اقبال ارشد کی رحلت پر اہل ملتان کے تاثرات

1122

سیمان کی ڈائری

انور زاہدی
میرے بچپن کے دنوں سے جب میں اسکول میں تھا تین نام تواتر سے سامنے آتے ہیں ریاض لطیفی جو میرے سینئر دوست تھے اور جن کے بہت عزیز دوستوں میں دو نام اقبال ارشد اور حسین سحر کے ہیں ۔میں شاید ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا لیکن یہ احباب ہائی اسکول چھوڑ کے کالجوں میں پہنچ گئے تھے۔ ریاض لطیفی بعد میں بہ حیثیت ایک وکیل کے سامنے آئے اور حسین سحر عملی زندگی میں ایک استاد کی شکل میں نمایاں ہوئے جبکہ اقبال ارشد واپڈا کے محکمہ تعلقات عامہ میں پبلک ریلیشینز آفیسر کی حیثیت سے سرگرم عمل رہے ریاض لطیفی کے گھر کبھی کبھار مشاعرے کی محافل سجتی تھیں وہ بزم سیماب اکبر آبادی کے متحرک رکن تھے اور یہ شاعرانہ محافل اسی محبت کی کڑیاں تھیں لیکن یہ وہ دور تھا جب میں شاعری سے بلکہ یہ کہنا کہیں بہتر ہوگا کہ شاعری مجھ سے کوسوں دور تھی۔ اقبال ارشد ایک بہت مخلص انسان اور مشفق دوست کی حیثیترکھتے تھے ۔اقبال ارشد بھائی کا اپنے دوست ریاض لطیفی کی بارات میں آگے آگے والہانہ رقص کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا-شاعری میں حسین سحر اور اقبال ارشد کے نام ملتان کے ادبی افق پر ہمیشہ جگمگاتے رہے۔ یوں سمجھیں یہ پچاس سے اسّی کی دہائی تک اس وقت کے رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر تھے۔حسین سحر تدریس کے میدان میں پرنسپل کے عہدے تک پہنچے ریٹائر ہونے کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے اور ایک بہت اچھے شاعر ہوتے ہوئے خاندانی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ اقبال ارشد نے ساری عمر پبلک ریلیشنگ کی ملازمت کی لیکن آج کے مروجہ انداز میں کبھی دنیادار نہ رہے۔زندگی نے انہیں کڑے امتحانات سے گزارا۔بیٹے کی جواں عمری میں انتقال نے انہیں قبل از وقت پیرانہ سالی کے اواخر میں پہنچا دیا۔بصارت نے بھی اتنے محبت کرنے والے شخص سے وفا نہ کی۔آج یہ تینوں دوست ریاض لطیفی حسین سحر اور اقبال ارشد اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی محبتیں اور ادبی دنیا میں ان کی خدمات ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔

جاوید اختر بھٹی
خوبصورت شعر کہنے والے اقبال ارشد نے بھرپور زندگی بسر کی۔وہ ملتان کے ادبی منظر نامے پر نمایاں رہے۔بہت سے نوجوان شعرا کو انھوں نے متعارف کروایالیکن انھیں آخری دور میں نظر انداز کیا گیا۔اقبال ارشد گذشتہ چندبرسوں سے صاحبِ فراش تھے۔ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی اور وہ چارپائی سے لگ گئے تھے۔انھوں نے کہیں امداد کی اپیل نہیںکی اور نہ ہی خود کو قابلِ رحم بنا کر پیش کیا۔اقبال ارشدزندہ اشعار کے خالق تھے۔ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔وہ ایک منفرد شاعر تھے۔ملتان میں شاید ہی ان جیسا شاعر پیدا ہو۔مقامی ادبی سیاست کی وجہ سے انھیں وہ مقام نہیں ملاجس کے وہ مستحق تھے۔اُن کی شاعری زندہ رہے گی۔

ڈاکٹر انور جمال
اقبال ارشد پاکستان کے ان چند منفرد اور صاحب ِطرز شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے آغازِجوانی ہی سے شاعری شروع کی اور ساری زندگی شعرو سخن سے وابستہ رہے۔ریڈیو سے بھی ان کی وابستگی رہی ۔انھوں نے مرثیے، سلام اور نعتیں کہیں۔بچوں کے لیے بھی شاعری کی۔ ان کی شاعری میں نرم وگداز الفاظ کا استعمال ان کی خاص پہچان تھی اور مشاعرہ پڑھنے کا ایک خاص انداز تھاجو ہر ناظر کوبھا جاتا تھا۔ یوں تو ملتان میں اور بھی شعرا تھے لیکن ان کی شخصیت پوری کی پوری شاعرانہ تھی۔اقبال ارشد بڑا البیلا،سجیلا، خوش گفتاراورہر موضوع پر اظہارِخیال کرنے والا خوبصورت انسان تھا۔ان کی رحلت نے پاکستان،خاص کرجنوبی پنجاب اور ملتان کی ادبی فضاکو سوگوار کردیا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت اورانھیںجواررحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

ڈاکٹر شفیق آصف
اقبال ارشد ایک عہد ساز ادیب،شاعر اور براڈ کاسٹر تھے۔ وہ اور ملتان لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی شہرِ بے مثال میں گزرا۔اقبال ارشد ملتان کی تاریخ،ثقافت اور علوم وفنون کے بارے میں اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ہماری معروضی زندگی کا کوئی بھی موضوع ہواقبال ارشد اس پر گھنٹوں دلائل کے ساتھ بات کرسکتے تھے۔وہ ایک بلند پایہ شاعر تھے۔برسوں پہلے انھیں اس شعر نے انھیں شہرتِ دوام بخشا تھا۔
تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
اقبال ارشدایک باکمال شاعر اور انسان تھے۔ان کی ذات میں وہ تمام تر خوبیاں اور اوصاف موجود تھے جوکسی بھی اچھے ادیب اور فرد میں ہونی چاہئیں۔ملتان میں میری زندگی کے بہت سے سال اقبال ارشدصاحب کے ساتھ گزرے۔وہ اپنی شگفہ مزاجی سے کسی بھی محفل کو کشتِ زعفران بنائے رکھتے تھے۔تاہم ان کے قہقہوں اور مسکراہٹوں کے پیچھے غموں کے سمندر چھپے ہوئے تھے۔اپنے اکلوتے جوان بیٹے کے سانحۂ ارتحال کے بعد محبت کرنے والی شریک حیات کی وفات نے انھیں اندرسے تنہا کردیا تھااور پھر انھوں نے اپنی طویل بیماری کو جس حوصلے سے برداشت کیا انھیں کا کمال تھا۔اقبال ارشد ایک ایسے تخلیقی فنکار تھے۔جن کا لفظ لفظ ان کے فن کی گواہی دیتا ہے۔وہ اردو شاعری کے صحیح مزاج آشنا تھے اور ان کا لب و لہجہ دور سے پہچانا جاتا ہے۔اُن کے بغیر ملتان اداس ہے اور اہلِ ادب انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے(آمین)

طارق اسد
اقبال ارشد صاحب محفل کے آدمی تھے ملتان کے بابا ہوٹل میں مرحوم حیدر گردیزی اور دیگر احباب کے ساتھ خوش گوار باتیں ہوتی تھیں وہ مخالفت میں کم اور کسی کے حق میں زیادہ بات کرتے تھے وہ واپڈا میں PRO تھے ان کا دفتر شاعروں سے بھرا رہتا تھا وہ نوجوانوں کی شعری صلاحیتوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے انہوں نے یوں تو بہت سے نوجوانوں کی شعری تربیت کی جب وہ بیمار ہوئے اور مرض الموت کا شکار ہوئے تو شدید تنہائی ان کا مقدر بنی ان کے شہر کے لوگ ان سے دور ہوگئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بیماری سے نہیں، تنہائی کے عذاب کے ہاتھوں شکست کھا گئے ۔اقبال ارشد بہت عمدہ شاعر تھے ان کی موت کا بہت صدمہ ہوا ہے سر زمین ملتان کے چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں ابھی پروفیسر شمیم عارف قریشی صاحب کی بے وقت موت کا زخم تازہ تھا کہ ایک اور تازیانہ لگا ہے

محمد مختار علی
اقبال ارشد کی وفات سے اردو ادب اور خاص طور پر خطہء ملتان ایک صاحب طرز شاعر اور ہر دل عزیز ادیب و مجلس نواز شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ ہمیں اپنے عہد کے زندہ فنکاروں کی قدر و اکرام کرنا چاہئیے۔ اقبال ارشد کی شاعری کو ان کی زندگی میں نظر انداز کیا گیا اس لئے ان کے شعری مجموعے کا نام ہی نظر انداز ہے۔

ڈاکٹرافتخارشفیع
اقبال ارشد ملتان میں اردو شاعری کی روایت میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی ادبی پہچان قومی سطح پر تھی۔اقبال ارشد کی شاعری قدیم وجدید موضوعات کا سنگم ہے۔ ان کا شماران شخصیات میں ہوتا ہے جو نسلوں کی تربیت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ارشد صاحب کی وفات کا سانحہ بھی قومی نوعیت کا ہے۔

احمد رضوان
اقبال ارشد صاحب دکھوں کے آخری موسم سے بھی گزر گئے۔روشن آنکھیں رکھنے والے اس شاعرکو ہم نے بجھی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بھی دیکھا ،کیا باغ و بہار آدمی تھا۔بات بات پر قہقہے ،باتیںاتنی کہ ختم نہ ہوں،ہنسی ایسی کہ رک نہ سکے ۔جس محفل میں جائے پوری محفل گرفت کر لے۔صاحب! جتنے قہقہے تھے آنسواس سے کہیں زیادہ تھے،اتنے کہ آنکھوں کی روشنی بھی بہا کے لے گئے۔غزل کی سدا بہار روایت کے شاعر اقبال ارشدصاحب اپنی سانس سانس کے ساتھ شعرکہتے تھے۔ایسے رچے ہوئے اور مکمل شعر،کیا بات کی جائے۔اُن کی شاعری پر میرا یہ مقام ہی نہیں۔ان کے تین اشعار دیکھیے:
خدا کا شکر دکھوں سے تجل نہ ہو پائے
ہمارے زخم کبھی مندمل نہ ہو پائے
قبیلے والوں سے سردارِ نرم خو نے کہا
ضرورتاً بھی کوئی مشتعل نہ ہوپائے
کسی بھی چہرے کو تحقیر سے نہیں دیکھا
ہم آئینے کی طرح سنگدل نہ ہوپائے

سید ظفرمعین بلے
اقبال ارشدسلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری سے غیر معمولی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔اس لیے جب بھی اور جہا ں بھی ملتے ،گلے لگا کر کہتے تھے آپ لوگ ان کی اولاد میں سے ہیں ۔اس لیے بھی احترام واجب ہے۔شاہ است حسین والی رباعی بھی ضرور سناتے تھے۔اقبال ارشد کی محبت مجھے اپنے والدبزرگوارسید فخر الدین بلے سے ورثے میں ملی۔ان دونوں کے تعلقات نصف صدی پرپھیلے ہوئے تھے ۔اقبال ارشد کی المناک موت کی خبر سن کر مجھے ایسا لگا جیسے پروفیسر حسین سحر ایک بار پھر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ان دونوں میں بھی ایسی محبت رہی جیسے رضی الدین رضی کی شاکر حسین شاکر میں ہے۔الگ بھی ہوتے ہیں تو دوبارہ ملنے کے لیے۔حسین سحر دنیا سے پہلے چلے گئے۔اس لیے لگتاہے اقبال ارشدنے بھی ان سے ملنے کے لیے جلدہی رخت سفر باندھ لیا۔اقبال ارشد نے بڑی خوبصورت شاعری اور دل کش یادیں چھوڑی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ علم و ادب کے دلوں میں و ہ اور ان کی خوبصورت شاعری مدتوں زندہ رہے گی۔سید فخر الدین بلے مرحوم کا ایک شعر مجھے موقع کی مناسبت سے مجھے یاد آگیا
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

ضیاال مصطفیٰ ترک
مدت ہوئی ملتان چھوڑے، لیکن ملتان نہیں چھوٹا مجھ سے (کہیں اندرونے میں بسا ہوا ہے آج بھی)کیسی کیسی محفلیں، کیسی کیسی نشستیں برپا ہوا کرتی تھیں۔ گول باغ گلگشت میں ملتان اردو اکادمی کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے، جہاں ایک کہکشاں سجی ہوتی تھی، انوار احمد، اصغر علی شاہ، لطیف الزماں خاں، ابن حنیف، ممتاز اطہر، اصغر شاہیہ، عامر سہیل، لیاقت علی، شوذب کاظمی…پھر وہ پورا عہد چپکے سے گزر گیا۔ سب ادھر ادھر بکھر گئے ایک وہ وقت تھا، سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے۔پھر بھی ایک آس رہا کرتی تھی کہ ملتان جانا ہو گا، تو مل بیٹھیں گے۔ پھر اب کچھ برسوں سے رفتہ رفتہ خبریں ملنے لگی ہیں۔ ابھی ”ع اے ساگوان بخت کے دھنی غنی۔۔” والے اصغر شاہیہ کا زخم ہی مندمل نہیں ہوا تھا کہ اچانک اقبال ارشد صاحب کی سنائونی ملی۔دل بہت رنجیدہ ہے۔بلاشبہ اقبال ارشد صاحب بہت خوبصورت شاعر تھے، قدرت کلام کے حامل بہت سلیقے سے شعر کہنے والے بہت شفیق، فراخی و کشادہ دلی کے حامل، یارباش اور خوش مزاج بڑے عمدہ آدمی تھے۔بیشتر احباب کے علم میں ہے کہ میری ابتدائی فکری تشکیل اور ادبی تربیت ملتان کے ادبی حلقوں، تنقیدی نشستوں میں ہوئی (جو میری جنم بھومی بھی ہے) سو، کتنی ہی ملاقاتیں ہیں، اقبال ارشد صاحب سے ۔ میرے بڑے مہربان تھے۔ سراہنے والے، حوصلہ بڑھانے والے۔سپردِ خدا، اقبال ارشد بھائی!! آپ چلیے، میں بھی آتا ہوں پیچھے پیچھے۔ ایک دو چھوٹے موٹے کام ہیں، نمٹا لوں تو بس آیا۔سدا رہے نام اللہ کا…

ظہور چوہان
محترم اقبال ارشد کے نام کے ساتھ ”مرحوم” لکھتے ہوئے بہت حیرت، افسوس اور دکھ محسوس ہو رہا ہے۔ اگرچہ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور یقیناً ” ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے” لیکن خوشی اس بات کی ہے۔ کہ وہ مرنے کے بعد بھی اہلِ ملتان کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ اقبال ارشد استادانہ رنگ کے حامل ایک خوبصورت شاعر تھے۔ جن کی شاعری کلاسیکی روایت کا تسلسل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ادبی محافل میں اُن کی بے ساختہ گفتگو، شاندار جملے بازی اور قہقہے بھی اپنی مثال آپ تھے۔ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کبھی پیچھے نہ رہتے۔ اور دل کھول کر اُنہیں داد و تحسین سے نوازتے۔ ادبی اور عصری شعور سے مالا مال یہ باکمال شخصیت شہرِ ملتان کا ایک معتبر حوالہ اور اثاثہ ہے۔ وہ لوگوں کی دل آزاری کرنے اور راستہ روکنے والے انسان نہیں تھے۔ بلکہ رنجیدہ دلوں کو بشاش کرنے اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ فراہم کرنے والے ایک زندہ دل انسان تھے۔ میری اُن سے جب بھی کسی مشاعرے یا ہوٹل میں ملاقات ہوتی۔ تو بہت مہر آمیز طریقے سے پیش آتے۔ اور بے انتہا حوصلہ افزائی کرتے۔ وہ دوستوں کے دوست اور ہر ایک کے خیر خواہ تھے۔ رضی الدین رضی نے سخن ور فورم میں اگست 2010 میں جب اقبال ارشد صاحب اور میرے اعزاز میں ایک پروگرام ” ایک شام دو شاعر” کا انعقاد کیا۔ تو اُنہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں میری شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ کہ ” ظہور چوہان تمہاری شاعری حواسِ خمسہ سے آگے کی شاعری ہے۔۔۔۔۔ تم چونکا دینے والےشاعر ہو۔ ” جبکہ اُس موقعہ پر میں نے کہا کہ میرے لئے یہ بات باعثِ اعزاز ہے۔ کہ میں آج جناب اقبال ارشد صاحب کی صدارت میں بطور مہمان ِ اعزاز اُن کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اقبال ارشد ایک فرد نہیں۔ بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ اور عہد ختم تو ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن کبھی مرتے نہیں۔ وہ اپنی شخصیت و شاعری کے ایسے ان مٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ کہ ملتان کی ادبی تاریخ اُن کے حوالے کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوگی۔ اپنا ایک شعر اُن کی نذر کرتا ہوں:
ہمیںنہ دفن کرو کچی پکی قبروں میں
ہم اہل ِ علم ہیں ، مر کر بھی جو نہیں مرتے

خبروں کی حالت زار

میر ؔ نے کہا تھا:

سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

میرتقی میرؔ کے اس مضمون کو اقبال ؔنے

گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے باربار دیکھ

کی صورت میں بیان کیااوریوں میرؔ کے ’ ملال‘کو امید و استقبال میں بدل دیا ۔کہتے ہیں کہ اقبال کے مشہور َزمانہ ’شکوہ و جواب شکوہ‘کا اسلوب بھی اصلاً میرؔہی سے مستعار ہے ۔
اقبال کا ذکر تو برسبیل تذکرہ آگیا غرض ہمیں میرؔکے شعر میں موجو د لفظ ’سرسری‘ سے ہے ،ا س کے معنی و مفہوم جاننے کے لیے جب فرہنگ آصفیہ سے رجوع کیا تو مؤلف فرہنگ نے ’سراسری‘ دیکھنے کامشورہ دیا۔ناچار فرہنگ کے صفحات کو گردش ایام جان کر پیچھے کی طرف دوڑایا اور ’سراسری‘ تک جا پہنچے ،۔جہاں اس کے درج ذیل معنی لکھے تھے:
’مجمل طور پر ۔مختصر طور پر۔آسان طورپر۔جلدی سے ۔یوںہی اُوپر کی نظر سے چلتے چلتے ۔عجلت کے طورپر۔‘ علاوہ اور معنوں کہ عدالت خفیہ کوبھی ’سراسری ‘میں محسوب کیاگیا ہے ۔
خیر اب اس ’سراسری‘ کا چلن مؤقوف ہوگیا ہے البتہ ’سرسری‘ عام بول چال میں اب بھی داخل ہے ۔ عدیم الفرصتی کے سبب خود ہم بھی ورقی و برقی خبروںپر ’سرسری‘ نظر ڈالتے ہیں،مگر اس رواروی میں بھی اکثر خبریں لطائف کا مزہ دے جاتی ہیں ۔چند نمونے آپ بھی ملاحظہ کریں:
(1)ایک مؤقراخبار کی خبر تھی :’امریکا میں ژالہ باری،لوگ برف کے اولوںسے حیران ‘ ۔لوگ حیران ہوئے یا نہیں مگر ’برف کے اولے‘ پڑنے پر ہم ضرور پریشان ہوگئے،اور دماغ سوزی کے بعد بھی برف کے سوا اور کسی قبیل سے’ اولے‘ دستیاب نہیں ہوسکے ۔اول تو ژالہ باری کہتے ہی اولے پڑنے کو ہیں ، ایسے میں ژالہ باری کے ساتھ اولوں اور وہ بھی برف کے اولوں کا بیان طرفہ تماشا نہیں توکیاہے۔کچھ ایسے ہی خبر نگار اور بھی ہیں جو ’ آگ کے آلاؤ‘ کی سرخیاں جماتے ہیں۔ظاہر ہے کہ’ آلاؤ ‘ہوتا ہی آگ کا ہے ایسے میں اس کے ساتھ ’آگ‘ نقص بیان ہے ۔

حصہ