سائنس اور اِرادہ

776

قاضی مظہرالدین طارق
’کا سمک میگزین‘
کے جناب الفریدو مِطرے صاحب کی وضاحتـ:
یہ میگزین خالص سائنسی ہے،ان کی یہ رائے بھی سائنسی ہے، جس کی وضاحت مِطرے صاحب کرتے ہیں:
کہتے ہیں کہ نہیں!
طبیعات(فِزِکس)کا ایک بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ’’کیا انسان اس کائنات میں؛یااس کے کسی طبعی نظام میں،یا اس نظام کے کسی حصے میں، اپنی مرضی آزادی سے چلا سکتاہے ؟‘‘
…………
طبیعات کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ’کائنات میکا نیکی ہے‘ یعنی کائنات کا نظام ایک مشین کی طرح چل رہا ہے۔
مشین کا ایک لگا بندھا نظام ہوتا ہے، جس کی تعریف یہ ہے کہ وہ کچھ پُرزوں پر مشتمل ہوتا ہے،یہ پُرزے اپنے اپنے مختلف فرائض انجام دیتے ہیں، سب ایک دوسرے سے منسلک اور ان کے کام بھی ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔لیکن سب ایک ہی مقصد کے لئے کام کرتے ہیں، اور اپنا ایک مشترکہ’ حدف‘ حاصل کرتے ہیں۔
جیسے: میوزیکل’آرکِسٹرا‘یا قوّالی،مختلف قسم کے ساز بجانے والے ہوتے ہیں، مگر ایک ڈائریکٹر کے اشارے ایک مشترک لے نکالتے ہیں۔فزکس میں ہم فطرت کا مطالعہ کرتے ہیں،اس کے مختلف نظاموں کے نمونے یاماڈلز بناتے ہیںاور ان کا آپس میں رشتہ تلاش کرتے ہیں،ہم اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا، اس کائنات میں کیا’ کردار‘ ہے۔
…………
مشین کاہر پُرزہ ایک دوسرے سے منسلک ہے ،سب کے کام ایک دوسرے کے کام کی ترتیب پر منحصر ہیں۔ہر ایک انفرادی طورپر کوئی کام کرہی نہیں سکتا،تو انفرادی آزادی کیسی؟
جبکہ انسان پوری کائنات کی مشین کا ایک پُرزہ ہے،تو انسان بھی اپنے کاموں کے لئے آزاد کیسے ہوگا؟
…………
مگر آج کے دور میں مفروضوں کی بنیاد پرمنطقی استدلال کافی نہیں ہے، آج کے نوجوانوں کے ذہنوںمیں بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ان کے لئے لازمی ہو گیا ہے کہ سائنسی بنیاد پر اِن کو اِس مسٔلہ پرناقابلِ تردید دلائل دیئے جائیں۔
…………
ہم اس جہاں میں جو کچھ کام انجام دیتے ہیں، وہ خالق کے دیئے ہوئے اَعضاء سے کرتے ہیں۔اِن اَعضاء سے کام لینے کیلئے اُس نے ہمیں بہت سے عُضلات (مسلز) سے نوازا ہے۔ہمارے جسم میں تین قسم کے عُضلات ہیں۔
۱۔وہ خاص عضلات جو صرف دل میں ہیں۔
۲۔’سادہ عُضلات‘ (smooth muscles)
ْْْْْ۳۔’کلیدی عُضلات ‘ (skeletal muscles)
پہلے دو سرے پرتو ہمارے اِرادے اور اِختیارکا کوئی دخل ہی نہیں،یہ ہمارے علم و اِرادے کے بغیر خود بخود کام کرتے ہیں،ایک دل کے مسلز دوسرے’سادہ عُضلات‘۔
…………
’سادہ عُضلات‘ـ:
’دماغ‘کے فیصلوںاوراسکے بھیجے ہوئے ’برقی اشاروں‘ کے ذریعہ بہت سارے غیر اِختیاری افعال انجام دیتے ہیں، جن کاہم کو شعوری طور پر بالکل احساس بھی نہیں ہوتا ،بلکہ ان کی تو ہم کو بیسویں صدی سے پہلے کچھ خبر بھی نہیں تھی ۔
مثلاً: جیسے خون کا دباؤ کم یا زیادہ کرنا،سانس کی رفتارتیز و آہستہ کرنااور دل کی دھڑکن تیز یا آہستہ کرنا،خون کی رگوں کو پھیلانا سکیڑنا ۔ جیسے ہماری کھائی ہوئی غذا کو ہضم کرنے کے لئے بہت سے مراحل سے گذارتے ہوئے منہ سے آخری سرے تک لے جانا ۔ سانس کاچلتے رہنا ، خون کادوڑتے رہنا، گردہ ، جگر، تلی، لبلبہ سب ہی کا رواں رہنا۔
…………
ہم سورہے ہوں یا بے ہوش ہوں ،یہ سب اپنا کام کرتے رہتے ہیں ۔یہ کام ہمارے جسم میں ہماری اطلاع و مرضی کے بغیردماغ کے اشارے پر انجام پا رہے ہیں ، اور یاد رہے ، یہ اَفعال ہم کو زندہ رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہیں ، اگر یہ کام ہمارے بدن میں انجام نہیں پارہے ہوتے تو کیا ہم زندہ رہ سکتے تھے؟
…………
’اِضطراری‘ اَفعال:
وہ ہیں جو ہماری حفاظت کیلئے اللہ ربّ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا احسان ہیں،اگر وہ یہ احسان نہ کرتا تو حادثات میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا۔
مثلاً:جب ہم اپنا ہاتھ کسی نا قابلِ برداشت تیز گرم یا ٹھنڈی چیز کو ہاتھ لگادیں یا لگ جائے تو یکایک ہم اپنے کسی اِرادے کے بغیر اضطراری طوربڑی تیزی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیںاورہم زیادہ نقصان سے بچ جاتے ہیں۔
ہماری آنکھ میں کچھ پڑجائے تو دماغ کے حکم پر آنسو آور غدِّے کام شروع کر دیتے ہیں اور پلکیں ان کو صاف کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
آنکھ کی پتلی اور عدسہ بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے ؛
پتلی تیز یا ہلکی روشنی کے مطابق دماغ کے اشارے پر چھوٹی یا بڑی ہوتی ہے۔
عدسہ کوجب ہم قریب دیکھنا چا ہیں یا دُور اس کے مطابق دماغ اپنا برقیرہ بھیج کر موٹا یا پتلا ہونے حکم دیتا ہے۔
دماغ کو گرمی کی اطلاع ملے، تو وہ پسینہ آور غدّوں کوحکم دیتا ہے پسینہ بنائے اور جِلد کے قریب کی رگوںسے کہتا کہ پھیل جائے ، سردی لگے تو حرارت پیدا کرنے کیلئے دانت بجواتاہے یا مختلف مسلز کے سَیلز کوحرارت پیدا کرنے کے کام پر لگاتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔
…………
’کلیدی عُضلات‘
یہ تیسرے عُضلات ہیں ، جن کے ذریعہ ہم اپنے اِرادے اور مرضی سے اختیاری کام انجام دیتے ہیں۔
تواس کا بھی حال یہ ہے مثال یہ ہے کہ جیسے ہم کہیں جارہے ہیں ، اپنی مرضی سے جارہے ہیں،ہم کو کوئی چیز چمکتی دمکتی زمین پر پڑی نظر آتی ہے، اب اس وقت ہمارے فیصلے کا اِتنا اختیار ہے اس کو نظر انداز کرکے گزر جائیں یا رُک کر اِسے اُٹھا لیں۔
اگر ہمارا فیصلہ اُس کو اُٹھانے کاہوتب بھی ،اس کے لئے ہمارے علم کے بغیرہمارا’ دماغ‘، ایک ترتیب سے بہت سارے عُضلات کو برقی اشاروں کے ذریعہ حکم دیتا چلا جائے گا۔ پہلے پیروں کے کئی عضلات کو رُکنے کیلئے کئی برقی اشارے بھیجے گا،پھر کمر کو جھکنے کیلئے کسی عُضلے کو سکڑنے اور کسی کوپھیلنے کرنے کا حکم دے گا ، پھر ہاتھوں کو آگے بڑھانے کے لئے، اُنگلیوں کے عُضلات کو صحیح وقت پر بند کرکے چیز کو گرفت میں لینے کے لئے، ایک خاص ترتیب، خاص وقت میں، بہت سارے خاص برقیرے بھیجے گا، تب جاکر یہ عمل مکمل ہوگا۔
…………
یعنی ہم تو صرف اِرادہ کرتے ہیں۔ہم کو اتنے سارے برقی پیغامات کا ،نہ علم ہوتانہ احساس بلکہ بیسویں صدی سے پہلے تک تو انسان اس برقی پیغام رسانی کے’ اعصابی نظام‘ کو جانتا بھی نہیں تھا۔
اس کا مطلب کہ یہ مسئلہ کہ انسان کتنا آزاد ہے اورکتنا مجبور، کتنی آسانی سے یہیں حل ہو گیا انسان اپنے ہی اندر دیکھ لے کہ وہ اپنے ہی جسم پرکتنا اختیاررکھتا ہے یعنی کتنا آزاد اور بااختیار ہے اور کتنا ساری کائنات کے ساتھ، واحد القہار اللہ غالب و قوی کاعملاًبندہ اور غلام ہے، انسان صرف فیصلے یا نیّت کا اِختیار رکھتا ہے،کام تو اللہ تعالیٰ کے کارندے ہی انجام دیتے ہیں ۔
…………
اللہ کا پہلے انسان کو پیدا کرتے ہی اعلان تھاکہ،’’میں اس کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیج رہا ہوں!‘‘
اس اعلان کی تصدیق یاتکذیب کرنے کا انسانی علم ’سائنس‘ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔نیز سائنس کا یہ مفروضہ بھی درست نہیں ہے کہ انسان بھی اس کائنات کی مشین کا ایک پرزہ ہے ،اس کو اس کائنات میں اپنی مرضی چلانے کاکوئی اِختیارہی نہیں!!!

حصہ