قانتہ رابعہ
’’اوئے مانی چھانی ’چوہے دانی‘ میری بات تو سنو۔‘‘ ولید نے عاطف کو بلایا جو اس کے قریب ہی بیٹھا بچوں کی کہانیوں کی کتاب پڑھ رہا تھا۔
’’جی ولید بھائی آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔۔۔‘‘ عاطف نے نظریں کتاب سے ہٹا کر پوچھا۔ وہ ولید کا چچا زاد بھائی تھا لیکن اس کے سب گھر والے گاؤں میں رہتے تھے۔ دو سال سے وہ تایا کے پاس رہنے کے لیے ساہیوال آیا ہوا تھا۔۔۔اچھے اسکول کے علاوہ اکیڈمی میں بھی جاتا اور قاری صاحب سے تجوید کے ساتھ قرآن بھی سیکھ رہا تھا۔ ولید سے عمر میں چھہ سات ماہ بڑا تھا مگر بہت تمیز اور ادب کے ساتھ ایسے بات کرتا جیسے ولید اس سے سات سال بڑا ہو۔۔۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات تھی کہ تمیز اور تہذیب ولید کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔۔۔ بڑوں سے وہ گستاخی سے بات کرتا اور عاطف کے لیے تو اس کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی۔
’’ہونہہ۔۔۔ پینڈو۔۔۔ کھانے پینے کا بھی نہیں یعنی ابھی تک چمچ اور کانٹے سے کھانا نہیں آیا۔‘‘
عاطف سب کچھ دیکھ کر بھی انجان بنا ہوا تھا اور اسے جواب دینے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔۔۔ اس کے پاس اس کی بہترین دوست کتابیں تھیں۔ کہانیوں کی، لطیفوں کی، نظموں کی، تاریخ کی۔۔۔ وہ دادی اماں، تائی جان اور مبشرہ آپی سے باتیں کرکے فارغ ہوتا تو کتابیں پڑھنے میں مصروف ہوجاتا۔
کتابوں سے چھٹی ملتی تو ہوم ورک لے کر بیٹھ جاتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے پاس فرصت بھی نہیں تھی ولید کی باتوں کو سمجھنے یا جاننے کی۔ ہاں جب اس نے آج بار بار اس کے اْلٹے سیدھے نام لینے شروع کیے تو اس سے رہا نہ گیا۔ اب وہ کتاب بند کرکے کمپیوٹر پر کام کرنے لگا تھا۔اس نے ولید کو دیکھا اور پوچھا: ’’ولید بھائی آپ نے مجھے ابھی کیا کہہ کے بلایا تھا؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں نے تو بس یہ کہا تھا عبدالمانی مچھر دانی۔۔۔‘‘ باپ کو سامنے آتا دیکھ کے اس کا رَنگ فق ہوگیا۔
عاطف کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔۔۔ اسے اچھی طرح سنائی دیا تھا کہ ولید نے اسے چوہے دانی کہا تھا۔ مگر تایا ابو کے سامنے وہ یہ بات کہہ کے تایا ابو کے غصے کو دعوت دینا نہ چاہتا تھا اس لیے خاموش رہا۔۔۔ مگر دل میں وہ ستر بار سوچ چکا تھا کہ ’ولید تم جھوٹ بھی بولتے ہو؟‘‘
جونہی تایا ابو کمرے سے باہر گئے اور پانچ دس سیکنڈ میں گاڑی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ولید بازو چڑھا کے میدان میں کود پڑا۔
’’ہاں جی محترم عاطف صاحب، آپ کو اپنا نام پسند آیا یا نہیں؟‘‘
’’نام تو ولید بھائی سارے ہی اچھے ہوتے ہیں بس عبدالمنان چوں کہ اللہ کا نام ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں کئی بار فرمایا ہے کہ میرے سارے نام اچھے ہیں اس لیے ہمیں ان کو بگاڑ کے نہیں زبان پر نہیں لانا چاہیے۔‘‘ بڑی سنجیدگی سے عاطف نے جواب دیا۔ اس کا نام تو عاطف تھا مگر دادا ابو نے اس کا نام عبدالمنان عاطف رکھا تھا۔۔۔ جب سے ولید کو اس بات کا علم ہوا تھا وہ اسے مانی چوہے دانی، مانی مچھر دانی، مانی نمک دانی کہتا تھا۔
ولید نے طنزیہ نظروں سے دیکھا ’’گویا تمھارا نام مانی اللہ کا نام ہے؟‘‘
’’نہیں ولید بھائی مانی نہیں عبدالمنان ہے میرا نام اور منان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نام ہے۔۔۔ اللہ جی کے کسی نام کو بھی بگاڑنا نہیں چاہیے، بہت سخت گناہ کی بات ہے۔‘‘ عاطف نے سمجھایا۔
’’اچھا۔۔۔ تو۔۔۔ اللہ کے اور بھی نام ہیں بھلا کتنے؟‘‘ بڑے مزے سے صوفے پر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے ولید نے عجیب انداز میں سوال کیا۔
’’ہاں ولید بھائی کل کتنے نام ہیں۔ اس کی حقیقت تو اللہ ہی جانتے ہیں مگر مشہور یہی ہیں کہ ننانوے نام ہیں۔۔۔‘‘ عاطف نے تفصیل بتائی۔
’’کون سے نام، اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادو۔۔۔‘‘ ولید مسکرایا۔
عاطف نام بتاتا گیا ولید سنتا گیا۔۔۔ یہاں تک کہ ننانوے نام مکمل سنادیے۔
’’گڈ۔۔۔ کیا اس کا مطلب بھی پتا ہے آپ کو؟‘‘ ولید نے پوچھا۔ عاطف ان کے معنی اور تھوڑی تھوڑی تفصیل بتاتا گیا۔
سمیع: سننے والا
بصیر: دیکھنے والا
لطیف: باریک بین
’’ایک منٹ۔۔۔ ایک منٹ ٹھہرو عاطف، میں تو اپنے کلاس فیلو عبدالطیف کو اکثر مذاق میں طیفا لمبو اور عبدالسمیع کو ’’اسّی بسّی‘‘ کہتا ہوں۔
’’کیا یہ بھی غلط ہیں؟‘‘ ولید کے چہرے پر تفکر کی لہر آئی۔
’’ہاں ولید بھائی اللہ تعالیٰ کے سارے نام بہت محبت اور احترام سے لینے چاہیں۔ اب ہمارے گاؤں میں بصیر کو سارے بْسّی دال کہتے ہیں، مولوی صاحب نے سارے گاؤں کے بچوں کو بلا کے جرمانہ رکھ دیا کہ آیندہ جو بھی اسے ’بْسّی دال‘ کہے گا اسے جرمانے میں سارا دن صفائی ستھرائی، پانی بھرنے کا کام کرنا پڑے گا۔۔۔ بصیر کا مطلب ہے دیکھنے والا سمیع کا مطلب ہے سننے والا۔۔۔ اگر تم آیندہ اکیلے میں بھی اسے ’بْسی دال‘ کہو گے تو وہ ہر وقت سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ عاطف نے بہت ٹھہراؤ سے قاری صاحب کی بات بتائی۔
’’کیا مطلب بصیر۔۔۔ یعنی دیکھنے والا؟ ہر وقت ہر کسی کو دیکھنے والا؟‘‘ ولید سرگوشی کے سے انداز میں بولا۔
’’ہاں ولید بھائی پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کالی رات میں کالے پتھر پر کالی چیونٹی جارہی ہو تو اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دیکھتے ہیں؟‘‘ عاطف نے وضاحت کی۔
ولید کا رنگ فق ہوگیا۔۔۔ ’’اس کا مطلب ہے میں نے ثمینہ آپی کے بیگ سے ان کی چاکلیٹ نکالیں۔۔۔ وہ بھی دیکھی ہوں گی؟ میں نے اپنے کلاس فیلو کو نیچا دکھانے کے لیے اس کی کتاب بدل کے پرانی رکھ دی اس کی کاپی سے صفحات پھاڑ دیے وہ بھی دیکھے ہوں گے۔‘‘
عاطف افسردہ ہوگیا۔۔۔ ہاں ولید بھائی اللہ تعالیٰ کا ویڈیو کیمرہ ہمارے کراماً کاتبین کے پاس ہے ہماری ہر حرکت ہمارا ہر کام، ہمارا ہر سانس، ہر لفظ لکھا جارہا ہے، ویڈیو کیمرے میں محفوظ کیا جارہا ہے۔‘‘ اور یہی ویڈیو کیمرہ یعنی بائیو ڈیٹا بھی قیامت کے دن پیش کیا جائے گا، جسے اعمال نامہ کہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ پھر تو مارے گئے۔۔۔‘‘ ولید ہکلایا۔۔۔
’’کل امی، کام والی ماسی کو ڈانٹ رہی تھیں وہ بھی ویڈیو بن گئی۔‘‘
’’بالکل۔۔۔ ہر کسی کی بنتی ہے ویڈیو۔۔۔‘‘ عاطف نے کہا۔
اس کے دماغ میں جیسے زلزلہ آیا ہوا تھا۔۔۔ اس کی پچھلی ویڈیوز تو ساری ہی خراب تھیں، گندی۔
ہاں تو تیسواں پارہ ترجمے کے ساتھ پڑھ لو، ہر چیز سمجھ میں آجائے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے زیادہ تر نام بھی پتا چلیں گے معاف کرنے والا۔۔۔ توبہ قبول کرنے والا، درگزر کرنے والا، بخشنے والا، رحم کرنے والا۔۔۔ غلط کام کیا تو جھٹ سے معافی مانگ لی جیسے بچے فوراً سوری بول دیتے ہیں۔
’’اچھا۔۔۔ پھر اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں ناں؟‘‘ ولید بے تابی سے بولا۔
’’معاف۔۔۔ ارے بھائی وہ ویڈیو بھی ڈیلیٹ کردیتے ہیں۔۔۔‘‘ عاطف چمک کر بولا۔
’’سچی؟‘‘ ولید بے قراری سے بولا۔
’’مچی۔۔۔‘‘ عاطف جواباً مسکرا کے بولا۔
تھینک یو اللہ تعالیٰ۔‘‘ ولید خوشی سے چہکا۔ اسے پتا بھی نہ چلا، پیچھے کب سے تایا ابو اور تائی امی کھڑے دونوں کی گفتگو سن اور دیکھ رہے تھے۔۔۔ عاطف شرما گیا۔۔۔ تایا ابو نے عاطف کو سینے سے لگا کے ماتھا چوما اور تائی اماں نے ولید کو قریب کیا۔۔۔ آنکھوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے، بے تابی سے اس کا ماتھا چوم رہی تھیں اور ایک ہی فقرہ کہہ جارہی تھیں۔
’’کون کہتا ہے۔۔۔ اللہ کے ناموں میں تاثیر نہیں۔۔۔‘‘
’’شکرہے اللہ تعالیٰ۔‘‘ انھوں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔