سیدہ عنبرین عالم
۔21 ستمبر 2018ء میرے لیے بہت دردناک ثابت ہوا۔ قصہ کچھ یوں ہوا کہ مجھے اپنے ڈائیلاسز کے لیے جانا تھا، میری رہائش نمائش سے قریب ہے، آپ واقف ہیں کہ ایسے ایام میں نمائش کو حفاظتی نکتہ نظر سے کس بری طرح بند کیا جاتا ہے۔ ڈائیلاسز کے لیے جانا ناگزیر تھا، کوئی سواری نہیں مل رہی تھی، سوچا کہ موبائل ایپ سے سواری منگا لوں۔ تو جناب موبائل بھی بند۔ میں سخت پریشان تھی۔ ہماری فیملی میں کوئی مرد بھی نہیں ہے کہ کوئی انتظام کرتا۔ بس میں ہوں اور میری بوڑھی والدہ۔ آخرکار میں پیدل چل پڑی، تقریباً 15 منٹ چلنے کے بعد دوگنے کرائے پر ایک رکشا والا راضی ہوا۔ دیکھا جائے تو 15 منٹ چلنا بڑی بات نہیں ہے، لیکن ڈائیلاسز کا ایک مریض جسے پانی پینا بھی منع ہو، اور ظاہر ہے ہمارے باقی اعضا بھی نارمل انسان کی طرح کام نہیں کررہے ہوتے، اس لیے دھوپ میں 15 منٹ چلنا خاصا جان لیوا لگ رہا تھا۔ بہرحال اسپتال پہنچ کر ڈائیلاسز کرایا اور واپس آئی۔ واپسی پر شوگر چیک کی تو 416، اور دل کی دھڑکن اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ سائنس لینا محال تھا۔ پھر ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت تھی، لیکن میری حالت ایسی نہیں تھی کہ جا کر رکشا لاتی۔ نہ اپنے ڈاکٹر کو فون کرنے کے لیے نیٹ ورک موجود تھا، نہ ہی ایمبولینس بلائی جاسکتی تھی۔ الٹی سیدھی دوائیں خود ہی کھاتی رہی۔ بس ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘! زندگی تھی سو جان بچ گئی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبی جلوس نکالنا، قرآن یا اسلام سے کہاں تک ثابت ہے؟ اور کیا یہ اتنا ضروری ہے کہ اس کے لیے کئی شہر بند کردیے جائیں، موبائل سروس تک بند کردی جائے؟ کیا جلوس میں شامل لوگوں کے سوا کسی کی جان اہم نہیں ہے؟ کوئی بیمار ایمبولینس کس طرح بلائے؟
ہم کوئی بحث، یا فرقہ وارانہ اختلاف کی بات نہیں کررہے، ہم صرف عوام کو پہنچنے والی تکلیف سے نالاں ہیں، چاہے اس کا ذمے دار کوئی بھی ہو۔ سیاسی جماعتوں کے دھرنوں اور جلسوں کے بارے میں یوں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے دوسرے کون سے کام صحیح اور اسلام کے مطابق ہیں جو یہ ہوگا! مگر مذہبی طبقے کو تو حقوق العباد کا خیال رکھنا چاہیے، وہ خود اس قدر پریشانی کا باعث بنیں گے تو اوروں کو تلقین کیسے کریں گے!
آیئے اب اس روایت کا تجزیہ کریں۔ قرآن، حدیث، حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ کے ارشادات سے تو جلوس کی روایت ثابت نہیں۔ کوئی دینی حکم مجھے تو دستیاب نہیں ہوا۔ ہے، تو برائے مہربانی میری معلومات میں اضافہ کیجیے۔ ایک مثال البتہ ملتی ہے، وہ ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سفر۔ جب آپؐ مدینے میں داخل ہوئے تو دف بجائے گئے، نغمے گائے گئے اور مدینے کے لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جلوس کی صورت مدینے میں لے کر داخل ہوئے۔ یہ واقعہ ہوا ہے اور میں اس سے متفق ہوں۔ لیکن اس کے پس منظر پر غور کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ یہ اپنی حیثیت میں واحد واقعہ ہے جس کی تقلید کا حکم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا۔ پس منظر یہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ طویل انتظار کے بعد تشریف لا رہے تھے، جن کا تمام مدینہ منتظر ہے، تو ایک خوشی کی کیفیت میں تمام شہر بشمول اُن صحابہؓ کے جو پہلے ہی ہجرت کرچکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہنے چل پڑے۔ یہ رسولؐ کا حکم نہیں تھا، اس لیے اسے اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ پھر اُس وقت ایسی گنجان آبادی نہیں تھی جیسے آج کراچی کی ہے کہ کسی رستے کو بند کرکے ہی جلوس گزر سکتا ہے۔ اُس وقت کم آبادی، چھوٹے گھر اور کھلے راستے ہوتے تھے اور جلوس کی موجودگی میں بھی عوام بآسانی آمدورفت جاری رکھ سکتے تھے۔ اس عوامی جلوس میں جو مذہبی نہیں بلکہ خوش آمدیدی تھا، کسی قسم کی سیکورٹی کا انتظام نہیں تھا، ان لوگوں کے پاس ہتھیار ہی نہیں تھے، جنگِ بدر بھی انتہائی کم اور ناقص ہتھیاروں سے لڑی گئی تو کیسی سیکورٹی اور کہاں کی سیکورٹی! صحابہ کرامؓ جذبۂ سیکورٹی سے زیادہ جذبۂ شہادت سے سرشار تھے۔
پھر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ مکہ اور مدینہ کے تمام مسلمان ملا کر بھی 500 یا 600 سے زیادہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ اگر جلوس نکال بھی لیں تو تمام شہر کے لیے اذیت کا باعث نہیں بن سکتے تھے۔ آج لاکھ آدمیوں کا جلوس نکال لیا جاتا ہے جس کی سیکورٹی پر 8 سے 10 ہزار اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔ پورا شہر جام ہوجاتا ہے، نہ بیمار اسپتال جا سکے، نہ کوئی ضروری کام ہوسکے۔ کوئی مر جائے تو آپ رشتے داروں کو اطلاع تک نہیں کرسکتے، لیکن جلوس بہت ضروری ہے۔ یہ اسلامی رویہ نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خوشی کے اس موقع کا کوئی جشن اپنی حیاتِ طیبہ میں خوشی کے اعادے کے لیے ایک بار بھی نہیں منایا، تو اس واقعہ کو جواز بناکر کیسے آپ چودہ سو سال سے لوگوں کو اللہ کا نام لے کر تکلیف پہنچا رہے ہیں! غم و الم کا سوگ تو 40 دن سے زیادہ منانے کا حکم ہی نہیں ہے کجا کہ آپ غم کے نام پر لوگوں کو کسی خطرناک صورت حال سے دوچار کریں۔ اگر آپ کوئی یادداشتی صورتِ حال چاہتے ہی ہیں تو شہر کے باہر کوئی جگہ منتخب کریں جو چار دیواری میں ہو اور محفوظ ہو، اور آرام سے اپنے نکتۂ نظر کے مطابق مذہبی اور سیاسی معاملات رکھیں۔ جسے جانا ہو چلا جائے گا۔ تمام شہر کی زندگی میں زبردستی دخل اندازی کسی طور اسلام میں مناسب نہیں سمجھی جا سکتی۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہؓ، حضرت حسینؓ، حضرت علیؓ کبھی نہیں چاہ سکتے کہ ان کے نام پر اُمتِ رسول کے ماننے والوں کی زندگی اجیرن کی جائے۔ بات ایک دن کی نہیں، بات یہ ہے کہ کسی دل کے مریض، سانس کے مریض یا گردے کے مریض کے لیے ایک منٹ بھی بہت ہوتا ہے جو اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کردیتا ہے۔