ہادیہ امین
شمائلہ اور آمنہ یوں تو خالہ بھانجی تھیں مگر آپس میں دوستی بہنوں والی تھی۔ شاید اس کی وجہ عمر کا بہت تھوڑا فرق تھا۔ شمائلہ ماشاء اللہ اہل و عیال اور بھرپور گھرانے کی حامل تھیں، جب کہ ان کی بھانجی آمنہ کا گھرانہ بہت مختصر تھا۔ گھریلو مصروفیات کم ہوئیں تو وہ ایک دینی جماعت سے منسلک ہوگئیں۔ اللہ کا دیا آمنہ کے پاس بہت کچھ تھا مگر وہ فطرتاً سادگی پسند اور دردِ دل رکھنے والی خاتون تھیں۔ اس کے برعکس ان کی خالہ شمائلہ رنگین مزاج اور ہلّے گلّے کی شوقین تھیں۔
چند دن پہلے شمائلہ خالہ نے بیٹی کی منگنی کی تھی اور سننے میں آیا تھا کہ شادی کی تاریخ بھی جلد ہی طے ہوجائے گی۔ آمنہ کو خالہ کی یاد ستائی تو ایک دن اطلاع دے کر ان کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ آمنہ کا خیال تھا بغیر اطلاع کے کسی کے گھر جانا تہذیب کے خلاف ہوتا ہے۔
حال احوال، خیر خیریت کے بعد آمنہ نے شمائلہ خالہ سے بیٹی کی شادی کے بارے میں دریافت کیا۔
’’ہاں آمنہ! شادی طے ہوگئی ہے، آج سے ٹھیک ایک سال بعد بیٹی کی رخصتی ہے۔‘‘
’’ہیں خالہ، ایک سال بعد! میں نے تو سنا تھا شادی جلد ہی ہوجائے گی۔‘‘ آمنہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
’’ہاں کرنی تو جلدی ہی تھی مگر فلاں کلب میں ایک سال تک بکنگ تھی، لہٰذا ایک سال بعد ٹھیک آج ہی کے دن کی تاریخ ملی ہے۔‘‘
آمنہ کو پھر سے حیرت ہوئی ’’تو خالہ کوئی اور کلب بک کروا لیتیں، اس مہنگے کلب کو بک کرنے کی کوئی خاص وجہ ہے؟‘‘
’’بھئی میرا ہمیشہ ایک خواب تھا اسی ہال میں اپنی بیٹی کی شادی کرنے کا۔ آخر کو اکلوتی بیٹی ہے، لڑکے والے بھی ولیمے کے لیے وہی کلب لیتے تو ٹھیک تھا، مگر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے مہمان اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ انہوں نے وہی سامنے والا ہال لیا ہے چھوٹا سا‘‘۔ ’’چھوٹا سا‘‘ کہتے ہوئے شمائلہ خالہ کا دل بھی چھوٹا سا ہوگیا۔
’’تو خالہ آپ کے مہمان بھی اتنے نہیں ہیں۔ سادگی اپنائیں، سادگی میں بہت حسن ہے‘‘۔ آمنہ نے مشورہ دیا۔
’’بھئی آمنہ، بے شک اپنی وسعت سے زیادہ نہیں کرنا چاہیے، مگر جو کرسکتے ہیں ان کے لیے کیا حرج ہے۔ میں کوئی قرضہ لے کر تو نہیں کررہی‘‘۔ خالہ کو شاید آمنہ کی بات ناگوار گزری تھی۔
’’خالہ! یہ جن کو آپ ’’کرسکتے ہیں‘‘ کہہ رہی ہیں ناں، یہ پتا ہے کون ہیں؟ یہ معاشرے کے امیر لوگ ہیں۔ اور امیر لوگ معاشرے میں مثال قائم کرتے ہیں، یعنی ہوائوں کا رُخ موڑتے ہیں، اور باقی معاشرہ ہوا کے ساتھ چلنے والا ہوتا ہے۔ وہ تو بڑا شادی ہال لے کر اپنے ارمان نکالتے ہیں، غیر ضروری رسموں پر ہزاروں خرچ کرتے ہیں، کھانے اور دیگر وسائل کا بے پناہ زیاں کرتے ہیں، اور آخر میں سفید پوش کے دل میں حسرت کا طوفان لے آتے ہیں، اور غریب والدین بے چارے یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ واقعی بیٹی کی شادی کتنی مشکل ہے۔ ویسے خالہ! زیادہ دور نہ جائیں، بس اپنا وقت ہی یاد کرلیں۔‘‘
آمنہ کی آخری بات نے شمائلہ خالہ کو گہری سوچ میں ڈال دیا۔ اُن کو آج بھی یاد تھا جب اُن کے سسرال والوں نے شادی سے پہلے ہلکے پھلکے الفاظ میں اچھا خاصا جہیز مانگا تھا۔ اس پوری کہانی میں قدرت نے خود انہی کو غریب کی بیٹی کا رول سونپا تھا۔ آمنہ کی نانی یعنی شمائلہ خالہ کی امی کی نظر کمزور ہونے کے باوجود سلائیوں میں وقت لگانا، ابا کا اوور ٹائم کرنا، اور چھوٹے بھائی کا اسکول سے آکر محلے کی دکان پر بیٹھنا کہ چند پیسے تو اس سے بھی بن ہی جائیں گے، اور اس کے بعد بھی اماں ابا کو قرض لینا ہی پڑا جسے بڑی محنت سے ڈھائی سال بعد اتارا تھا۔ اللہ کی رحمت! پرانے وقتوں کے لوگ بڑے دل کے اور محبت والے ہوتے تھے۔ آمنہ نے خالہ کو جھنجھوڑا ’’خالہ جتنے میں آپ ایک سال بعد یہ ایک شادی کریں گی اتنے میں غریب کی تین بلکہ شاید چار بیٹیوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں۔ کل ماموںکا فون آیا تھا، اُن کی بیٹیوں کے بھی رشتے آئے ہوئے ہیں، پتا نہیں کس احساس کی وجہ سے وہ آپ کو فون نہیں کرپاتے، مگر خالہ یاد کریں اُن کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کی گئی محنتوں کا بھی تو تھوڑا بہت قرض ہے ناں آپ پر۔‘‘
آمنہ کے جانے کے بعد بس ایک چُپ کی چادر تھی جو شمائلہ خالہ نے اوڑھ لی تھی۔ چند دن بعد رشتے داروں کو خبر سننے کو ملی کہ شمائلہ خالہ بیٹی کی شادی چند دن بعد ہی سادگی سے کریں گی، اور پھر نہ جانے کیوں آمنہ نے محسوس کیا کہ ان کے ماموں اور شمائلہ خالہ کے بھائی کے چہرے پر اطمینان سا نظر آنے لگا۔ شمائلہ خالہ کا بھی بھائی کے گھر آنا جانا کچھ بڑھ گیا تھا اور ان کی مالی مشکلات بھی قدرے کم ہوگئی تھیں۔ شاید شمائلہ خالہ اپنے اوپر چڑھا محنتوں کا قرض اتار رہی تھیں۔