ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ کرنسی وار ہے؟۔

603

محمد انور
امریکی ڈالر ایک سو 33 روپے کا ہوگیا یہ وہ ڈالر ہے جس کی قیمت اچانک 124 سے بڑھ کر 137 روپے تک پہنچ چکی تھی۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ تو عالمی سازش کے تحت ہوا۔اس عالمی سازش میں ہمارے اپنے وہ سیاسی عناصر بھی شامل ہیں جن کی سیاست کا اصل مقصد ملک اور قوم کو نقصان پہنچا کر اپنے مفادات کے حصول کے ذرائع مستحکم کرنا ہے۔ ایسے سیاسی عناصر کے تانے بانے مسلمان دشمن امریکی اور بھارتی ادارے سی ائی اے اور را سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راقم الحروف نے مسلم لیگ نواز شریف کی حکومت کے دور میں اپنے ایک سے زائد کالم اور آرٹیکل میں ” آستین کے سانپوں ” پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
پوری قوم کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے قائم ہونے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے فوری بعد حکومت نے ایسا کیا کچھ کیا کہ ڈالر کو” پر ” لگ تھے اور ایسا کیا حکومت نے قدم اٹھایا کہ ڈالر نیچے آنے لگا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ایجنڈے کے تحت صرف کرپشن اور کرپٹ عناصر پر ترجیحی بنیادوں پر ہاتھ ڈالا تاکہ ملک کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کی جائے اور چوروں اور ڈاکوؤں کے غیر ملکی اکائونٹس سے واپس ملک میں لائی جائے۔ یہ ایسا قدم تھا جس کے نتیجے میں کرنسی کو کنٹرول کرکے اپنی بادشاہت کا پرچار کرنے والے امریکا کو برا دھچکا لگا۔ ان قوتوں کو یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ اگر پاکستانیوں کا ناجائز دولت کی نئی پاکستانی حکومت نے وصولیابی کرلی تو پاکستانی جلد ہی مالی طور بہتری کی طرف جائیں گے جس کے نتیجے میں وہ زیادہ سے زیادہ امریکی ڈالر خرید سکتے ہیں ایسی صورت میں ڈالر کی قدر پاکستان میں گرنے لگے گی جبکہ دیگر ملکوں خصوصا بھارت ، امریکا اور برطانیہ وغیرہ میں اس کی قیمت بڑھنے لگے گی۔ایسی صورت میں روپے کی قدر میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔
ظاہر ہے یہ خدشات پاکستان اور مسلم دشمن ممالک کے لیے خطرناک تھی۔ نتیجے میں ان ممالک کی بدنام ایجنسیوں سی آئی اے ، را اور موساد نے اپنے پالتوں سیاسی رہنماؤں کے مالی تعاون سے تمام ڈالر کرنسی منڈی سے اٹھالیے جس کے نتیجے میں ملک میں ڈالر مہنگا ہوگیا۔ ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سو وہ بھی ہوگیا۔ ان بدنام خفیہ عالمی اداروں کو اندازہ ہے کہ پاکستانی ہر معاملے میں جلد باز قوم ہے خصوصا منفی سوچ کے حوالے سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ نتیجے میں مہنگائی کے ساتھ نئی حکومت کے خلاف منفی پروپگنڈا بھی شروع کردیا گیا۔ منفی باتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بین الاقوامی سازشی اداروں کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے انہیں ملک میں میڈیا صنعت میں چھپے ہوئے ان کے لے پالک لوگوں کی خدمات اشاروں پر دستیاب ہوجاتی ہے۔ نتیجے میں الیکٹرونک میدیا ان دنوں مہنگائی اور تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف گفتگو کے اور کچھ بھی نہیں دکھایا۔
ملک کے خلاف قوتوں کی کوشش تھی اور شائد ہو بھی کہ ڈالر ایک سو 85 روپے تک پہنچ جائے لیکن حکومت کے مجبورا قرض لینے اور آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فیصلے کے نتیجے ڈالر کی قیمت گرنے لگی اور مقامی اسٹاک مارکیٹ میں سودے بڑھنے لگے۔
امریکا اور دیگر ملک دشمن ملکوں کے پاس ڈالر ایک بڑا ہتھیار ہے۔ اسی کی بدولت وہ’’کرنسی وار‘‘ کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ترکی میں بھی ان قوتوں نے یہی حربہ استعمال کیا تھا اور ڈالر کی قیمت بڑھاکر ترکی کرنسی لیرا کی ویلیو کم کرنی تھی۔ لیکن ترکی کے صدر طیب اردگان کی صرف ایک آواز نے قوم کو یکجا کیا اور وہاں لوگوں نے احتجاجاً ڈالر اپنے ہاتھوں سے جلا کر ڈالر سے نفرت کا اظہار کیا۔ترکی میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں کویت نے 15 ارب ڈالر کی مدد کی جس سے ترکی کو فائدہ ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب ممالک پاکستان کی بھی اسی طرح مدد کریں جیسے پاکستان ہر بڑی صورتحال میں ان کی دفاع کے لیے سامنے کھڑے ہوجاتا ہے۔ عرب ممالک پاکستان کی فوری طور پر 15 سو ارب نہیں بلکہ 15 ہزار ارب ڈالر سے مدد کریں یہی مسلم ممالک کے اتحاد کا مظہر بھی ہوگا ۔ یہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس دھمکی کا جواب بھی ہوگا جو اس نے پاکستان کو دی ہے کہ اگر پاکستان نے ان کی شرائط نہیں مانی تو ترکی سے بڑے حالات پاکستان میں پیدا کردیں گے۔
بحیثیت قوم ہم تمام پاکستانیوں کو یہ سوچنے کے بجائے کہ نئی حکومت کیا کررہی ہے یہ سوچنا ہوگا کہ اب تک حکومتیں کرنے والوں نے کیا کچھ کیا اور ملک کو کتنا نقصان پہنچایا ؟
اگر چور ڈاکو قسم کے سیاست دانوں نے ملک کو نقصان پہنچایا تو ان حکومتوں کو منتخب کرنے والی بھی تو قوم ہی ہے۔

آصف زرداری اور نواز شریف کی دولت کتنی ہے ؟

ماضی کے وفاقی حکمرانوں کی لوٹ مار کا اندازہ تو اب بھی ان کی جائیداد اور چاروں صوبوں میں سندھ اور بلوچستان کی موجودہ صورتحال سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ میں تعلیم اور صحت کی تباہ شدہ حالت اور خصوصاً بلدیاتی اداروں سمیت تمام محکموں میں جاری کرپشن سے بھی صوبائی حکومت کی دلچسپیوں اور اس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر عوام کو ماضی کے حکمراں سیاستدانوں کی اپنی ذاتی حالت کو ملک کے حالات کے تناظر میں جانچنا ہو تو وہ ان کے غیر ملکی اور ملکی اثاثوں کو دیکھ کر بھی کراسکتے ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق نواز شریف اور آصف زرداری کی ملکیت میں 115 ارب ڈالر ہیں جبکہ پورے پاکستانیوں کے 350 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔ قوم کچھ نہیں تو کیا اتنا بھی نہیں کرسکتی کہ ملک کو مسلسل لوٹنے والوں کو دل سے بڑا سمجھنے لگے ؟ ملک کی حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تو قوم اپنی سوچوں کو نہیں بدلے گی۔

حکومت کا آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ

قرضے چکانے کے لیے نئے قرضے لینے کے سوا حکومت کے پاس یقینا آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے کم ازکم صاف گوئی کا اظہار کرتے ہوئے قوم پر یہ واضح تو کردیا۔ اگر نئے قرض لینے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا تو ڈالر روز بروز بڑھتے ہی رہتا۔
سیاستدان اور دیگر لوگ لوٹی ہوئی دولت واپس لاکر ملک سے محبت کا ثبوت دیں۔ ماضی کے حکمراں اگر ملک اور قوم سے مخلص ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنے تمام اثاثے ظاہر کردیں اور بیرون ملک موجود دولت پاکستان واپس لے آئیں یہی وقت کا تقاضہ اور ان کا ملک سے خلوص ہوگا۔ بصورت دیگر حکومت خود اس دولت کو لانے کا فیصلہ کرے گی تو انہیں بدنامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

حصہ