افشاں نوید
موضوع خاصہ دلچسپ اور متنوع
یہ ہے ویمن اسلامک لائرز فورم کا ساتواں کنونشن
بنچ اور بار کی ذرا سی نوک جھونک نے خوب سمجھایاکہ قصہ ہے کیا؟؟
ہماری قانون سے شناسائی اتنی ہے کہ بھائی قانون دان ہیں ہمارے۔۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے محلے کے مولانا صاحب کی بیگم ملانی کہی جانے لگتی تھیں۔
شاباش ہے ویمن لائرز فورم کو جس نے بنچ اور بار کو یہاں ڈائیلاگ کا موقع فراہم کرکے ہمیں بھی استفادے کا موقع دیا۔۔
شکر ہے کہ ”لائرز” لکھا وکیلوں ہی کو جاتاہے۔۔کہیں پڑھتے ہوئے زبان ہماری جوذرا سی لچک کھا گئی تو کسی نے ٹوک کر کہا کہ اس کا مطلب تو”جھوٹے”ہوتاہے۔ہم نے کہا خدا سے ڈرو۔۔۔
اچھی محفل تھی جہاں بات ہوی کہ عدل کے ایوانوں میں کیا ہورہاہے؟۔ زیادتی کس کے ساتھ ہورہی ہے؟
وکلاء کیا کررہے ہیں،ججز کا کردار کیا ہونا چاہئے۔۔اب قصور وار وکیل ہیں فراہمی انصاف میں یا ججز۔۔ہم نے تو یہی دیکھا کہ بھائی فخرو کا مقدمہ ان کی دنیا سے رخصتی کے بعد بیٹے اور پھر پوتے نے لڑا اور فیصلہ نہ ہواتھا ہماری آخری اطلاعات تک۔
کیا بات کہی جسٹس اشرف جہاں صاحبہ نے کہ ہم جب انصاف کی بات کرتے ہیں توحکومت کو موردالزام ٹہرا دیتے ہیں یا عدلیہ کو۔ہم سے جڑا ہر رشتہ اور تعلق انصاف کا متقاضی ہے۔اگر انفرادی زندگیوں میں عدل اور انصاف اپنا لیں تو بہت سے مقدمے خاندانوں ہی میں حل ہو جائیں۔ہم اپنی ذات سے ناانصافی کرکے عدالت سے انصاف مانگتے ہیں۔ اپنے الفاظ کے انتخاب میں بھی انصاف سے کام لیں۔۔
سچ ہے کہ بے محل اور سخت الفاظ کلاشنکوف سے زیادہ کاری وار کرتے ہیں۔گھائل جسم کا مقدمہ تو عدالت میں جاسکتاہے مگر گھائل،زخمی روحوں کے مقدمے جس عدالت میں درج ہوتے ہیں وہاں۔۔۔
انصاف کی چکی ذرا دھیرے سے چلتی ہے۔۔مگر چکی کے پاٹوں میں بہت باریک پستا ہے!!!
بات تو وکلاء بھی زوردار کررہے تھے،کچھ اپنی کم مائگی کا گلہ کررہے تھے ”اوروں” کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلارہے تھے۔۔معاشرے میں انصاف مہنگا اورغریب کی پہنچ سے دور کیوں ہے؟اس سوال کا جواب تو ستر برس سے پاکستان کی نظریں بھی ڈھونڈ رہی ہیں۔
ویمن اسلامک لائرز فورم کی صدر طلعت یاسمین نے جہاں فورم کے تحت یہ خوب صورت بزم سجا ئی وہیں غریبوں کا مقدمہ بھی بڑی درد مندی سے رکھا۔۔وکلاء کو بھی ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اور مخاطب چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو بھی کیا کہ اگر گاڑی کا اک پہیہ بھی پنکچر ہوا تو رستہ طویل ہوجائے گا۔۔
ہم تو کنونشن میں سانس روکے اسلامک لائرز فورم کی سالانہ رپورٹ سننے لگے کہ خانگی تقاضوں کے ساتھ یہ صنف نازک جیل کے بچوں کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں،قیدی عورتوں کو بھی نہ صرف اچھا انسان بننے میں مدد دے رہی ہیں بلکہ ان کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے بھی کوشاں ہیں۔۔
اک مشکل عدالتی نظام میں غریب کا مقدمہ بھی لڑرہی ہیں۔ہمارا دل شاد ہوگیا یہ سن کر”ہم خلع کے مقدمے میں جلدی نہیں کرتے کہ مقدمہ نمٹانے کی کہ فیس ملے۔۔ہم صلح کرانے کے جتن کرتے ہیں،صلح کی صورت میں فیس جائے توجائے ہم اک گھر کوٹوٹنے سے بچاکر سماج کا
قرض ادا کرتے ہیں۔سینکڑوں کیسز میں چاہے خلع کے ہوں یا طلاق کے ہم آخری حد تک کوشش کرتے ہیں کہ گھر ٹوٹنے سے بچالیں اور الحمدللہ اکثر ہمیں کامیابی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد علی مظہر نے دورہ لندن کی آپ بیتی بیان کی کہ انھوں نے کرمنل کورٹس کادورہ کیاتو معلوم ہوا کہ وہاں انیس کورٹس میں انیس کیسز ہیں جبکہ ہمارے پاس ایک کورٹ میں اسی،نوے کیسز ہوتے ہیں۔۔
ہمیں تو اچھا اس وقت لگا کہ بنچ اور بار کے فرائض کی بہتر بجاآوری کے لیے ویمن اسلامک لائرز فورم کی طرف سے جوتجاویز پیش کی گئیں جسٹس صاحب نے انتہا ئی فراخدلی سے خواتین کو پیشکش کی کہ وہ صرف تجاویز نہ دیں بلکہ پہل کریں اور قدم بڑھائیں۔۔
سو باربار اسی نوعیت کی پیشکش کے جواب میں اب ہم نے اپنے گھر کی اصلاح کے لیے صاحب خانہ کو تجاویز ہی دینا چھوڑ دی ہیں!!
ساتویں سالانہ کنونشن کی خاص بات سود سے متعلق کتاب کی رونمائی بھی تھی۔۔
اللہ جس سے چاہے جو کام لے لے۔خواتین بڑے بڑے کام بہت حوصلے اور استقامت سے کررہی ہیں ماشاء اللہ۔۔اور ہم جیسے مبصرین۔۔۔جو انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں کہ کب آئیگا وہ دن جب۔۔
ریاست ہو گی ماں کے جیسی۔۔
ہر شہری سے انصاف کرے گی۔۔
افشاں نوید
رائٹرزکنونشن
ٹک دیکھ لیا دل شادکیا
ستاروں کی اک کہکشاں۔۔ملنا کہاں ممکن سب سے، سو ٹک دیکھ کر ہی دل شاد ہوگیا
آڈیٹوریم تنگء داماں کاشکوہ کررہاتھاکہ جائے تنگت مردمابسیار۔۔ یہاں خواتین بسیارتھیں اور اک سے اک تھیں۔سننے والے بھی وہ تھے جوقسم کھائے ہوئے قلم کی حرمت سے واقف تھے اور بولنے والے بھی اپنے میدانوں کے شہسوار۔
بلقیس کشفی صاحبہ بولیں تولگاوقت کی طنابیں کھینچ لی گئی ہوں۔۔کبھی جی چاہتا ہے وقت پرلگاکر اڑجائے۔سفر کی مسافتیں سمٹ جائیں،کبھی جی چاہتاہے لمحے صدیوں پر محیط ہوجائیں۔کشفی صاحب کی شخصیت کے جلومیں شائد انھیں اس طرح جاناہی نہ گیا جو ان کاحق تھا۔۔
کتناسچ تھا۔۔کیساصدق جس کی تصدیق ان کی پوری زندگی کررہی تھی۔
یہ کیسی عورتیں تھیں جنھیں شوہرکیسواکچھ نظرہی نہ آیا جنھوں نے جیون گزاردیا جیون ساتھی کی زندگی میں رنگ بھرنے میں۔۔
آج کی شام کی سب سے خاص بات بیگم کشفی کی کتابوں کے نام تھے۔۔میری آنکھیں تو اسکرین پر ہی رہ گئیں پھر کچھ دیکھ سکیں نہ دائیں نہ بائیں۔۔نام تودیکھیں۔۔
کشفی صاحب آپ کے لیے
کشفی صاحب مزید آپ کے لیے
کشفی صاحب سب کے لیے۔۔
اس بحر ناپیداکنار میں چہارسو اس نیک بخت بی بی نے اپنے شوہرہی کو تلاش کیا، مجازی خداہی کوپایا۔۔
گفتگو میں ستر فیصد اپنے مرحوم میاں کا تذکرہ۔۔اک بار تو آواز رندھ گئی انکے ذکر پر کہ تیسری نامکمل کتاب جو ان کی جدائی کے بعد لکھ رہی ہیں اس کا ٹائٹل بھی انہی کے نام کیاہے۔۔مجھے نانی مرحومہ یاد آگئیں جودن میں دس بارتو بابوجی(نانامرحوم کوسب اسی نام سے پکارتے تھے) کاذکرکرتیں اور بڑے ڈوب کر ان کی یادوں کوزندہ کرتیں۔۔
ایسی ہی ہوتی ہونگی جنتی بیبیاں۔۔جو اب کم کم ہی نظر آتی ہیں۔۔ایسی مثالی شوہر پرستی کہ دیکھنابھی ان کی نظرسے اور سوچنابھی ان کے دماغ سے،قلم اٹھے گاتو کشفی صاحب ہی کو لکھے گا۔۔۔
جیسے بانو آپا نے اشفاق احمدکے انتقال پر ایک تقریب میں کہاتھاکہ۔۔تنہاکھڑی ہوں سایہ اٹھ گیا،تیزدھوپ میں کہیں سائباں نہیں۔۔گھر سے نہیں نکلتی کہ لڑکھڑا ئی تو سہاراکون دیگا۔۔کیونکہ زندگی بھر ان کے سائے کے پیچھے چلی،بازوتھام کر زندگی کاسفر گزارا،اب لڑکھڑاوں گی تو کون سنبھالے گا،آدھی رات کو تیز ہواسے کھڑکی کا دروازہ بجاتومجھ سے پہلے کون اٹھے گامیرا خوف دور کرنے کو،سو آہستہ ہوگیا زندگی کاسفرکہ بس اب تھمنے کوہے!!!
بیگم کشفی اسٹیج سے اتریں تو میں نے انکے ہاتھ تھام کرکہا۔۔میں آج سے تیس بتیس برس قبل آپ کے ”داستان سرا”میں آ ئی تھی,آنرز میں پڑھتی تھی اسوقت۔(وہ یونیورسٹی کیمپس میں ہی رہتی تھیں)۔۔آپ بڑی سی گول ٹرے میں سبزی بنا رہی تھیں۔۔وال ٹووال گہرے نیلے کارپٹ والا کمرہ تھا جس میں چاروں سمت قد آدم الماریوں میں کتابیں جھانک رہی تھیں۔۔
آپ سبزی بناتی رہیں لمحہ بھر کو ہاتھ نہ رکا۔کام والی آ ئی تو چائے منگوالی۔۔کتنا دیسی اور کتنا اپنا اپناتھا آپ کا انداز۔۔وہ بہت محظوظ ہوئیں تاریخ کے اوراق الٹتے دیکھ کر۔بولیں تمہاری تحریر کہاں پڑھوں میں نے کہا اسٹال پر میری کتابیں بھی ہیں۔۔تہذیب کا تقاضہ تویہ تھاکہ لاکر ان کو پیش کرتی مگر اسٹال تک جاکر واپس طویل وعریض آڈیٹوریم میں ان تک پہنچنے میں نماز عصرکا وقت اختتام پذیر ہوجاتا۔۔
آج کا رائٹرز کنونشن نفی کررہاتھا اس بات کی کہ۔۔۔۔
نئی نسل کو کتاب سے دلچسپی نہیں
ادب کا رشتہ سماج سے کمزور ہورہاہے
کتاب دوستی گزرے وقت کا فسانہ ہے
ادبی محفلیں ماضی کی یادگاریں ہیں
قاری اور ادیب کے درمیان اک خلیج حائل ہے
سوشل میڈیاکایہ دور ادب سے دور کررہاہے سماج کو۔وغیرہ وغیرہ۔
حریم ادب کو صحت مند اقدار کو زندہ وتابندہ رکھنے اور اس مشعل کو پورے زور بازو سے تھامے رکھنے پر مبارک باد
اور بات تو سولہ آنے درست ہی ہو ئی حریم ادب کے کنونشن میں کہ۔۔۔بات کرتے ہیں سماج میں ادب کے فروغ کی۔۔سماج کی پہلی اکائی تو ہماراگھر ہے،اپنا حصہ بھی دیکھ لیں اس ادب کے فروغ میں۔۔۔
بات تو سچ ہے کہ۔۔۔۔
اپنے بچوں کے جیون ساتھی کا انتخاب کرتے ہوئے جب معلوم ہو کہ لڑکا شاعری کرتا ہے تو ہمارا ردعمل کیا ہوگا۔۔
لڑکے کی جاب تو مناسب ہے مگر ماشاء اللہ افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا ہے تو ہمارا طرز عمل کیا ہوگا۔۔
اک لڑکی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے اور دوسری اقبالیات میں ڈاکٹریٹ کررہی ہے تو ہمارا انتخاب کیاہوگا بہو کے لیے؟؟
ہم جن گھروں میں جاتے ہیں مہنگے فانوس،نفیس پردوں،جدید فرنیچر سے متاثر ہوتے ہیں یا تلاش کرتے ہیں کہ گھر کے کسی حصہ میں کو ئی گوشہ،کوئی الماری،کوئی ریک کتابوں کا بھی نظر آئے تو ہم صاحب خانہ کے علمی وادبی ذوق کا اندازہ کریں۔
بیٹی کو جہیز میں جو کچھ ہم دیتے ہیں کتابوں کی کتنی تعداد ہوتی ہے اس سامان میں جو میکہ سے اس کی یادوں کے ساتھ جاتا ہے۔
برگر،آئسکریم،پیزہ ہزار روپے کے آجاتے ہیں لیکن بچہ بازار میں کسی بک اسٹال پر رک جائے تو ہم اس کا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں کہ ابھی پیسے نہیں ہیں۔
گھر میں اخبار نہیں آتاکہ بجٹ میں گنجائش نہیں۔۔
ہماری علمی قدر کے تعین کے لیے تو یہی جائزہ کافی ہے کہ ایک سال میں کتنے نئے جوڑے بنائے اور کتنی نئی کتابیں گھر میں آئیں؟؟
علم اور تہذیب کا گہوارہ تو ہمارے گھر ہیں۔۔ہماری گفتگو کے موضوعات کتنے علمی وادبی ہوتے ہیں اور کتنی تیری میری اچھائیاں برائیاں اور افراد کی کمزوریوں کو ڈسکس کرکے ہمارا شریر نفس مزے لیتا ہے۔
گھر کا نقشہ بنواتے ہوئے،لائبریری،اسٹڈی روم کے نام پر کوئی گوشہ مختص کرتے ہیں ہم۔
جو بزرگ رخصت ہوتے ہیں دنیاسے ان کے ورثے کا سب سے بے قیمت حصہ وہ کتابیں ہوتی ہیں جوسوئم ہوتے ہی ہم کباڑی کودیدیتے ہیں۔۔
یہ اقدار جوہماری ذاتی اقدار ہیں ان کو بدلے بغیر ہم کیسے سماج میں ادب کے فروغ کی بات کرسکتے ہیں؟؟
ادب اور مثبت ادب کے فروغ میں حریم ادب کے بھرپور کردارپر ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔جہاں ہاتھوں میں قلم ہی نہیں بلکہ ذہنوں میں بھی اجالا ہے۔