محمد انور
ایسا لگ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کرکٹ کی طرز پر کم وقت میں زیادہ وکٹیں لے کر جمہوریت کا پانچ سالہ میچ جیتنا چاہتے ہیں، اور سیاست سے زیادہ اپنی زندگی کی ایک نئی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی حریف جماعتوں کو درست طریقے سے فیلڈنگ کا موقع بھی دینا نہیں چاہتے۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا ہے ’’اپوزیشن کان کھول کرسن لے، این آراو نہیں ملے گا‘‘۔ اُن کے بقول ابھی ہم نے کچھ نہیں کیا صرف آڈٹ کررہے ہیں، کسی دباؤ میں آئے بغیر سب کا احتساب ہوگا‘‘۔ حالانکہ موصوف وزیراعظم نے چند روز قبل کہا تھا کہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے اور ان کے ماتحت نہیں ہے۔ پھر وہ سیاست دانوں خصوصاً اپوزیشن کی جماعتوں کے لوگوں کے احتساب کی بات کرکے کسے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، یہ بات سمجھ سے بالا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نیازی کی باتوں سے ایسا بھی تاثر ملتا ہے کہ وہ بناء سوچے سمجھے جو منہ میں آئے، کہے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی اور حکومت کے ترجمان اور دیگر افراد کو وضاحتیں دینا پڑتی ہیں۔
ابھی چند روز قبل سینئر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کھلے لفظوں میں وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’’سیاست دانوں میں سے اکثر مجرم ہیں اور اتنے ثبوت موجود ہیں کہ یہ بچ نہیں سکتے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، اپوزیشن جمہوریت کے لیے نہیں، اپنی جائدادیں بچانے کے لیے اکٹھی ہوئی ہے، دباؤ میں نہیں آؤں گا، آخری حد تک جاؤں گا، سیاسی بیوروکریسی اور پولیس ہمارے کام میں آڑے آرہی ہیں۔‘‘
عمران خان کے ان جملوں سے بھی یہ تاثر واضح ہورہا تھا کہ وہ انتقامی کارروائی پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ بھرپور قوت سے اپنے مخالفین سے نمٹنے کی بھی تیاری کررہے ہیں۔ سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے سیاست دانوں کی اکثریت کو مجرم بھی کہہ ڈالا۔ شاید وہ جذبات میں مجرم اور ملزم کا فرق ہی بھلا بیٹھے تھے۔ اگر نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر ان کی نظر میں مجرم سیاست دانوں کی ’’اکثریت‘‘ ہیں تو پھر ٹھیک، لیکن خیال رہے کہ ان کی سزا پر عمل درآمد معطل کیا جاچکا ہے۔ اگر ہم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مسلم لیگ(ن) کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو بھی ان میں شامل کرلیں تب بھی یہ ’’اکثریت‘‘ یا ’’اکثر‘‘ کی تعریف میں پورے نہیں اترتے۔ بہرحال یہ بات درست ہے کہ ملک کے سیاست دانوں کی اکثریت اپنے ذاتی اثاثوں کے ساتھ بے تحاشا الزامات بھی رکھتی ہے۔
چند ماہ قبل عام اور انتخابات سے کچھ روز پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے نئے ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کی ضرورت پر زور دے کر اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ آئندہ بار بار حکومتیں کرنے والی اور ان کا ساتھ دینے والی جماعتوں کے مستقبل کے لیے ایک نیا ’’سی او ڈی‘‘ ناگزیر ہوگا۔ بلاول کی تجویز کا مسلم لیگ نواز نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خیر مقدم کیا تھا۔
اب وزیراعظم عمران خان کی سخت گفتگو سے ان کی جمہوری حکومت سے آمریت کی بو آتی ہے، جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور ان کی دیرینہ حمایتی جماعتوں کو عام انتخابات سے قبل ہی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا، تب ہی سی او ڈی یا کسی اور ایجنڈے کے تحت مل بیٹھنے کے بہانے ڈھونڈے جارہے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت نے اپنے مجموعی رویّے پر نظرثانی نہیں کی تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب سے زبردست پیکیج ملنے کی نوید سنائی ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’اب آئی ایم ایف سے کم قرض لیں گے جس کا عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا، امید ہے مزید دو ممالک سے پیکیج مل جائے گا، وہ وقت دور نہیں جب ہم قرض لینے کے بجائے قرض دیں گے‘‘۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو جیسے عمران خان کہہ رہے ہیں، مگر وزیراعظم کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن پر زیادہ سختیاں جمہوری حکومتوں کو زیب نہیں دیتیں۔ ایسے سخت ایکشن سے سیاسی صورت حال خراب ہوجاتی ہے۔
ملک میں جب بھی سیاسی حالات غیر مستحکم رہے یا انتشار کا شکار رہے، خصوصی طور پر جمہوری ادوار میں، تو پھر جمہوری حکومت کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو آمر جنرل ایوب خان کی گود میں سیاسی تربیت حاصل کرکے خود سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بن بیٹھے، مگر نتیجے میں کیا ہوا؟ ملک کو طویل مارشل لاکا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ نواز نے اپنے دوسرے دورِ حکومت 1997ء میں اُس وقت کی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کے ساتھ اپنے آپ کو جمہوریت کا بلا شرکت غیرے چیمپئن سمجھ کر جو اقدامات کیے ان کے نتیجے میں بھی فوج کو اقتدار سنبھالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اِن دنوں وزیراعظم عمران خان کا طرزِعمل بھی ذوالفقار علی بھٹو اور 1997-99ء کی نوازشریف حکومت سے مختلف نظر نہیں آرہا۔ اس لیے خدشات بھی اسی طرح کے ہیں جیسے ان ادوار میں پیدا ہوچکے تھے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ فوج خود اقتدار میں آنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ یہ جمہوریت کے چیمپئن کھلاڑیوں کے پیدا کردہ حالات ہوتے ہیں کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ 2008ء سے 2018ء تک کے دو جمہوری ادوار اگر پہلی بار تسلسل سے مکمل ہوئے تو اس کی وجہ بھی یہی رہی کہ اپوزیشن اور حکومت میں ہم آہنگی اس حد تک رہی کہ دونوں مسلسل ڈیموکریسی میں حزبِ اختلاف کے روپ میں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کہلائیں۔ اس دوستانہ سیاسی ماحول ہی کا نتیجہ تھا کہ ملک کی معاشی اور امن و امان کی صورتِ حال ابتر ہونے کے باوجود اس جاری نظام کو کسی جانب سے ’’بریک ‘‘ کرنے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔
لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اِس بار بھی اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ پسِ پردہ دوستی کرکے ملک کو تباہی کی طرف بڑھا دیا جائے۔ جمہوریت کے تسلسل کے لیے قانون کی بالادستی بھی قائم کی جانی ضروری ہے۔ حکمرانوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت ’’عورت‘‘ کی طرح ہے جس کو مکمل سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ اپوزیشن کی جائز باتوں کو نہ صرف سنا جائے بلکہ ان کے مطالبات کو اہمیت دے کر تسلیم بھی کیا جائے۔ جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو اعتدال سے کام لینا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ایسی باتوں کو منوانے کی کوشش نہ کریں جن سے بہتر ہوتا ہوا نظام مزید خراب اور کرپٹ ہوجائے۔
آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، اسے حل کرانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر موجود بدعنوان اور مجرمانہ سوچ کے حامل عناصر کو نکال باہر کرنا ہوگا۔ اگر اس بار کرپشن کو ختم نہیں کیا گیا تو ملک سے کبھی بھی کم ازکم جمہوری دور میں یہ ختم نہیں ہوسکے گی۔
چونکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ غربت میں کمی کے لیے جلد پیکیج کا اعلان کروں گا، بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کی جائیں گی، قرضے ختم کرائیں گے اور کرپشن کا خاتمہ کریں گے، تو انہیں بھی ان تمام کاموں کے لیے کم ازکم پانچ سال تو دینا ہوں گے۔ یہی عمل تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ انصاف بھی ہوگا۔