اسلام کے متعلق شبہات

886

ڈاکٹر محمد شعیب نگرامی ندوی
ذہنی جاہل جب علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیںتو ہم ان کو جاہل کہتے ہیں لیکن جب یہ ایک مقصد کے لئے اپناایک مکتب فکر قائم کرتے ہیں توانہیں مستشرقین کے نام سے یاد کیاجا تاہے، اور وہ پھر عالم محقق کی عباء اوڑھ کر علم وفکر اور تحقیق وتالیف کے نام پر سفید کو سیاہ ثابت کرنے پر ایسے جھوٹے دلائل کا انبار لگادیتے ہیں جن کی حقیقت کسی بھی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں رہتی ہے۔
مغرب کے ان ذہنی جہلاء کی نگارشات کا ہمارے جن قارئین نے مطالعہ کیاہوگا انہیں اسباب کا صحیح اندازہ ہوگا کہ یہ نام نہاد علوم مشرقیہ کے ماہرین بغیر کسی استثناء کے سب کے سب فاسد الخیال فاسد المقاصد ہیں جن کے مقاصدتخریبی جن کی زندگیاں فاسد، جن کے اخلاق خراب اور جن کے افکار وخیالات ان کی دین رحمت، دین محبت واخوت، اسلام دشمنی کے آئینہ دار ہیں۔
صلیبی جنگوں کے دوران مغربی دنیا کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیاتھا کہ مسلمانوں کا شیرازہ خواہ کتنا ہی منتشر ہو اور ان کے باہمی اختلافات خواہ کتنے ہی سنگین ہوں لیکن جب ان کے مشرک دشمن کی طرف سے ان کے مذہب اور ان کے عقائد پر حملہ ہوتاہے تو وہ متحد ہوجاتے ہیں۔ ان کی ایمانی غیرت وحمیت بھڑک اٹھتی ہے بعض مغربی رہنماؤں نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے سالوں پہلے کہاتھا کہ پورامغرب متحد ہوکر بھی مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کے پائے ثبات میں ذرا بھی لعرزوش پیدا نہیں کرسکتا، چنانچہ مغربی دنیا کے رہنماؤں نے اس ایمانی طاقت وقوت کی رگوں کو کاٹنے اور اس کے سرچشموں اور سوتوں کو خشک کرنے کے لئے تعلیم وتربیت کا طریقہ اختیار کیاتاکہ اسلام دشمن افکاروخیالات کی نشرواشاعت کا کام ہوسکے۔
مریم جمیلہ جو ایک یہودی خاتون تھیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انہیں توحید خالص کی نعمت سے نوازا تو انہوںنے مستشرقین کے کذب وافتراء پر متعدد کتابیں لکھیںاسی طرح آسٹریا کے لیوپولڈولیس جب نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے تو انھوں نے اپنا نام محمد اسد رکھ کر مستشرقین کی افتراء پردازیوں پر متعدد کتابیں لکھیں جن کی سب سے قابل ذکر Islam on the Cross Roadہے۔
محترمہ مریم جمیلہ اور جناب محمد اسد کے مطابق مغرب نے مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میںمسلسل شکست کے بعد یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے طریقہ کار میں تبدیلی لاناہوگی، چنانچہ انہوں نے علوم مشرقیہ اور علوم اسلامیہ کا مطالعہ کرنے کے لئے اپنے آدمیوں کو تیارکیا ، اس مطالعہ کی علمی گیرائی وگہرائی ہمارے اگلے کسی کالم کا موضوع ہوگی ۔ بہر کیف مستشرقین نے اپنی اپنی حکومتوں کی سرپرستی میں تفسیر؍حدیث؍فقہ؍ادب؍ثقافت؍تاریخ اور سیرت کے مضامین میںاتھارٹی ہونے کا دعوی کرنے کے بعد اسلام کے نقشے کو بگاڑنے کا کام شروع کیااور مسلمانوں کی عروج جو انہیں بعثت نبویؐ کے بعد حاصل ہواتھا اور مسلمان دنیا کی ایک اعلی قوم بن گئے تھے، ان کے عروج کو انہوںنے اس شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک زبردستی کی بات تھی کوئی اہم بات نہیں تھی ۔ سر ولیم میور نے اپنی تحریروں میں سیرت کے واقعات کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی آپؐ ایک عام لیڈر سمجھے جائیں جیسے دنیا کی دوسری قوموں کے لیڈراٹھے، اور اپنے ملک کو انہوں نے ترقی دینے کی کوشش کی اور قوم کو تیارکیااسی طرح رحمت عالمؐ نے عربوں کو ایک ایسی قوم بنانے کی کوشش کی جو دانشمنداور ترقی یافتہ ہو۔ ولیم میور نے رحمت عالمؐ کا سارا کارنامہ بدل کر ایک عام لیڈر کا کارنامہ بنادیااور ساتھ ہی تعریف بھی کی جس سے پڑھنے والا متأثر ہوتاہے کہ دیکھو کتنا دیانتدارمنصف ہے کہ نبی رحمتؐ کی تعریف کرتاہے اور اونچے الفاظ میں ان کو یادکرتاہے اور ان کی ترقی اورکامیابی کو سراہتاہے ۔ لیکن دوسروں کی نظر اس پر نہیں جاتی تھی کہ ان سب کی بنیاد وہ یہ قراردیتاہے کہ بقول ولیم میور
رحمت عالمؐ نے یہ سب اپنی کوشش اور ہنرمندی سے کردیاجیسے دنیا میں سیاسی لیڈر کوشش کرتے ہیں یا سماجی کام کرنے والے کوشش کرتے ہیں۔ نبوت وحی ربانی اور خیر امت یہ سارے حقائق ولیم کی تحریروں سے مٹ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فلپ ہٹی نے اپنی کتاب ’’ ہسٹری آف عرب ‘‘ میں قرآن کریم کی ایک خاص انداز میں تعریف کی لیکن اسے ایک غیر معمولی کلام قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ حضور اکرمؐ کا کلام ہے اور بقول ہٹی کے رحمت عالمؐ فصیح وبلیغ آدمی تھے انہوں نے اپنی فصاحت وبلاغت سے یہ کلام تیارکیا ۔ ہٹی نے اپنا سارا زوربیان صرف اسی بات صرف کردیاہے کہ قرآن کریم بقول ہٹی کے آسمانی کتاب نہیں ہے۔
ان مستشرقین نے ایک طرف تو اسلام کے عقائد وافکار کی تحقیر کا کام کیا تو دوسری طرف مغرب کے عیسائی عقائد واقدار کی عظمت ثابت کی اور اسلامی تعلیمات واصول کی ایسی تشریح پیش کی کہ اس سے اسلامی اقدار کی کمزوری ثابت ہو اور ایک تعلیم یافتہ مسلمان کا رابطہ اسلام سے کمزور پڑجائے او ر وہ اسلام کے بارے میں متشکک ہوجائے یا کم ازکم یہ سمجھنے پرمجبور ہوجائے کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کے ساتھ ساز نہیں کرتااور وہ حالیہ زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے۔
مستشرقین نے بدلتی ہوئی زندگی اور ترقی پذیر اور ترقی یافتہ زمانے کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کے آخری اور ابدی دین اور قانون پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی، اور دقیانوسیت کے مترادف قراردیا تو دوسری طرف اس کے برعکس انہوںنے قدیم ترین تہذیبوں اور زبانوں کے احیاء کی دعوت دی جو اپنی زندگی کی صلاحیت اور ہرطرح کی افادیت کھوکر ماضی کے ملبے کے نیچے ہزاروں برس سے مدفون ہیں اور جن کے احیاء کا واحد مقصد مسلم معاشرے میں انتشارپیداکرنا، اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنااور اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو نقصان پہنچاناہے ۔ اس تحریک کا بانی برطانوی مستشرق ولیم ویلوکس تھا جو مصر پر برطانوی اقتدار کے دوران قاہرہ میں ایک عرصہ تک مقیم رہا اس کی تحریروں کے اثر سے مصر میں فرعونی، عراق میں آشوری، شمالی افریقہ میں بربری، فلسطین ولبنان کے ساحلوں پر فینقی تہذیبوں کے احیاء کی تحریکیں شروع ہوئیں ویلوکس نے اپنی تحریروں میں اس بات پر زور دیا کہ قرآنی عربی یعنی فصیح عربی بقول ویلوکس زمانے کے ضروریات پورا نہیں کرسکتی اس لئے اس کے بجائے محامی یعنی کلوکیل اور مقامی زبانوں کو رواج دیناچاہئے اور انہیں کو اخبارات اور کتابوں کی زبان بنانا چاہئے دیلوکس کی اس ناکام ونامراد تحریک کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ ہر ملک اور ہر صوبہ کی الگ الگ زبان ہوجائے قرآن کریم اور اسلامی ادب سے عربوں کا رشتہ کٹ جائے اور وہ ان کے لئے ایک اجنبی زبان بن جائے اور عربی زبان کی بین الاقوامی حیثیت ختم ہوجائے اور عرب بلکہ امت اسلامیہ اپنے پورے دینی سرمائے سے محروم ہوکر الحاد وانتشار کی نذر ہوجائے۔
ویلکوکس نے اسی کے ساتھ عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط کو اختیار کرنے کی دعوت بھی دی او ر اپنی تحریروں میں اس کے فوائد وفضائل بڑی بلند آہنگی سے بیان کئے ، ویلکوکس کی اس ناکام دعوت کا واحد مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ پوری امت اسلامیہ صحیح طور پر قرآن کریم پڑھنے سے محروم وناآشنا ہوجائے اور وہ پورا علمی ذخیرہ جو اپنی وسعت اور علمی قیمت میں بے نظیر ہے بے معنی اور بیکار ہوجائے۔
یہ چشم کشا حقائق مستشرقین کی ذہنی پستی اور فکری افلاس کا آئنہ دار ہیں جن کا رشتہ آسمانی تعلیمات سے ٹوٹ چکاہے وہ آزادی رائے اور علم وتحقیق کی نام پر اسلام کے خلاف محاذ آرائی پر کمربستہ ہیں۔ ان مستشرقین کے نزدیک صرف سیاسی ومعاشی فوائد ہیں انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ نسل انسانی کس طرف جارہی ہے کیونکہ خود پرستی خودفراموشی ، خود سوزی اور آدم خوری انہیں وراثت میں انسانیت دشمن فکر سے ملی ہے۔
ہمیں اس فکری وعلمی منہ زور سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت ودانشمندی اور علم وفکر نیز سلف صالح رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمیعن کا طریقہ کار اختیارکرنا ہوگا اور اسی دعوت کو عام کرنا ہوگا، ہمارے پاس سب سے بڑی طاقت وہ فطری اور دماغ کو تسخیر کرنے والا اعجاز صحیفہ قرآن کریم ہے جس کی تعلیمات اگر کھلے دل ودماغ اور صاف ذہن سے پرھی جائے تو وہ اپنا اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی ہے۔

حصہ