حریمِ ادب
رنگ‘ خوشبو‘ تتلی‘ حسین چہرے‘ رنگین پیرہن‘ لہلاتے آنچل‘ یہ سارے استعارے و تشبیہات پڑھنے اور تصور کرنے میں کیسے لطیف لگتے ہیں حالانکہ ایک کہانی کار کی حیثیت سے یہ امثال میںنے بہت کم استعمال کی ہیں۔ کیونکہ اس طرح کی سچویشن ہمیں خال خال ہی کسی تقریب میں میسر ہوتی ہے۔ (سوائے شادی بیاہ کے)لیکن میں آپ کو لیے چلتی ہوں ایک ایسے کوچہ جاناں میں جہاں یہ سب مجسم صورت میں موجود تھیں۔ یہاں موجود دو سو خواتین کسی کلچرل شو‘ ڈراما‘ فلم‘ موسیقی کے کسی شو یا کسی برانڈڈ شے کو خریدنے نہیں بلکہ قلم سے محبت کے شوق سے انہیں یہاں جمع کیا تھا۔
جگہ کی تبدیلی کے بعد شہر کے ایک وسیع اور پُر وقار آڈیٹوریم میں ساتویں رائٹرز کنونشن کا انعقاد کراچی حریم ادب کی ٹیم کے لیے ایک ایسا ٹاسک تھا جس کو انہوں نے اپنی انتھک محنت سے بخیر و خوبی انجام دیا۔ آغاز سے اختتام تک ان کی کاوش اپنے منہ سے بولتی نظر آئی جس کا ثبوت ہر نگاہ میں پذیرائی تھی۔
29 ستمبر جس کا قلمکار بہنوں کو شدت سے انتظار تھا اور جس کے انتظامات کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لیے واٹس ایپ گروپ میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ کہیں کوئی معمولی سا بھی سقم نہ رہ جائے۔ ثناء‘ ثمرین‘ شبانہ‘ عالیہ اور اسریٰ ان سب نے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔
وقت مقرر پر ہم بھی اپنی ساتھی قلمکار بہنوں کے ساتھ آڈیٹوریم کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔ مرکزی دروازے سے آڈیٹوریم کا فاصلے تیز قدموں سے طے کرتے ہوئے جب پہنچے تو دائیں بائیں حریم ادب کے تحت سجے ہوئے بک اسٹال نے استقبال کیا‘ آگے بڑھے تو بڑی سی میز کے پیچھے بھی خواتین آنے والوں کا رجسٹریشن کر رہی تھیں۔ یہاں سے آگے بڑھے اور ہال کا دروازہ دھکیلا… ’’اوہ‘‘ بے ساختہ ہی ہونٹ بے آواز گول ہوئے۔ ایک وسیع و عریض ہال جس کی خوبصورتی مہمانوں کو متاثر کر رہی تھی۔ سامنے ہی روشنیوں سے منور بڑا سا اسٹیج جس کے بیک پر بڑا سا اسکرین متوجہ کر رہا تھا۔ ابھی مہمان نہیں آئے تھے۔ حریم ادب کی ٹیم اور چند بہنیںہی تھیں۔ ہم نے ایک سیٹ پر اپنا بیگ رکھا اور میزبانی کے آداب نبھانے کے لیے کمر کس لی۔ آہستہ آہستہ خصوصی اور عمومی خواتین شرکا نے آنا شروع کردیا تھا۔ ان کا استقبال کرتے ‘نشستوں پر بٹھاتے وقت بڑی سبک روی سے گزر رہا تھا۔ تبھی پروگرام کا باقاعدہ آغاز شبانہ نعیم اور عالیہ خالد نے اپنی خوبصورت انائونسمنٹ سے کیا۔ فضہ علیم کی خوش الحانی سے کی گئی تلاوت کے بعد راحمہ عادل نے نعت رسولؐ اپنی خوبصورت آواز میں پڑھی اور سماں باندھ دیا۔ جذبات میں ایک کیفیت کا رنگ روبینہ فرید نے اپنی نظم ’’یہ در چھوڑ نہ دینا‘‘ پڑھ کر ابھرا یہ رنگ عزم اور استقامت کا تھا ساتھ ہی مہمانوں کی آمد جاری تھی۔ حریم ادب کے تحت رائٹرز کنونشن قلمکار بہنوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کی ایک ایسی تحریک ہے جو ہر دو سال بعد منعقد کیا جاتا ہے اس میں افسانہ نگاری‘ مضمون نگاری‘ شاعری اور بلاگ لکھنے والی قلمکار بہنوں کے درمیان ان کی شائع ہوئی تحریروں کا مقابلہ ہوتا ہے اور پھر اوّل‘ دوم‘ سوم اور خصوصی انعامات‘ جن میں شیلڈ‘ کتب‘ اسناد دے کر ان کی تحریری قدردانی کرکے ان کی تحریری صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے۔ کنونشن میں عموماً مذاکرے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ حریم ادب کے ہمارا ساتویں رائٹرز ایوارڈ کا مقصد بھی چونکہ قلم کی حرمت اور عظمت ہی تھی لہٰذا اس کا عنوان ’’اس جہاں کو قلم سے سنواریں گے ہم‘‘ رکھا گیا تھا۔
اسی عنوان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک خاکہ کا بھی اہتمام تھا۔ چونکہ شرکا کی ایک بڑی تعداد لکھنے سے تعلق رکھتی تھی لہٰذا خاکے میں ایک معیاری تحریر کے تقاضوں‘ اس کی ضروریات اور معاشرے اور قاری پر اچھی تحریر کے اثرات کے بارے میں تھا کہ قلم ہی ہماری اقدار و روایات کو زندہ رکھ سکتا ہے اور مثبت پیغام دے سکتا ہے۔ خاکے میں ایک مشہور رسالے کی مدیرہ کے دفتر کی عکاسی کرکے یہ پیغام بڑے احسن طریقے سے پہنچایا گیا۔ اس خاکے کو توقیر عائشہ نے تحریر کیا اور ساتھ مدیرہ کا کردار بھی بخوبی نبھایا۔ ہدایات سیمی نظیر کی تھیں۔ خاکے کے دوسرے کردار‘ نویلہ صدیقی‘ تحریم شفیق اور راقمہ کے تھے۔ نویلہ نے نائب مدیرہ اور حریم نے ایک نئی قلم کار کا کردار بڑے عمدے طریقے سے نبھایا۔ شرکاء نے خاکے کو سراہا کیونکہ تحریر سے متعلق جو سوالات اور شکایات ایک قلم کار کے ذہن میں ابھر سکتے ہیں خاکے کی مصنفہ نے ان سب کا احاطہ بڑی جانداری سے کیا تھا۔ یہاں ہمیں سیمی اور توقیر کی ان صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہو گیا جو اس سے پہلے پوشیدہ تھیں۔
اب وقت تھا اس مذاکرے کا جس کے لیے حریم ادب نے ادب اور قلم سے جڑی ان چیدہ چیدہ ہستیوں کو دعوت دی تھی جن کی گفتگو کے دوران بار بار داد موصو1ل ہوتی رہی اور جن کے ہم شکر گزار ہیں کہ جنہوںنے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت دیا اور مذاکرے میں شرکت کرکے اپنی قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔
مذاکرے کے شرکاء میں محترمہ بلقیس کشفی صاحبہ‘ محترمہ منزہ سہام مرزا صاحبہ‘ محترمہ عنبرین حسیب عنبر صاحبہ‘ محترمہ غزالہ عزیز صاحبہ‘ محترمہ غزالہ ارشد صاحبہ اور محترمہ جاجرہ ریحان صاحبہ نے شرکت کی۔
مہر افشاں اور اسریٰ غوری نے مذاکرے کو کنڈکٹ کرتے ہوئے شرکاء سے ادب اور معاشرے کے تعلق کے حوالے سے مختلف سوالات کرے۔ آغاز محترمہ بلقیس کشفی سے کیا گیا۔ محترمہ بلقیس کشفی‘ جو کہ پروفیسر اور دانشور اور محترم ابوالخیر کشفی کی اہلیہ ہیں اور جن کی تین کتابیں جو کہ اپنے مرحوم شوہر پر تاثراتی مضامین پر مشتمل ہیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ محترمہ سے جب میری فون پر بات ہوئی اور میں نے ان سے کنونشن میں آنے کی درخواست کی تھی تو فوراً ہی انہوں نے ہامی بھر لی تھی اس کے بعد دو تین دفعہ میری ان سے فون پر گفتگو رہی ان کی عظمت اور بڑائی کا اندازہ تو ان کی عجزی و انکساری سے ہی ہوگیا تھا اور ملاقات کے بعد تو اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔
محترمہ جو معروف مصنفہ ہیں‘ نے ایک سوال کے جواب مین قلمکار کی تحریری صلاحیت کو رب کا عطیہ خاص قرار دیا۔انہوں نے مکالمے کی کمی کو نئی اور پرانی نسل کے درمیان فاصلہ بتایا۔ ماہنامہ دوشیزہ اور سچی کہانیاں ڈائجسٹ کی مدیرہ پبلشر اور ’’کانچ کی عورت‘‘ اور ’’اجلے حروف‘‘ کی مصنفہ‘ اے پی این ایس اور سی پی این کی ممبر محترمہ منزہ سہام مرزا نے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خوبصورت لب و لہجہ میں کہا کہ زندگی میں کامیابی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو باادب ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قلمکار معاشرے کا اہم ستون ہے‘ اپنے قلم کی جنبش سے وہ دنیا پلٹ سکت اہے مگر جب‘ جبکہ وہ ادب کے پیرائے میں لکھے‘ ایسی تبدیلی مثبت اور دیرپا ہوتی ہے۔ قلمکار معاشرے کی بکھری حقیقتوں کو سمیٹ کر صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے۔ قلم بذات خود کچھ نہیں بلکہ اہمیت کا حامل وہ ہاتھ ہے جس نے قلم تھاما ہوا ہے۔ لکھنے والے کی سوچ مثبت ہوگی تو تحریر بھی مثبت ،ہوگی۔ مدیرہ اپنی مقناطیسی شخصیت کی ساتھ کہہ رہی تھیں کہ ایک اچھے قلمکار کی پہچان ہے کہ وہ منفی رویوں کی نشاندہی بھی مثبت انداز کرے میں تاکہ قاری کچھ سیکھ لے۔ لکھاری خود کو سنوارے تاکہ بامقصد ادب تخلیق ہوسکے۔ معروف شاعرہ‘ محققہ‘ ٹی وی اینکر اور ’’دل کے افق پر‘‘ کی خالق اپنی شاعری سے دلوں کو موہ لینے والی محترمہ عنبرین حسیب نے کہا کہ آج کمرشلز نے تخلیقی عمل کو متاثر کر دیا ہے ’’جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے‘‘ کے نعرے نے الفاظ اور عورت دونوں کو بے پردہ کردیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم صرف عالم اسلام کی بھی فکر کر لیں تو وہ بین الاقوامی سطح کی فکر ہوگی۔ ایک موقع پر وہ اس بات پر شکوہ کناں تھیں کہ آج ہماری خواتین مطالعہ سے دور ہتی جارہی ہیں۔ گھر میں آئے اخبار کو بھی فضول خرچی کے زمرے میں لا کر بند کروا دیا جاتا ہے۔ قلمکار کی تعریف میں انہوں نے کہا کہ ہر مقبول لکھنے والا بڑا نہیں ہوتا۔ بڑا وہ ہے جو ہر دور میں پڑھا جائے۔ کالمسٹ‘ مصنفہ اور جسارت صفحہ خواتین اور نصف الدنیا صفحہ کی ایڈیٹر محترمہ غزالہ عزیز‘ جن کی تین کتابیں صبح تمنا‘ غلام جو سردار بنے اور مسافتیں منظر عام پر آچکی ہیں‘ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ کمرشلزم کی وجہ یہ ہے کہ آج پیسہ زندگی کا مقصد بن گیا ہے‘ ادیب پر بھی اس کے اثرات پڑے ہیں اور اسی سے جو چل رہا ہے اور جو بک رہا ہے وہ لکھ رہا ہے حالانکہ ادب ایڈیٹر اور پروڈیوسر کی ڈیمانڈ کے مطابق نہیں لکھا جاتا بلکہ معاشرے کی کیفیت و حالات کے اتار چڑھائو دیکھتے ہوئے لکھا جاتا ہے۔ ادیب معاشرے کا وہ حساس کردار ہے جو معاشرتی ناہمواریوں پر کڑھتا ہے اس کی تحریر میں ان مسائل کی عکاسی کے ساتھ بین السطور میں انکا حل بھی موجود ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قلمکار اگر جوابدہی کے احساس مالا مال ہو کہ اسے اپنی تحریر کے ہر لفظ کا جواب دینا ہے‘ تو وہ کبھی صرف پیسہ کمانے کے لیے نہیں لکھے گا۔ ’’والیہ ترجعون‘‘ کا احساس اُس سے معاشرتی اصلاح کا کام لے گا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہر ادب اور علم کا ماخذ قرآن ہے اور قرآن ادب کا بہترین نمونہ ہے۔ محترمہ غزالہ ارشد‘ جو کہ افسانہ نگار‘ محقق‘ شاعرہ‘ مترجم اور ماہر نفسیات ہیں‘ ان کی تین کتابیں ’’اجالوں کا سفر‘‘ ناول ’’بے در د و دیوار‘‘ اور بچوںکا ناول ’’تین ستارے‘‘ پسندیدگی کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں ادب میں گرائوٹ آگئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب بات ہم اپنے کلاسک ادب کی بات کریں تو آج ہمیں بانو قدسیہ اور خدیجہ مستور جیسے پائے کی تحریریں نہیں نظر آتیں۔ آج تحریر جلدی بھی لکھی جارہی ہی اور کمرشل بھی ہو چکی ہے۔
مشہور افسانہ نگار محترمہ ہاجرہ ریحان‘ جو بیک وقت کئی رسائل میں لکھ رہی ہیں اور اپنی معیاری تحریر کے سبب رسائل کی ضرورت بنتی جارہی ہیں‘ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایک وقت تھا جب ہمارے ہر محلے میں لائبریری ہوتی تھی۔ کتاب دوست ماحول تھا جو کہ اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔ لیکن میں اپنی تحریر کے ذریعے آج بھی اس ماحول کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں اپنی کہانیوں میں ایک کردار ایسا ضرور ڈالتی ہوں جس کو کتاب سے محبت ہو تاکہ قاری پر کتاب کی اہمیت واضح رہے اور وہ کتابوں سے اپنے تعلق کو نہ توڑے۔
مذاکرہ اپنے شرکاء کی علمی و ادبی گفتگو کی وجہ سے شرکاء محفل میں بے حد پسند کیا گیا۔ آخر میں میزبان نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور ناظمہ کراچی محترمہ اسماء سفیر صاحبہ نے پینل کے شرکاء میں شیلڈ اور تحائف دیے۔ صدر حریم ادب محترمہ عالیہ شمیم‘ کراچی صدر حریم ادب محترمہ عقیلہ اظہر اور سوشل میڈیا کراچی کی عالیہ منصور اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے نہ آسکی تھیں ان کی کمی محسوس کی گئی۔ مذاکرے کے بعد اب وقت ہوا چاہتا تھا تقسیم انعامات کا جس کے لیے یہ باوقار تقریب سجائی گئی تھی۔ افسانہ نگاری‘ مضمون نگاری‘ بلاگ لکھنے والی انعام یافتہ خواتین میں محترمہ بلقیس کشفی‘ محترمہ منزہ سہام‘ محترمہ عنبرین حسیب عنبر اور محترمہ افشاں نوید نے اسناد‘ شیلڈ اور کیش پرائز تقسیم کیے۔ 2017 اور 2018 کے تحت جسارت مقابلہ افسانہ و مضمون نگاری کے نتائج کا بھی اعلان ہوا اور ان میں بھی اوّل‘ دوم اور سوم آنے والی خواتین میں شیلڈ اور تحائف تقسیم کیے گئے جو کہ محترمہ غزالہ عزیز نے دیے۔ انعام وصول کرنے والی خواتین کے چہرے خوشی و مسرت سے جگمگا رے تھے اور اپنی تحاریر کی پذیرائی ان میں مزید آگے بڑھنے کی جستجو پیدا کر رہی تھی۔ معزز مہمانوں‘ مقابلے میں شریک خواتین کے بعد حریم ادب کی سینئر مصنفات میں بھی اعزازی شیلڈ اور تحائف دے کر ان کی عزت افزائی کی گئی۔ دعا کے بعد ایک اور یادگار تقریب اس طرح اختتام پذیر ہوئی۔ آخر میں مہمانوں کی تواضع کے لیے لذت کام و دہن کا انتظام تھا۔
خواتین کی ادبی و اصلای تنظیم حریمِ ادب جس کے اغراض و مقاصد میں سرفہرست ہی ’’ادب برائے زندگی‘ اور زندگی برائے بندگی‘‘ ہے کے صالح اور پاکیزہ ادب کیے فرد کو اپنی اقدار‘ دین اور جڑوں سے استوار رکھتا ہے۔ یہ ادب ہی ہے جو معاشرے کو صحیح خطوط پر قائم رکھ سکتا ہے۔ حریم ادب اسی مشن کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ لکھاری خواتین کو دعوت دیتا ہے کہ اس انجمن میں شامل ہو کر وہ بھی اصلاحی ادب کے اس کارواں میں شامل ہو جائیں اور معاشرے میں اپنی مثبت کردار بخوبی انجام دیں۔ حریم ادب ہر منزل پر ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشے گا۔