خلائی مملکت کے بیت الخلا

604

نون۔ الف
ہماری قوم کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ اگرچہ مکمل طور پر حل نہیں ہوا ہے مگر یہ بھی کیا کم ہے کہ مسائل اور مشکلات میں گھرے ہوئے اٹھارہ کروڑ عوام کے اس بنیادی اور اہم مسئلے کی جانب اس نئے پاکستان کی نئی انتظامیہ نے بنیادی قدم اٹھالیا ہے!
اب جن تنقید نگاروں کو اس فیصلے پر ناک بھوں چڑھانی اور کیڑے نکالنے ہیں وہ نکالتے رہیں۔…. ہماری بلا سے!
اب تو خلائی مملکت کا پہلا عوامی فرمان جاری ہو چکا ہے کہ کوئی بھی سی این جی اسٹیشن ایسا نہیں دکھائی دے، جیسا کہ ہے! مطلب یہ کہ اس کے بیت الخلا صاف ستھرے ہونے چاہئیں تاکہ ‘حاجات ضروریہ’ کے مارے وہاں جاکر ضروریات سے کماحقہٗ ” فارغ ” ہوسکیں۔
ہم نے دیکھا کہ یہی اسلام آباد تھا جہاں ڈی چوک کے ارد گرد ہفتوں تک دیے جانے والے دھرنے کے باعث تمام علاقہ تعفن زدہ تھا۔ بس وہی وہ لمحہ تھا جب ہمارے نئے پاکستان کے معماروں نے اپنے خالقوں سے یہ عہد و پیمان کیا کہ ہمیں اقتدار میں لے آؤ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ کچھ کریں نہ کریں اس مملکتِ خلائی میں بیت الخلا کا مسئلہ حل کردیں گے۔
بیت الخلا کے اس مسئلے کی حقیقت جاننے کے لیے مجھے گوگل استاد سے مدد لینی پڑی، استاد گوگل نے مجھے بتایا کہ ”یونیسف” کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں لوگ کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔ یعنی کل آبادی کے 13 فیصد حصے یا 2 کروڑ 5 لاکھ افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ یہ تعداد زیادہ تر دیہاتوں یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔ میری جستجو مزید بڑھی جس پر استاد نے مجھے ایک اور لنک کا پتا بتایا کہ یہ دیکھو، لنک پر کلک کرنے پر دیکھا کہ وہاں پاکستان میں یونیسف کی ترجمان ’’انجیلا کیارنے‘‘ نے مجھے ”وا رم ویلکم” کرتے ہوئے بتایا کہ ” پریشانی کی بات نہیں ہے پاکستان کے دیہی علاقوں میں باتھ روم کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز اور خوش آئند کامیابی ہے۔”
مشہور اداکار عامر خان کی ایک فلم میں ایک کردار تھا جو عامر خان نے ہی ادا کیا تھا ‘گجنی’…. جس کی اصل بیماری تھی ”شارٹ ٹرم۔۔ میموری لاسٹ”.. اس بیماری میں ہیرو کچھ وقت کے لیے اپنی یاد داشت کھو دیتا ہے اور اس عرصے میں اس کے پاس غیر مرئی قوت آجاتی ہے جس سے وہ ناممکن کام کو بھی آسانی سے حل کرلیتا ہے، اور مزے کی بات یہ تھی کہ ہیرو اس دوران گزرنے والے تمام واقعات کو بھی بھلا بیٹھتا ہے۔ ہماری قوم کو بھی اسی طرح کی ”شاٹ ٹرم۔۔ میموری لاسٹ” والی بیماری لاحق ہے۔ اسے کچھ یاد نہیں کہ پچھلے ستر اور ساٹھ برسوں میں اس کے ساتھ کیا کیا اور کیسا کیسا کھلواڑ ہوا ہے کسی کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہر آنے والی نئی حکومت کے منتظم اعلی یعنی وزیر اعظم اپنی رعایا کے اہم ترین مسئلے کی جانب نشان دہی کرتے ہوئے اپنے تئیں اس کا بہترین حل تجویز کرتے ہیں مثال کے طور پر پاکستان میں پہلا مارشل لاء کا تحفہ دینے والے جناب ایوب خان صاحب جیسے ہی مسند اقتدار پر براجمان ہوئے، ان کے مشیروں نے انہیں بتایا کہ پاکستان کا سب سے اہم اور فوری مسئلہ خواتین ہیں! یعنی ملک کی پچپن فیصد آبادی یعنی عورت… اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے 8 گھنٹے سوکر گزرتی ہے۔ باقی بچ جانے والے 16 گھنٹوں میں وہ صرف چولہا ہانڈی کرتی ہے۔۔۔ اس سے ملک کا بہت نقصان ہورہا ہے اور اقتصادی دوڑ میں ہم دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔۔۔ یہ سننا تھا کہ ایوب خان صاحب اپنی نشست سے اچھل پڑے.. ان پر یہ انکشاف نیا تھا کہ ہمارے ملک خدا داد کی عورتیں اپنا وقت چولہے ہانڈی میں برباد کردیتی ہیں۔۔ اس انکشاف سے ان کی رات کی نیند اڑ گئی اور اگلے دن کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے پر بات کی گئی چنانچہ طے پایا کہ ملک کے اہم شخصیا ت سے مشورہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ کوئی مناسب سبیل نکالیں کہ عورت کے وقت کا صحیح استعمال کیسے کیا جائے۔۔۔۔ مشاق احمد یوسفی صاحب مرحوم نے لکھا کہ ایوب خان صاحب کی صدارت میں ملک کے معروف بینکرز کا اجلاس ہوا جس میں اس بات کو پیش کیا گیاکہ ہمارے ملک میں خواتین خانہ اپنا وقت چولہے ہانڈی کی نذر کردیتی ہیں اس لی اہم نے طے کیا ہے کہ ان کا وقت بچانے کے لیے روٹی کارپوریشن کے قیام کا اعلان کیا جائے۔۔ مشتاق یوسفی لکھتے ہیں کہ ‘میں شش و پنج میں مبتلا ہوگیا کہ کہیں ہم بینکرز کو ”بیکرز” کے مغالطے میں تو طلب نہیں کرلیا گیا ہے!”
بعد میں وضاحت ہوئی کہ روٹی کارپوریشن کے منصوبے کے لیے بینکرز سے قرضے کے لیے مشاورت مقصود تھی اس لیے مایا ناز بینکرز کو طلب فرمایا گیا۔۔۔ ایوب خان کے اس آئیڈے کو تمام بینکرز اور ملک کے مکھن بچنے والی کمپنیوں نے خوب سراہا۔۔۔ بڑے بڑے قرضوں کا آسان اقساط میں ادا کرنے کے اعلانات کے ساتھ اس منصوبے پر کام شروع ہوگیا۔۔ اور اس طرح ملک کی ترقی کا رکا ہوا پہیہ تیزی کے ساتھ دوڑنے بھاگنے لگا۔۔۔
یہی ایوب خان تھے جن کے مارشل کے نتیجے میں پاکستان 65 کی جنگ میں بہ مشکل عزت بچا سکا اور پھر ان کی پالیسیوں کی بدولت 71 میں اپنے ایک بازو کو گنوا بیٹھا۔۔۔ مگر عورت اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی۔۔۔ چولہے ہانڈی میں ہی لگی رہی۔
پھر عوامی دور آیا بھٹو صاحب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے۔۔۔ انہوں نے بھی اپنی کابینہ سے ملک کے اہم ترین مسئلے کا پوچھا۔۔ انہیں بتایا گیا کہ سر روٹی کارپوریشن تو بن گئے مگر آٹو میٹک روٹی کے نئے پلانٹ روس میں پڑے پڑے سڑ رہے ہیں۔۔ اگر وہ آجائیں تو ہماری خواتین کی جان چھوٹ جائے گی۔۔ بس پھر کیا تھا روس کو آرڈر دیا گیا کہ جتنے پلانٹ ناکارہ ہوچکے ہیں گلنے سڑانے کے بجائے ہمارے ہاں بھیج دو ہمارے ملک کی غریب عورت روٹی پکا پکا کر ہلکان ہوئی جاتی ہے۔۔ یہ ظلم مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کو آسانیاں فراہم کروں اور بس روٹی پکی پکائی ملے اور پراٹھا بھی تیار ملے۔۔ اور میری قوم کی عورت اپنا اہم ترین وقت ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کرے۔۔۔ اس کے بعد مملکت خداداد میں جگہ جگہ روٹی پلانٹ لگنے شروع ہوگئے۔۔ اور اس طرح ترقی کا نیا دور اسٹارٹ ہوگیا۔۔۔ کپڑے اور مکان بھی حکومت وقت کا وعدہ تھے۔۔ ان سب احسانات کے باوجود ’’عورت‘‘ کے دن رات نہیں بدلے۔
جنرل ضیا الحق کا دور آیا اور پھر طیارے کے پھٹ جانے سے گزر بھی گیا۔۔۔ اس کے بعد موٹر وے کا دور آیا جس میں ہر بیماری کا ایک ہی علاج تھا۔
’’موٹر وے سے ہر بیماری کا شا فی علاج‘‘ زرداری صاحب نے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ریفل ٹکٹ قرار دیا اور پھر ہر فرد کے ہاتھوں میں ریفل ٹکٹ تھامنے اور راتوں رات ارب پتی بنوانے کا وعدہ فرمایا۔۔ اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے مگر ان کو حاسدوں کی نظر لگ گئی۔۔۔۔
وقت تیزی کے ساتھ گزرتا رہا۔۔۔ عوام بے چارے ”شارٹ ٹرم میموروی لاسٹ” کی بیماری سے نکلے نہ ملک کی عورت چولہے ہانڈی سے باہر آسکی۔
اب ملک کی تقدیر نئے پاکستان کے معماروں کے ہاتھ میں ہے۔۔ اپنی اپنی ایکس۔ پرٹی (x-perty) کے حوالے سے انہوں نے محض پچاس دنوں میں اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ عوام کے اہم ترین مسئلے سے نمٹ لیں۔
پوری کابینہ سر جوڑ کر بیٹھی کہ ایک طرف ڈالر کا بحران ہے۔ مہنگائی سے غریب آدمی کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ایک جانب چائنا اپنے قرضے پر سود مانگ رہا ہے۔ ملک بے روزگاری کی دلدل میں جا چکا ہے۔ نواز شریف نے تعلیمی اداروں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہے، کوئی کام ہی نہیں کرتا۔ امریکا آنکھیں دکھا رہا ہے۔۔ ہندوستان گیڈر بھپکیاں دے رہا ہے۔ سعودی عرب تیل ادھار دینے کے بدلے میں فوج کا تقاضا کرتا ہے۔ ایران افغانستان بھی قابو نہیں آرہے۔۔۔ ایسے حالا ت میں ایسا کیا کام کیا جائے کہ ”خلائی مملکت” ناگہانی سے نکل سکے۔۔۔۔ وزیروں کی فوج ظفر موج نے اپنے قیمتی مشورے سے نوازتے ہوئے خاقانِ اعظم کو مشورہ دیا کہ ”خان صاحب! خلائی مملکت خداداد میں اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔۔ اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے کہ صاف ستھرے بیت الخلا ہمارے ملک میں ناپید ہیں، اگر ہم نے اس پر قابو پالیا تو ہم ہر چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔”
خاقانِ اعظم کا دماغ اس مشورے کو سن کر فوراً D-chowk جا پہنچا جہاں انہیں پہلی مرتبہ اس اہم مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔
امید ہے کہ شارٹ ٹرم۔ میموری لاسٹ قوم کو خاقانِ اعظم کا یہ اعلان بہت پسند آیا ہوگا کہ اب ملک کے ہر سی این جی اسٹیشن پر صاف ستھرا بیت الخلا ہوگا، جہاں ہماری تجربہ کار ٹیم آپ کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار و کامران ملے گی۔۔
خواجہ آصف۔۔ زور سے بولو۔۔ کچھ شرم ہوتی ہے۔۔۔ کوئی حیاہو تی ہے۔۔!

حصہ