حبیب الرحمن
ایک بطخ کسی کھونٹی پر بیٹھی دانے چگ رہی تھی۔ کھونٹی ایک جگہ سے کچھ چری ہوئی تھی۔ کھاتے کھاتے ایک دانہ اس میں پھنس گیا۔ اس نے اپنی سی بہت کوشش کی کہ دانہ نکل آئے۔ بہت چونچیں ماریں لیکن دانہ نکل کے نہ دیا۔ سوچتی رہی کہ آخر کیا کیا جائے۔ اچانک اسے ایک ترکیب سمجھ میں آگئی۔ وہ اپنے گھر سے چلی۔ کچھ دور بازار تھا اور اس بازار میں ایک بڑھئی بیٹھا کرتا تھا۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس سے مدد لی جائے۔ وہ چلتی چلتی بڑھئی کی دکان تک جا پہنچی۔ بڑھئی کی دکان کھلی ہوئی تھی، بڑھئی بھی موجود تھا اور فی الحال اس کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا۔ بطخ کو دیکھ کر بڑھئی بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ ’’بی بطخ‘‘ سناؤ کیسے آنا ہوا۔ بطخ نے کہا
بڑھئی رے بڑھئی میری کھونٹی چیر۔ بڑھئی نے کہا میں تیری کھونٹی کیوں چیروں؟
بطخ نے کہا گھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
بڑھئی نے کہا کہ میرا کھونٹی نے کیا بگاڑا جو میں اسے چیروں۔ جاؤ اپنی راہ لو
یہ سن کر بطخ کو بہت غصہ آیا ، وہ وہاں سے اٹھ کر شہر کے راجا کے پاس جا پہنچی اور راجا سے کہنی لگی
راجا رے راجا تو بڑھئی کو مار
راجا نے کہا میں بڑھئی کو کیوں ماروں
بطخ نے کہا ۔ بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
راجا نے کہا کہ بڑھئی نے میرا کیا بگاڑا جو میں اسے ماروں۔ جا جا اپنی راہ لے
بطخ کو راجا کی بات سن کر بہت ہی غصہ آیا۔ وہ سوچنے لگی اب کیا کرے۔ ایک دم اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ راجا کے پاس سے اٹھ کر رانی کے پاس جا پہنچی۔ رانی اس کو دیکھ کر بہت حیران ہوئی اور پوچھا کہ بی بطخ کیسے آنا ہوا
بطخ نے کہا کہ رانی رے رانی تو راجا سے روٹھ جا
رانی نے کہا کیوں ؟ میں راجا سے کس لئے روٹھ جاؤں؟ وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتا ہے
بطخ نے کہا۔ راجا بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیر تا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
رانی نے کہا کہ راجا نے میرا کیا بگاڑا کہ میں اس سے روٹھ جاؤں۔ جاؤ جاؤ اپنی راہ لو
اب بطخ سوچ میں پڑ گئی۔ پرانے زمانے میں، بڑے بڑے صندوق، سوٹ کیس، الماریاں اور خزانہ رکھنے کی تجوریاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ روپے پیسے، قیمتی زیورات، ریشم و کمخواب کے اعلیٰ لباس، لحاف بچھونے اور دیگر اشیا بڑی بڑی گٹھڑیوں میں باندھ کر گوداموں میں رکھ دی جاتی تھیں۔ یہ سوچ کر اسے اچانک ایک خیال آیا اور وہ تیزی کے ساتھ رانی کے گھر سے نکل کر چوہے کے پاس جا پہنچی۔ چوہا پہلے تو ڈرگیا کہ کہیں وہ اپنی چونچ کی طاقت سے اسے زخمی کر کے نہ رکھ دے لیکن بطخ کے دوستانہ انداز کی وجہ سے وہ اپنے بل میں داخل ہوتے ہوتے رک گیا لیکن دل میں ٹھان لی تھی کہ اگر بطخ کسی شرارت پر اتر آئی تو وہ پھرتی کے ساتھ اپنے بل میں گھس جائے گا
بطخ نے کہا ، اے چوہے ڈرومت میں تمہاری مدد لینے آئی ہوں۔ یہ سن کر چوہا حیران رہ گیا اور سوچنے لگا کہ بی بطخ کس مشکل میں پھنس گئی ہے اور وہ اس کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ اس نے کہا کہو بی بطخ کیا معاملہ ہے اور میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔ بطخ نے کہا چوہے رے چوہے تو رانی کی ساری گٹھڑیاں کتر دے۔ چوہے نے کہا کیوں؟
بطخ نے کہا۔ رانی راجا سے نہیں روٹھتی، راجا بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
جب چوہے نے بطخ کی روداد سنی تو وہ شیر ہو گیا اور بڑی غضبناک آواز میں کہا کہ جاؤ جاؤ میرا رانی نے کیا بگاڑا جو میں اس کے قیمتی سامانوں کی گٹھڑیاں کتر تا پھروں اور یہ کہہ کر جلدی سی اپنے بل میں گھس گیاکہ کہیں بطخ اسے چونچ میں نہ دبالے
بطخ کسمسا کر رہ گئی اور سوچنے لگی کہ اب اس کو کیا کرنا چاہیے۔ چوہے کی اتنی بڑائی اور روکھے جواب نے اس کا دل توڑ کر رکھ دیا تھا لیکن وہ بھی ہمت ہارنے والوں میں سے کہاں تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ اب اس کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ سوچتے سوچتے اچانک اسے بلی کا خیال آیا اور اس نے سوچا کہ اس شرکش چوہے کو بلی کے ذریعے ضرور سزا دلوانی چاہیے تاکہ اس کی شیخی دھری کی دھری رہ جائے۔ اس کو چوہے کا انکار اتنا برا نہیں لگا تھا جتنا اس کا غضبناک لہجہ۔ چنانچہ وہ بلی کے پاس جا پہنچی۔
بلی نے اسے دیکھا تو بولی کیوں بی بطخ کیسے آنا ہوا
بطخ کہنے لگی۔ بلی رے بلی تو چوہے کو کھاجا
یہ سن کر بلی کے منھ میں ایک مرتبہ تو پانی بھرآیا۔ پانی اپنے حلق میں اتار کر بلی نے پوچھا کہ آخر کیا ہوا جو میں چوہے کو کھا جاؤں؟
بطخ کہنے لگی۔ چوہا رانی کی گٹھڑی نہیں کترتا، رانی راجا سے سے نہیں روٹھتی، راجہ بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
بلی نے بطخ کی روداد سن کر برا سا منھ بنایا اور کہا کہ جاؤ بی بطخ اپنا راستہ ناپوں۔ آخر چوہے نے میرا کیا بگاڑا جو میں اسے کھا جاؤں
بطخ کو بہت مایوسی ہوئی لیکن وہ اب بھی ہمت ہارنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ وہاں سے اٹھی اور اس نے سوچا کہ اس بلی کو کیوں نہ کتے کے ہاتھوں سزا دلوائی جائے۔ چنانچہ وہ کتے کے پاس جا پہنچی۔ کتے کو آج تک اس بات کا خیال ہی نہیں گزرا تھا کہ بطخ کو مجھ ’’کتے ‘‘سے بھی کوئی کام پڑسکتا ہے اس لئے وہ بہت حیران ہوا اور بطخ سے پوچھ بیٹھا کہ بی بطخ کیا ہو گیا، کیسے آنا ہو گیا
بطخ نے کہا کہ کتے رے کتے تو بلی کو پھاڑ کھا
کتنے نے حیرانی سے پوچھا کہ ایسا کیا ہو گیا کہ میں بلی کو پھاڑ کھاؤں؟
بطخ نے کہا۔ بلی چوہے کو نہیں کھاتی، چوہا رانی کی گٹھڑیاں نہیں کترتا، رانی راجہ سے نہیں روٹھتی، راجہ بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
کتے نے اس کی بات سنی تو اوروں کی طرح اس کو چلے جانے کو کہا اور کہا کہ آخر بلی نے اس کا کیا بگاڑا ہے جو وہ بلی کو پھاڑ کھائے
بطخ نے دل میں عہد کرلیا تھا کہ وہ اپنا کام کراکر ہی دم لیگی خواہ اس کے لئے اسے پوری دنیا ہی کیوں نہ گھومنی پڑجائے۔ چنانچہ وہ لکڑیوں کے ڈھیر کے پاس جا پہنچی۔ لکڑیوں کو بھی بلی کے آنے پر حیرت ہوئی اور ان میں سے ایک بڑی لکڑی نے حیرت سے دریافت کیا کہ بطخ ری بطخ کیسے آنا ہوا؟
بلی نے کہا لکڑیو ری لکڑیو! تم یہاں سے اڑتی ہوئی جاؤ اور کتے کے سرپر جاکر برسو۔
لکڑیوں نے کہا کہ کیوں؟
بطخ کہنے لگی۔ کتا بلی کو نہیں پھاڑتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، چوہا رانی کی گٹھڑی نہیں کترتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، راجا بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
لکڑیوں نے بھی ٹھینگا دکھادیا اور کہا کہ جاؤ جاؤ، کتے نے ہمارا کیا بگاڑا جو ہم اس کے سر جا برسیں
بطخ وہاں سے مایوس ہوکر آگ کے پاس جا پہنچی۔ آگ نے بطخ کو قریب آتے دیکھا تو زور زور سے چلا کر کہا کہ وہ اس کے قریب نہ آئے ورنہ جل کر راکھ ہو جائے گی
بطخ جو بہت جذباتی انداز میں تیزی کے ساتھ آگ کی جانب لپک رہی تھی آگ کی چیخ و پکار سن کر رک گئی اور دور ہی سے کہنے لگی
آگ رے آگ تو لکڑیوں کے ڈھر کو جلا کر راکھ کردے
آگ نے کہا بے شک میرا کام جلاکر راکھ کر دینا ہی ہے لیکن بی بطخ! آخر ایسا کیا ہو گیا کہ میں لکڑیوں کے ڈھیر کو جلا کر راکھ کر ڈالوں
بطخ کہنے لگی۔ لکڑیاں کتے کو نہیں مارتیں، کتا بلی کو نہیں پھاڑتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، چوہا رانی کی گٹھڑیاں نہیں کتر تھا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، راجا بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
آگ نے بھی ساری کہانی سننے کے بعد روکھا سا جواب دیدیا اور کہا کہ وہ یہاں سے چلی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہوں کہ میں جلال میں آکر تم کو ہی بھسم کر ڈالوں۔ آخر لکڑیوں نے میرا بگاڑا ہی کیا ہے کہ میں ان سب کو جلا کر راکھ بنادوں
(جاری ہے)
بطخ کو ہر کوئی مایوس کئے دے رہا تھا لیکن وہ اب تک مایوسی کا شکار نہیں ہوئی تھی اور اس نے سوچ رکھا تھا کہ کوئی نہ کوئی اس کی مدد کو ضرور نکل کھڑا ہوگا۔ چنانچہ وہ وہاں سے اٹھ کر قریب ہی بہنے والی ندی کے پاس گئی۔ ویسے بھی وہ اکثر اس ندی کے پاس آیا جایا کرتی تھی اور اس میں تیرتی تھی اور اگر کوئی مچھلی قابو میں آجاتی تو اس کو بھی ہضم کر جایا کرتی تھی۔ ندی نے جو اس کو آتے دیکھا تو کہنے لگی۔ کیا بات ہے بی بطخ! اس مرتبہ بہت عرصے بعد آنا ہوا ہے۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ بطخ نے کہا، ہاں طبیعت توٹھیک ہے لیکن آج میں تمہارے پاس ایک ضروری کام سے آئی ہوں
ندی نے حیران ہو کر کہا کہ میں تمہارے کیا کام آسکتی ہوں۔ بطخ کہنے لگی کہ ندی رے ندی، تو آگ کو بجھا دے۔ ندی نے کہا آخر کیوں؟
بطخ کہنے لگی۔ آگ لکڑیوں کو نہیں جلاتی، لکڑیاں کتے کو نہیں مارتیں، کتا بلی کو کہیں پھاڑتا، بلی چوہے کو نہیں کھا تی، چوہا رانی کی گٹھڑیاں نہیں کتر تا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، راجا بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی گھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی ندی جو بڑے چاؤ کا اظہار کر رہی تھی ایک دم بگڑ گئی اور بطخ سے کہنے لگی کہ جاؤ جاؤ، آخر میرا آگ نے کیا بگاڑا جو میں اسے بجھا دوں
ندی کے قریب ہی ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ اس جنگل میں سیکڑوں ہاتھی رہا کرتے تھے۔ یہ سب ہاتھی بھی بطخ سے واقف تھے۔ بطخ کو جنگل کی جانب آیا دیکھ کر رک گئے اور پوچھا کہ بی بطخ کیا ماجرا ہے۔ آج تو بہت عرصے بعد جنگل کیا رخ کیا ہے۔ ہمارے لائق کوئی خدمت۔ بطخ ان کی ایسی محبت بھری بات سن کر بہت خوش ہوئی اور سوچنے لگی کہ شاید اب اس کا کام ہو ہی جائے گا۔ کہنے لگی، ہاتھیو رے ہاتھیو! تم ندی کاسارا پانی پی جاؤ۔۔ ہاتھیوں نے کہا کہ ہم ایسا کیوں کریں؟
بطخ کہنے لگی۔ ندی آگ کو نہیں بجھاتی، آگ لکڑیوں کونہیں جلاتی، لکڑیاں کتے کو نہیں مارتیں، کتا بلی کو نہیں پھاڑتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، چوہا رانی کی گٹھڑیاں نہیں جنگل کے سارے ہاتھی اس کی کہانے سن کر زور زور سے ہنسنے لگے۔ جاؤ جاؤ بی بطخ اپنا راستہ لو۔ اگر ہم ندی کا سارا پانی آج ہی پی لیں گے تو پھر آئندہ کیا پیاسے رہیں گے؟ چلو چلویہاں سے جاؤ، ندی نے ہمارا کیا بگاڑا کہ ہم ایسا کریں
بطخ جو ان کی دوستانہ باتیں سن کر خوش ہو رہی تھی، ایک دم سے دل ہی دل میں رو پڑی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ ’’اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘ چنانچہ اس نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اس کی مدد کے لئے کسی کو اس کا مدد گاربنادے۔ وہ سرجھکائے ہاتھیوں کے پاس سے چلی جا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ سارے انسان اور جانور جو بڑی بڑی طاقت اور صلاحیت والے ہوتے ہیں وہ سب کے سب ہی کسی کمزور کے کام شاید ہی آتے ہوں کیونکہ ان کو اپنی طاقت اور صلاحیتوں پر بڑا ناز ہوتا ہے ، وہ کمزوروں کے کام آنا اپنی توہین محسوس کرتے ہیں اور زور والوں کا ہر کام بھاگ بھاگ کے اس لئے کرتے ہیں تاکہ ان سے اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ایسی ہستیاں جو کمزور ہوں بعض اوقات وہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیدیتی ہیں تو کیوں نہ کسی بہت ہی کمزور ہستی کے پاس جاکر اپنی مشکل کا حل تلاش کیا جائے۔۔۔ لیکن ۔۔۔ وہ جائے تو کس کے پاس جائے۔ یہی سوچتی جاتی اور چلی جاتی تھی کہ ایک چیونٹی نے اس کی پریشانی بھانپ لی اور اس سے پوچھا کہ بی بطخ کیا بات ہے آج تم بہت ہی مضمحل اور پریشان نظر آرہی ہو ۔ آو چلو ہماری ’’ملکہ‘‘ سے ملو ممکن ہے کہ ہم تمہاری پریشانی کو دور کرنے کا سبب بن سکیں۔ بطخ نے پہلے تو سوچا یہ چیونٹی کیا کر سکے گی لیکن پھر فوراً ہی اس نے سوچا کہ یہ کمزور ضرور ہے پھر بھی ان کے سامنے اپنا مدعا رکھنے میں کیا ہرج ہے۔ اللہ چھوٹے سے چھوٹے جاندار سے بھی بڑے بڑے کام نکلوادیتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ اس کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ چیونٹی نے اپنی ملکہ سے کہا کہ بی بطخ بہت پریشان ہیں ہمیں چاہیے کہ ان کی پریشانی کا حل نکالیں۔ ملکہ نے بطخ کی جانب دیکھا اور کہا کہ تم اپنی پریشانی کا سبب تو بتاؤ، ممکن ہے کہ ہم اس کاحل نکال ہی لیں
بطخ نے کہا کہ آپ چیونٹیوں کو حکم دیں کہ وہ ہاتھیوں کی سونڈھوں میں گھس جائیں کیونکہ میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اگر چیونٹیاں ہاتھیوں کی سونڈھوں میں گھس جائیں تو ہاتھی مر جاتے ہیں۔ ملکہ نے کہا وہ تو تم نے ٹھیک سنا ہے لیکن پہلے تم وجہ تو بتاؤ اس لئے کہ بلا وجہ ایسا کرنا خلاف عدل و انصاف نہ ہو جائے۔ ہوسکتا ہے ہم سے ہمارا اللہ محض اس لئے ناراض ہو جائے کہ ہم نادانی میں یا دانستہ کسی کے ساتھ ظلم کر بیٹھیں
بطخ کہنے لگی۔ ہاتھی ندی کا پانی نہیں پیتے، ندی آگ کو نہیں بجھاتی، آگ لکڑیوں کو نہیں جلاتی، لکڑیاں کتے کو نہیں مارتیں، کتا بلی کو نہیں پھاڑتا، بلی چوہے کو نہیں کھاتی، چوہا رانی کی گٹھڑی نہیں کتر تا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، راجہ بڑھئی کو نہیں مارتا، بڑھئی کھونٹی نہیں چیرتا، کھونٹی میں میرا دانہ میں بھوکی
ملکہ اس کی کہانی سن کر سارا ماجرا سمجھ گئی۔ اس نے کہا بی بطخ! تم بالکل بے فکر ہوجاؤ، ابھی ہم چیونٹیوں کی ایک بٹالین روانہ کرتے ہیں، یہ کہہ کر اس نے ایک کمانڈر چیونٹی کو حکم دیا کہ وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ ہاتھیوں کی جانب روانہ ہو جائے
ہاتھی ابھی تک بطخ کی باتیں کرکر کے ٹھٹھول میں مصروف تھے کہ چیونٹیوں کے بڑھتے ہوئے لشکر کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر سارے قہقہوں پر بریک لگ گیا۔ گھبرا کر پوچھا کہ کیا بات ہے۔ چیونٹیوں نے کہا کہ تم سب ندی کا پانی پیتے ہو یا ہم تمہاری سونڈھوں میں گھس جائیں؟
سارے ہاتھی سہم کر رہ گئے اور کہا رکورکو، ہم ابھی ندی کا سارا پانی پی لیں گے۔ سارے مست ہاتھی کالی گھٹاؤں کی طرح جب ندی کے جانب بڑھے اور ندی نے کالی گھٹائیں اپنی جانب بڑھتی دیکھیں تو وہ سارا احوال سمجھ گئی اور ندی کے پانی نے اچھل اچھل کر شور مچایا کہ ٹھہرو میں ابھی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہوں، ندی سیلاب کی صورت میں جب آگ کے قریب پہنچی آگ نے سارا ماجرا سمجھ لیا اور ہاتھ جوڑ کر ندی کے پانی سے کہا کہ وہ واپس ندی میں جا گرے، میں ابھی لکڑیوں کو چلا کر بھسم کر تی ہوں، لکڑیوں کے ڈھیر نے بھی چلا کر کہا کہ ٹھہرو، ہم ابھی کتے کی خبر لیتے ہیں، وہ اپنی جگہ سے اڑتے اڑتے جب کتے کے سر پر برسنے لگیں تو کتے نے بھی التجا کی کہ وہ ابھی ابھی بلی کو پھاڑتا ہے، بلی بھی موت کو اپنے سامنے دیکھ کہ سہم گئی اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ ابھی جاکر چوہے کو قلع قمع کرتے ہے۔ جان کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ چوہے نے بلی سے کہا کہ وہ ذرا صبر کرے وہ رانی کی ساری گٹھڑیاں ابھی کتر کتر کر اس کی قیمتی اشیا کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیتا ہے۔ رانی نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اس نے چیخ کر چوہے کو روکا اور وہ اپنے راجا سے روٹھ کر بیٹھ گئی۔ جب راجا کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی رانی اس سے روٹھ گئی ہے تو وہ بہت پریشان ہوا اس لئے کہ اسے اپنی رانی سے بہت ہی محبت تھی۔ اس نے بطخ کو اپنے ہمراہ لیا اور خود بڑھئی کی دکان جا پہنچا۔ وہ بڑھئی اور سارا بازار راجاکو دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگا۔ راجا تو پہلے ہی بہت صدمے کا شکار تھا کہ اس کی رانی اس سے روٹھی بیٹھی تھے اور اس کو غصہ بھی بہت تھا کہ بڑھئی نے اتنا سا کام نہ کرکے پورے ملک میں ہل چل مچا کر رکھ دی تھی لہٰذا اس نے بڑھئی کی خوب پٹائی کی اور اسے حکم دیا کہ وہ اسی وقت بطخ کے ساتھ جائے اور اس کی کھونٹی چیرے تاکہ وہ دانہ جو کھونٹی میں پھنسا ہوا ہے وہ باہر آسکے اور بطخ اس کو کھا کر اپنی بھوک مٹا سکے
بڑھئی نے اپنے اوزار سنبھالے اور روتا پیٹتا بطخ کے ساتھ روانہ ہوا اور اس کے گھر جا کر کھونٹی چیری ۔ دانہ نکل کر باہر آگرا جس کو بطخ نے کھایا ۔ دانہ کھا کر وہ اتنی مطمئن اور خوش ہوئی کہ بیان سے باہر۔ اس کے بعد وہ سکون سے سو گئی
بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے چھوٹے سے چھوٹے حق کے لئے مسلسل جدو جہد کرنا چاہیے۔ ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بے حقیر شے بھی بڑے بڑے کام کر کر سکتی ہے