشہ چڑھالیا

985

سفیر احمد چودھری

مفلس کی آدھی بات ہوا میں بکھر گئی
صاحب نے جلدی کار کا شیشہ چڑھا لیا

یہ شعر ان بہت سے مناظر کی عکاسی کرتا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہزاروں شاہراہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کو‘ جسے معرض وجود میں آئے کئی دہائیاںگزر چکی ہیں مگر آج بھی بہت سے بنیادی مسائل سے دوچار ہے جن میں ایک غربت بھی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔میری ذاتی رائے میں کوئی بھکاری پیشہ ور نہیں ہوتا کیونکہ ہاتھ پھیلاتے ہوئے اپنی عزت نفس کو مار کر کوئی کیسے یہ پیشہ اختیار کر سکتا ہے۔کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مجبوری ضرور ہوتی ہے۔ ہر روز ایسے سینکڑوں افراد دکھائی دیتے ہیں جو گاڑی کے شیشے کے سامنے آ کر ہاتھ جوڑ کر اور اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے چند روپے طلب کرتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ کیسا محسوس ہوتا ہوگا چند روپوں کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اس سے مانگتے ہوئے اور طرح طرح کے لوگوں کی جھڑکیاں کھاتے ہوئے؟ اس غریب کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جس کی کوئی پوری بات تک سننا گوارا نہیں کرتا ہو؟ کیا وہ خدا کی بارگاہ میں شکایت نہ کرتا ہوگا کہ اتنی بڑی بڑی عمارتوں میں رہنے والوں اور چمچماتی گاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگوں کے درمیان وہ بھوکا سویا؟ سگنل پر کھڑا 8 سالہ بچہ کیا باقی بچوں کو گرم کپڑوں میں اسکول جاتے دیکھ کر خدا سے نالاں نہ ہوتا ہوگا کہ اسکول تو درکنار کوئی اس کے ننگے بدن کو ڈھانپنے والا تک نہیں؟ دکان کے باہر بیٹھی جوان بیوہ 2 سالہ بچے کو لیے بھیک مانگنے کے ساتھ ساتھ خدا کی تقسیم پر سوال نہ کرتی ہوگی؟ سڑک کنارے کھڑا 80 سالہ بزرگ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی عمر میں ان کو دو وقت کی روٹی دینے کے لیے بھیک مانگتے ہوئے خدا کی طرف دھندلی نگاہوں سے دیکھتا نہ ہوگا؟ان سب سوالوں کے جواب خدا ہم سے لے گا کہ میں بھوکا تھا اور تو مجھے کھانا تک نہ کھلا سکا۔میں مجبور تھا تو میری مجبوری دور نہ کر سکا۔میں لاچار تھا تو مجھے دیکھ کر گزر گیا۔میں مظلوم تھا تو مجھ پر ظلم نہ رکوا سکا۔میں بے بس تھا مگر تو مجھے حقارت سے دیکھتا رہا۔میں بیمار تھا تو میری بیمار پرسی نہ کر پایا۔میں تنگ دست تھا تو میری غربت نہ مٹا سکا۔میں نجانے کتنے روپ دھارے تیرے پاس آیا مگر تو میری داد رسی نہ کرپایا۔ اور اس وقت شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی اور ہماری ندامت بھی ہمارے کام نہ آ سکے گی۔
خدارا اپنے اردگرد مخلوق خدا پر نظر رکھیے نہ جانے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے آپ کی مدد کے منتظر ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے شاید ہاتھ نہ پھیلا سکتے ہوں ایسے لوگوں پر خاص نظر اور ان کا خاص خیال رکھیں۔تھوڑا دیں یا زیادہ مگر کوشش کریں کہ کسی کو بھی خالی ہاتھ نہ جانے دیں۔یاد رکھیے کسی کا آپ کے سامنے اللہ کے نام پر ہاتھ پھیلا دینا ہی اس کے ضرورت مند ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ان لوگوں کو بھی معاشرے کا حصہ سمجھا جائے اپنی زکوۃ و صدقات سے ہی کم از کم ان افراد کی مالی امداد کرکے ان کو برسر روزگار کروادیں۔ یہ لوگ بھی ہمارے اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں۔جہاں تک ہو سکے ایسے افراد کی مدد کیجیے اور ان کو معاشرے میں اعلی مقام دلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے۔ایسے افراد کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اور ان کی بات سنیے اور جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کیجیے۔یاد رکھیے یہ لوگ اللہ کی طرف سے امتحان بن کر ہمارے پاس آتے ہیں، اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے ان کوان کا حصہ پہنچائیے اور اپنی دنیا اور آخرت کو سنواریے۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
nn

حصہ