علمِ نجوم اور اسلام

1020

حمیدہ کیلانی
’’اکثر میرے دل میں خدا سے شکواہ پیدا ہوتا ہے کہ اے خدا تیری مخلوق کی خدمت ہی تو کررہی ہوں۔ علم نجوم کے ذریعے میں آپ کی عبادت ہی تو کررہی ہوں۔ پھر بھی مجھے ہر جگہ صفائیاں دینا پڑتی ہیں کہ میں کوئی شرک کا کام نہیں کررہی ‘‘۔ یہ ہیں پاکستان کی مشہور نامی گرامی خاتون آسٹرالوجر کے الفاظ ! موصوفہ کا انٹرویو سنا۔ نہایت شگفتگی سے بات کررہی تھیں۔ فرماتی تھیں کہ میں ایک کٹر مذہبی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرا مقصد لوگوں کے کام آنا ہے میں عبادت کررہی ہوں۔ ستاروں کا علم دراصل ایک سائینس ہے۔ ایک علم ہے اور علم تو سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں جو کررہی ہوں ، درست کررہی ہوں۔ علم نجوم بذات خود حرام نہیں۔جہاں قسمت کو بدلنے کی بات کی جاتی ہے۔ بس وہ غلط ہے وگرنہ ستاروں کی سائنس سیکھنے کا مطلب علم سیکھنا ہے۔ اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنے کلائنٹ کو یہ بتاتے ہیں کہ اگر آج تمہار ستارہ مشکل سفر کررہا ہے تو کل کو آسانی بھی آئے گی لہٰذا زندگانی کے اس سفر پر امید کے دیے روشن رکھو۔ میری اکثر پیش گوئیاں درست ہوتی ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ موصوفہ کی حیثیت ایک مذہبی لیڈر کی سی ہے جو نہ صرف علم نجوم کی سائنس کو جانتی ہیں بلکہ مذہبی بیک گرائونڈ ہونے کی وجہ سے ستارہ پرستی کی شرعی حیثیت سے بھی واقف ہے۔ اس لیے جو کچھ وہ کررہی ہیں۔ عین عبادت سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو ان پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیے بلکہ ان کا کلائنٹ بن جانا چاہیے۔ اگر ان کی ان باتوں کا شرعی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو کیا واقعی ان کا مقصد خدمت خلق ہے؟ خدمت خلق وہ نہیں ہوتی جسے ہم خدمت خلق کہتے اور سمجھتے ہیں۔ خدمت خلق وہ ہوتی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر کے بتاتے ہیں کہ ہاں یہ ہے خدمت خلق۔ اگر یہ خدمت خلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں بیان نہ فرمایا؟ اس پر عمل کرکے مسلمانوں کو اتباع کا حکم کیوں نہ فرمایا۔
وہ بھی لوگوں کو زائچے بنابنا کر کہتے کہ اب سفر نہ کرو ، خطرہ ہے۔ کاروبار اس سال فروری کی ابتدائی تاریخوںمیں شروع کرنا باعث برکت ہوگا۔ میں ایسے جادوگروں کو جانتی ہوں جو کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے کام آتے ہیں جن پر ظلم ہورہا ہوتا ہے۔ ہم ظالم پر جادو کردیتے ہیں تاکہ مظلوم شخص کی خدمت کریں۔ اور دیکھیے نا یوں ہم خدمت خلق کا کیسا عظیم کام سر انجام دیتے ہیں۔کیا جادوگروں کو بھی خدمت خلق کا امین کہا جائے گا، ہرگز نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمیں بنانے والے کو ہم سے ایسی کوئی خدمت خلق مطلوب نہیں ہے۔ دین اسلام جادوگروں اور کاہنوں (آسٹرالوجر) کی سخت مذمت کرتا ہے۔ آپ خدمت خلق کے جائز طریقے تلاشیے تاکہ حقیقی خوش نودی پاسکیں۔
کیا نجوم ایک علم اور سائنس ہے؟ تو علم کی دو قسم ہوتی ہے۔ نفع بخش علم اور نقصان دہ علم۔ اس لیے بچپن سے دعا سکھلائی جاتی ہے ’’اے اللہ ایسے علم سے پناہ مانگتے ہیں جو نفع بخش نہیں ہوتا۔‘‘ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا ، اس نے سحر (جادو ) کا ایک حصہ حاصل کرلیا ، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اُتنا ہی زیادہ جادو حاصل کیا۔‘‘ (سنن ابی داود)
اس پر ضمیر کا مطمئن ہونا بہت عجیب سی منطق ہے۔ اس دنیا میں جو جس راستے کا مسافر ہوتا ہے وہ اس کے متعلق بہتر طریقہ سے جانتا ہوتا ہے اور پھر وہ اس کا دفاع بھی بھرپور انداز میں کرتا ہے۔ اسی لیے کسی کے اطمینان کا ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ وہ عمل درست یا ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھنچا ہے کہ ’’ہر گروہ اپنے طریقے پر خوش ہے‘‘ (المومنون)۔ یعنی ہر شخص وہ غلط ہے یا درست ہے اس کو لگتا ہے کہ وہ ہی ٹھیک ہے اور جو کچھ کر رہا ہے وہ صحیح کر رہا ہے۔
یاد رکھیں کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ ہم قسمت بدل سکتے ہیں تو صرف یہ بات غلط ہے۔ شریعت اسلامیہ نے علم نجوم کو جادو کہا ہے اور جادو کو کفر کہا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس علم کا فائدہ کلائنٹ کو امید دینا ہے تو قرآن کا پیغام کسی دنیا کے انسان سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں امیدیں بھی ہیں اور کبھی بھی غیر شرعی راستہ اختیار کر کے امیدیں ہرگز پیدا نہیں کی جاسکتیں۔ جہاں تک شریعت کا تعلق ہے تو قرآن میں امید کی واضح آیات موجود ہیں جیسا کہ فرمان ہے ’’مشکل کے بعد آسانی ہے، ہم فرمان باری تعالیٰ پر اندھا ایمان رکھتے ہیں۔ آپ دیگر اسکالرز کی طرح جائز طریقے سے لوگوں کو امید دلانی چاہیے۔
پھر یہ کہ ایسے لوگوں کی پیش گوئیاں کیسے درست ثابت ہوجاتی ہیں تو ایسا ہرگز نہیں تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسے لوگوں کی 100 میں سے ایک ہی پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے جبکہ باقی 99بیش گوئیوں پر کوئی دھیان نہیں دیتا اور یہ بات تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے۔ سنن بخاری میں ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ شیاطین ایسے لوگوں کے لیے آسمان سے باتیں چرانے کی کوشش کرتے ہیں ان میں ایک بات اگر ان کو مل جائے تو وہ اس میں 99فیصد جھوٹ شامل کر کے آگے پہنچاتے ہیں۔
ستاروں کو جن مقاصد کے لیے بنایا گیا کہ ان کو قرآن میں بیان فرمایا دیا گیا ہے۔ ان کے 3مقاصد ہیں۔آسمان کی زینت کے لیے، شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لیے اور بحروبر میں راستہ معلوم کرنے کے لیے۔ جو شخص ان کے علاوہ کچھ اور سمجھتا ہے تو وہ یقینا بہت بڑی غلطی پر ہے۔ یاد رکھیں یہ غلطی ایسی ہے کہ جس سے ایمان تو جاتا ہی ہے اس سے عبادات بھی ضائع ہوجاتی ہیں۔
نجومیوں سے اپنی قسمت کے بارے میں پوچھنے سے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو کسی نجومی کے پاس آیا اور اسے سچ جانا تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( یعنی قرآن کا انکار کیا)‘‘ (ابوداود)۔ ہمیں ان نجومیوں سے نہ صرف بچنا چاہیے بلکہ اپنے رشتے داروں اور قریبی دوست احباب کو بھی ایسی مصیبت سے بچانا چاہیے۔ جب ہر معاملے کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے تو پھر یہ سب یقینا بے کار ہی ہے۔ اسی مالک کی طرف جائیں وہی ذات ہے جو تمام مسائل کاحل کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے کی حفاظت فرمائے، آمین۔

حصہ