تغیر و ثبات

1004

انصر محمود بابر
حیات انسانی میں آئے دن ،ہرساعت اورہرلمحہ کوئی نہ کوئی تبدیلی رونماہورہی ہوتی ہے۔کہیں پھول کھلے ہوتے ہیں اورخوشبوئیں لٹارہے ہوتے ہیںتوکہیں معصوم کلیاں بن کھلے ہی کملاجاتی ہیں۔ایک منٹ میںانسان کی دھڑکنوں کی تعداد80 ہے تودوسرے ہی لمحے یہ گنتی اس سے کم یازیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ انسان کبھی کسی کو دیکھتا ہے توآنکھ جھپکنا بھول جاتا ہے اور کبھی کسی چیزکی چکا چوند اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ آنکھ کھلتی ہی نہیں،اورپھرجب آنکھ کھلتی ہے توآنکھیں کھل جاتی ہیں۔وہی سورج ہوتاہے کہ ہم سائے تلاش کررہے ہوتے ہیں اورکبھی ہمیں اس کی بادلوں سے آنکھ مچولی بھی اچھی نہیں لگتی۔چاندایک ہی وقت میں فطرت پسندوںکے جذبات ِ شوق کومہمیزدے رہاہوتاہے تودوسری طرف ’’لو ُٹنے والے ‘‘اور’’لو َٹنے والے‘‘اسی چاندکے چھپ جانے کی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ایک ہی وقت میں کچھ لوگ ستاروںکی روشنی میں اپنی راہ ڈھونڈ لیتے ہیں اورکچھ لوگ اپنی چھتوں پہ لیٹے انھی ستاروں کوگننے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔
جس جس نے جوجوکرناہوتاہے وہ کر کے ہی رہتا ہے۔اگرپھولوں کوکھل کرمرجھاناہی ہوتاہے تووہ کھلتے ہی کیوں ہیں؟اگرپھول کھلے ہی رہیں توکلیاں توکبھی بھی پھول نہ بن پائیں، سورج ہمارے لیے اگررات کوبھی اتناہی ضروری ہوتاجتناکہ دن میںتوسورج کورات میں بھی نکلناہی پڑتا۔اگررات اندھیری نہ ہو توچاند کی چاندنی اورتاروں کی ضیاء پاشیاں کس کام کی؟سانس کاپھولناشدت ِ محبت کابھی اظہارہوسکتاہے اورشدت ِ غضب کابھی۔ہرسو پھیلی خوشبو پھولوں کے جوبن کااعلان کررہی ہوتی ہے۔توکلیاں اپنی حیاکی ردامیں لپٹی اپنے بچپنے سے لطف اندوزہورہی ہوتی ہیں۔ درختوں سے گرتے پتے جہاں خزاں کی علامت ہوتے ہیں،وہیں اس بات کامژدہ بھی سنارہے ہوتے ہیں کہ ہمارے تعاقب میں بہاروں کاایک سلسلہ بھی ہے جودبے پائوں چلاآرہاہے۔درختوں کے جوپتے خزاں تک بچ جاتے ہیںوہ خوش نصیب ہوتے ہیں کیونکہ آنے والی بہارکا استقبال انھی کے مقدر میں لکھاہوتا ہے۔
بہارکے شگوفوںمیں بھرارنگ خشک پتوںہی کاجوہربھی توہوسکتاہے۔ان خشک پتوں پہ میں کیا لکھوں کہ جوآنے والی بہارکے قدموں پہ قربان ہوکرامرہوجاتے ہیں۔میںایک دن درختوں کے نیچے سے گزررہاتھا،پائوںخشک پتوںپہ پڑرہے تھے ۔پائوں کے نیچے خشک پتے چرمراتے ہوئے عجیب آوازیںنکال رہے تھے،غورکیاتومحسوس ہواجیسے یہ پتے مجھ ہی سے مخاطب تھے ،میرے ہی بارے میں سرگوشیاں کررہے تھے کہ دیکھوزمین پراکڑکرچل رہاہے، کتناغافل انسان ہے جواس بات سے بے خبرہے کہ اس پہ بھی خزاں آئے گی ۔ یہ اس خوش فہمی میں مبتلاہے کہ سداجوبن ہی رہے گااورمیں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔یہ انسانی مزاج کاحال ہے کہ پل پل رنگ بدلتا ہے کبھی سائے کی طلب میں سرگرداں،کبھی سرماکی دھوپ کاتمنائی۔کبھی نئے نئے رشتوںکی تلاش میں کوشاں،کبھی بالکل ہی تنہائی کاخواہاں۔کبھی بے حدمحبتوں کاسرچشمہ،کبھی بے پایاں نفرتوں کامظہر۔کبھی عقیدت واحترام کاپیکرتوکبھی بے نیاز ِ پیمان ِ وفا۔
کبھی خدائے لم یزل کاطاقتور دست وبازوتوکبھی شیطانی قوتوںکے تابع مجسمہ شیطان۔کبھی مسجود ِ ملائکہ توکبھی ساجد ِ نیاز مند‘ کبھی تمام تر انسانی عظمتوں کی انتہائی بلندیوں پر فائز تو کبھی ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا۔ یہی نیرنگی فطرت ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ ہی رہے گا۔ ہماری دعایہ ہونی چاہیے کہ یااللہ توہمیں نافع الخلائق بنادے،تیری مخلوق کوہم سے فائدہ ہواورہمیں تمام شرورسے اپنی امان میں رکھ۔آمین

حصہ