حسن قدیم کی ایک پوشیدہ جھلک

529

عائشہ صدف… ہیوسٹن
نماز فجر مسجد اقصی میں پڑھنے کی شدید ترین خواہش تھی مگر دونوں چھوٹے بچوں کو سوتے دیکھ کر عقل نے دل کو سمجھایا کہ اگر سوتے سے زبردستی اٹھا کر لے بھی گئیں تو وہاں تمھاری نماز کے ساتھ ساتھ دوسروں کی نماز بھی خراب ہوگی اور باقی پورا دن جو خراب ہوگا وہ تو لازمی ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ ابھی ان کو نیند پوری کر لینے دی جائے اور انشااللہ کل سب مل کر فجر کی نماز مسجد اقصی میں ادا کریں گے۔ میاں صاحب اور بڑے بیٹے نے اگرچہ نماز فجر با جماعت ادا کی ۔ دونوں کو تیار ہوتے دیکھ کر بڑا رشک آرہا تھا۔
گائیڈز کے ساتھ صبح دس بجے کا وقت طے ہوا تھا۔ناشتہ کا انتظام ہوٹل ہی میں تھا۔ نہایت پرتکلف ناشتہ تھا مگر شراب(خمر)کی فراوانی دیکھ کر دل کو دھچکا لگا دنیا میں شائد اب گنے چنے ہی ملک ہوں گے جہاں یہ ممنوع ہے۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر ہوٹل لابی مین پہنچے تو سب ہمارے منتظر تھے۔ رات میں تو اس قدرتھکے ہارے تھے کے ہوٹل کوبھی صحیح سے نہ دیکھاتھا اب جو سامنے ہی نظر پڑی تو بڑا سا سجا سجایا کرسمس ٹری بھی سامنے کھڑا تھا۔ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ آیا ہم یروشلم پہنچ گئے ہیں یا ابھی امریکہ ہی میں ہیں۔
آج کا دن الخلیل ( Hebron)شہر کے نام تھا۔ یہ حضرت ابراہیم یہ ویسٹ بینک کا سب سے بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔راستہ اچھا صاف ستھرا تھا۔ اگا ہیڈ ہمیں پورے راستے Jewish settlements دکھاتے ہوئے لائے۔ یہ لال چھتوں والے گھر تھے جو دور ہی سے کافی نمایاں ہورہے تھے۔ ارضِ فلسطین کی زمین پر قبضہ کے لئے یہودی خاص حکمت عملی سے کام لیتے ہیں۔ یہ ہمیشہ کسی بےآباد بلندی پر موجود پر فضا مقام کا تعین کرتے ہیں جو یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں کیونکہ اب بھی یہاں کی بیشتر زمیں بےآباد پڑی ہے۔اس کے بعد سڑکوں کا جال بچھا کر اس مقام کو جدید ترین بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا جاتا ہے اور پھر تیزی کے ساتھ گھروں کی تعمیر کا کام شروع کر دیا جاتا ہے۔آنے جانے والے راستوں پر شدید حفاطتی انتظامات کر دئیے جاتے ہیں اور اس علاقہ کے اطراف الیکٹریکل وائر لگا کر ناپسند دیدہ افراد کی آمد کو محدود کردیا جاتا ہے۔ اس طرح ابتدائی طور پر ایک چھوٹا سا شہر کے نقوش ابھر کر آتے ہیں جو رفتہ رفتہ جدید ترین شہر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ مزید رقبہ کے حصول کی خاطر اس کے چاروں اطراف زیتون،کھجور اور انگور کے باغات لگا کر اس ساری زمین کو منافع بخش پروجیکٹ میں تبدیل کر دیا جاتاہے۔اس طرح آبادی کے کم ہونے کے باوجود مقبوضہ علاقہ کے رقبہ میں خاطرخواہ اضافہ ہو جاتا ہے اور آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔
ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کے دوران متعدد چیک پوسٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ فلسطینی،عرب مسلما نوں کے لئے یہ مراحل ذلت اور بےعزتی کا نشان ہوتے ہیں۔ ان کو تمام ضروری کاغذات اپنے ہمراہ رکھنے کی ہدایت ہوتی ہے مگر ذرا سی اونچ نیچ ان کے سفر کو کھوٹا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔اپنے ہی ملک، اپنی ہی زمین پر اجنبی بنانے کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ اس کے ذریعہ اسرائیلی انتظامیہ دو مقاصد حاصل کر رہی ہے۔ ایک تو اس کے ذریعہ شہریوں کو اتنا پریشان کیا جائے کہ وہ اپنی زمین اونے پونے بیچ کر اس سرزمین سے ہمیشہ کے لئےرخصت ہو جائیں اور دوسرا ایک شہر کے افراد کا دوسرے شہر کے افراد سے تعلق کو ہر ممکن حد تک محدود کر دیا جائے۔ان کو اپنے شہر سے آگے بڑھ کر سوچنے کی ہمت ہی نہ ہو ۔ان کی حیثیت عظیم اسرائیلی ریاست کے اندر ایسی pocketsکی ہوں جو ضرورت پڑنے پر بھی ایک دوسرے کی مدد کر نےسے قاصر ہوں۔ دل اغیار کی منصوبہ بندی اور مسلمانوں کی مظلومیت دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا تھا ۔ نہ جانے کیسے یہ سب برداشت کرتے ہوں گے۔ اپنی غیرت کو سلا نے کے لئے نہ جانے کتنے تازیانے روز مارتے ہوں گے۔حالانکہ یہ تو اللہ کی غیر تبدیل شدہ سنت ہےکہ جو قوم اپنے دین و مذہب سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو پستی اور بدحالی اس پر مسلط کردی جاتی ہے۔جو خستہ حال پچاس اسلامی ممالک کا اس دنیا کے نقشہ پر ہے وہی حال ویسٹ بنک کے سات شہروں کاہے۔ غزہ کی بدحالی کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں مگر وہاں جانے کی اجازت نہیں اس لئے اس کا آنکھوں دیکھا حال لکھ نہیں سکتی۔ جب تک مصر میں مرسی کی حکومت تھی تو اکثر فلسطینی وہاں سے بارڈر کراس کر کے غزہ میں داخل ہوجائے تھے مگر جنرل سی سی کے آنے کے بعد سے بارڈر کراس کرنا ناممکن ہے سال میں ایک دفعہ یہ کھلتا ہے اور اس وقت بھی یہاں کے سابق شہریوں کو ہی کافی تفتیش کے بعد داخل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔
یروشلم سے نکلتے ہوئے یہی پلاننگ تھی کہ نماز ظہر مسجد ابراہیم میں ادا کریں گے۔ لہٰذا جب گاڑی طویل سفر کے بعد رکی تو اندازہ ہوگیا کہ ہم مسجد ابراہیم پہنچ چکے ہیں۔ دروازہ کھلتے ہی شدید سردی کے تھپیڑے لگے لیکن اپنے طور پر خیال کر لیا کہ پارکنگ مسجد کے نزدیک ہی کی گئی ہوگی اور چند قدم سردی برداشت کرلینا کوئی مشکل نہیں ہوگا کون اتنی جیکٹس کو پہننے کی زحمت کرے۔لہٰذا بغیر ضروری انتظام کے مسجد کی طرف اپنے میزبانوں کی ہمراہی میں چل پڑے۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا لیکن اب معاملہ ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا، نماز کا وقت بھی تنگ ہورہا تھا چنانچہ واپس پلٹنے کا خیال دل و دماغ سے نکال کر مسجد کی سمت تیز چلنا شروع کردیا ۔ یہ کافی طویل راستہ تھا اور صرف طوالت شاید پریشانی کا باعث نہ ہوتی مگر یہاں بھی ذلت اور رسوائی کا سامان تیار تھا۔ مسجد سے کافی دور سیکوریٹی کے نام پر ایک پنجرہ نما کمرہ تھا جو اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں ایک شخص اس کے اندر داخل ہو سکتا تھا۔اس کے دوسری طرف محافظ قوم بیٹھے تھے جو فرداٗ فرداٗ پاسپورٹ چیک کر رہے تھے ۔معلوم ہورہا تھا ہم کوئی جیل سے بھاگے ہوئے مجرم ہیں جو شومئی قسمت سے دوبارہ پکڑ لئے گئے ہیں۔ اگر اپنے وطن سمیں سفر کرنے کے دوران اس ذلت سے دو چار ہونا پڑے تو شائد میں احتجاجاسفر کرنا ہی چھوڑ دوں ۔لیکن گائیڈ اور باقی افراد جس سکون کے ساتھ تمام مراحل سے گزر رہے تھے اس کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھاکہ آپ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ ان کے طریقہ کار کے مطابق چلیں ورنہ نتائج کی ذمہ داری آپ کےسر پر ہوگی۔ذلت کا احساس سب کچھ چھوڑ چھوڑ کر واپس جانے کے لئے اکسا رہا تھا کہ کم از کم اپنا احتجاج توریکارڈ کرائیں ، مگر حرم ابراہیم جانے کی شدید ترین خواہش نے مصلحت پسندی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس چیک پوسٹ سے آگے بڑھے تو بازار کی کافی اونچی نیچی، پر پیچ سڑکوں سے گزر کر مسجد ابراہیم میں داخل ہونے کے قابل ہو پائے۔
ایک چیک پوسٹ کا حال
حضرت ابراہیم کیا بہترین شخصیت تھے ، ان کا ذکر آئے تو قربانیوں کی نہ ختم ہونےوالی داستان دل و دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے۔محبت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی فرمانبرداری ان ہی کی شخصیت کا خاصہ تھیں۔اللہ سے محبت کو عملی مثالیں قائم کر کے محبت کوکمال کے درجہ تک پہنچایا۔اور اس کا انعام جو روز قیامت ملے گا تو ملے گا جب تک یہ دنیا قائم ہے ان کا نام جگمگاتا ہی رہے گا ۔عشق کی دلکش مثال تھے ۔ہم مسلمانوں کے دلوں میں تمام انبیا کی محبت پیارے نبی کے ساتھ ساتھ گھٹی مین ڈال دی جاتی ہے مگر ابوالانبیا ان کا تو مقام ہی الگ ہے ہر گھر اور خاندان میں ان کا ہم نام مل جائے گا،
کافی قدیم،شکستہ حال مسجد ہے ، اس میں ٹھیک ٹھاک کرنے کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔بغیر کسی دقّت کے محسوس ہورہا تھا کہ عثمانی دور حکومت میں پہنچ گئے ہیں ۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی قدیم طرز تعمیر کی زیر زمین عمارت ہے۔ یہودی روایات کے مطابق۳۷۰۰ سال قبل حضرت ابراہیم اس علاقہ میں تشریف لائے تھے ان کی اہلیہ حضرت سارہ کا انتقال ہوا تو انھوں نے یہ زمیں خرید کر ان کو دفن کیا۔ مسجد کے فرش سے تقریباً سترہ میٹر نیچے ایک غار ہے جہاں حضرت ابراہیم، اسحٰق، یعقوب اور ان کی زوجات کے اجسام مدفون ہیں۔اس میں تینوں انبیا کے حوالہ سے تین کمرے ہیں۔مسجد دو حصوں میں منقسم ہے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کے کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف سے مسلمان زیارت کرتے ہیں اور دوسری طرف یہودی زائرین ہوتے ہیں ۔حضرت اسحٰق اور انکی اہلیہ رفقہ (Rabecca)والا کمرہ بطور مسجد استعمال ہوتا ہے۔ اور تیسرا کمرہ حضرت یعقوب اور ان کی اہلیہ لیہ (Leah) کا مقبرہ ہے یہ synagogue (یہودی عبادتگاہ) کے لئے مختص ہے۔ سال میں دس مذہبی دن ایسے ہوتے ہیں جب ایک دوسرے کے حصوں میں جا کر انبیا کی قبروں کی زیارت کی اجازت ہوتی ہے۔
(جاری ہے)

حصہ