نعیم الرحمن
محترم راشد اشرف نے اردوکی پرانی اوریادگارکتابوں کی اشاعتِ نوکا بیڑہ اپنے منفرد سلسلے ’’زندہ کتابیں‘‘ کے ذریعے اٹھایا ہے، جسے بجا طور پر اردو کی نایاب، یادگار اور بے مثال کتب کا نیا جنم قرار دیا جاسکتا ہے۔ پیپربیک کی صورت میں کئی نایاب اور شاندارکتابیں شائع کی جا چکی ہیں، جن میں مرزا داغ دہلوی کی یادوں پر مبنی کتاب’’بزمِ داغ‘‘، موسیقارِاعظم نوشاد کی شمع دہلی میں شائع ہونے والی دلچسپ آپ بیتی، مقبول جہانگیرکے تحریرکردہ خاکوں کا مجموعہ ’’یارانِ نجد‘‘، فکاہیہ کالم نگارنصراللہ خان کے شخصی خاکوں کاانتہائی دلچسپ اورکئی دہائیوں سے نایاب مجموعہ’’کیاقافلہ جاتاہے‘‘،اردوکے منفردادیب اورصحافی چراغ حسن حسرت کے بارے میں ’’ہم تم کونہیں بھولے‘‘،اردوکے عظیم جاسوسی ناول نگارابن صفی کے حوالے سے ’’کہتی ہے تجھ کوخلقِ خداغائبانہ کیا‘‘،بھارتی ادیب اوردانشوررام لال کی خودنوشت’’کوچہ قاتل ‘‘ اوراخلاق احمددہلوی کی یادوں کاگلدستہ ’’یادوں کاسفر‘‘شامل ہیں۔حال ہی میں سقوطِ حیدرآباددکن سے متعلق نواب ہوش یارجنگ کی نایاب اورگمشدہ خودنوشت ’’مشاہدات ‘‘ بھی زندہ کتابیں کے تحت شائع کی گئی ہے۔
راشداشرف نے تازہ دوکتابیں پیپر بیک کے بجائے مجلد گردپوش سے آراستہ اور سفید کاغذ پر شائع کی ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب ایم اے عثمانی کے یادگارشخصی خاکوں کی دوکتابیں ’’دھندلے سائے‘‘ اور ’’بستی بستی روشن تھی‘‘ ایک جلد میں ہیں۔ 432 صفحات کی کتاب کی قیمت پانچ سوروپے ہے۔
ایم اے عثمانی کے نام کا قصہ بھی خاصا دلچسپ ہے، جس کا انکشاف ان کے صاحبزادے ابان بابر عثمانی نے ’’ڈیڈی‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ڈیڈی اپنے بھائیوں احمد پاشا اورمصطفی پاشاکی طرح علی پاشاکے نام سے جانے جاتے تھے اور میٹرک کی سند میں بھی ان کا یہی نام درج ہے۔ جنرل ایوب کے دور میں فوج نے پکڑدھکڑ شروع کی اورکوشش کی کہ جو لوگ تحریکِ پاکستان میں متحرک رہے ہیں ان کو بھی گھیرا جائے۔ علی پاشاکے بھی وارنٹ نکلے، مگراللہ کا احسان ہے یہ خبر ان کے دادا قاری محی الدین مرحوم کے ایک مرید کو پہنچ گئی جو اسی دفتر میں متعین تھے۔ اُس دن سے پانی پت والوں نے علی پاشا کو ہمیشہ کے لیے محمد علی عثمانی بنادیا اور وارنٹ نکالنے والے ٹاپتے ہی رہ گئے۔ ڈیڈی کو پکڑدھکڑکا تو دکھ تھا مگر جناح کا ہم نام ہوجانا ان کے لیے بہت بڑی بات تھی۔ ہجرت کے دوران ٹی بی کا شکار ہونے سے ان کو محمدعلی جناح سے ایک نسبت اور بھی ملی، جس کے علاج کے لیے انہیں آدھا پھیپھڑا کٹواکر نکلوانا پڑا۔‘‘
کتاب کے آغاز میں ایم اے عثمانی کے صاحبزادے ابان بابر عثمانی نے’’ڈیڈی‘‘، اور ان کی بھتیجی زہرہ عثمانی نے ’’ماموں اور میں‘‘ کے نام سے ان کی یادیں تازہ کی ہیں۔ زہرہ عثمانی نے ایم اے عثمانی کے عشقِ صادق کا قصہ خوب بیان کیا ہے:’’جب خالہ آمنہ ہاؤس جاب کررہی تھیں تو ممانی نزہت سے دوستی ہوگئی۔ ایک دوبار وہ گھرآئیں تو ماموں دل پھینک بیٹھے، اور ادھر بھی یہی معاملہ ہوا۔ دونوں ملتے رہے۔ جب فیملی کو علم ہوا تو’ظالم سماج‘ آڑے آگیاکہ یہ رشتہ نہیں ہوسکتا۔ بات یہ تھی کہ ماموں جس خاندان کے چشم وچراغ تھے وہ حضرت عثمان غنیؓ کی نسل سے ہونے پر بہت فخرکرتا تھا۔ زبان اور رسم ورواج سے وہ دہلی کے کلچرکا نمونہ تھے۔ اس حد تک کہ بچوں کو پنجابی بولنے پر ڈانٹ پڑتی تھی۔ ممانی کا خاندان ٹھیٹ پنجابی، پرانے لاہوری اوراندرون شہرکے رہنے والے۔ یہ تو اجتماعِ ضدین تھا۔ کوئی بھی اس رشتے پر آمادہ نہ تھا اور بہت عرصے تک یہ بحث مباحثہ چلتا رہا۔ لیکن ماموں کی ثابت قدمی کے سامنے سب کو ہار ماننا پڑی۔ خاندان کے کئی لوگوں کو شک تھاکہ یہ رشتہ کامیاب نہ ہوگا، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ رنگ برنگی زبان، روایات اورکلچرکی شادی خوب چلی۔ یہ دو دلوں کا نباہ تھا اور آخر تک اس کی شدت میں کمی نہ آئی۔‘‘
اس بارے میں ابان بابر لکھتے ہیں کہ ’’میں غور سے دیکھتا ہوں تو میرے ماں باپ کا عشق مثالی بلکہ افسانوی معلوم ہوتاہے۔ ڈیڈی کو ایک سال کے لیے برطانیہ میں اسکالرشپ ملا۔ میں بہ مشکل ایک سال کاتھا۔ بڑے دونوں ابھی اسکول جانا شروع ہی ہوئے ہوں گے مگر امی نے ان کی ہمت بندھائی۔ اس ایک سال کے دوران ڈیڈی سب ہی سے خطوط کے ذریعے رابطے میں رہے مگر اپنی بیگم کو 365 خط اورکارڈ لکھے، اور یہ کوئی بھرتی کے خط نہیں بلکہ اکثر اچھے خاصے تفصیلی مضامین تھے۔ یادرہے کہ اُس وقت ان کی شادی کو سات آٹھ سال ہوچکے تھے۔‘‘
ایم اے عثمانی نے ’’دھندلے سائے‘‘کی تحریروں کوکچھ خیالی اور کچھ نیم خیالی خاکے قرار دیا ہے۔ طویل پیش لفظ ’’پریشانیِ خاطر‘‘ میں ان خاکوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’سلسلہ مضامین کے آغاز میں ایک روز محترم صلاح الدین محمود میرے دفتر تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ عثمانی بھائی آپ نے میرا جمعہ کا دن بہت خوشگوار بنادیا ہے۔ صبح صبح آپ کے مضمون کی قسط پڑھ لینے کے بعد سارا دن گمشدہ ماضی کے خوبصورت نقوش ذہن کے نگارخانے میں اجاگر کرتا رہتا ہوں۔ صلاح الدین محمودجیسے کہنہ مشق ادیب اورنقادکی یہ قدر افزائی میرے لیے اثاثہ ہے۔میرے خاکوں کے یہ کردارافراد نہیں، اقدار کے نمائندے تھے۔ ان کی خوبیاں کمزوریوں سے کم اور اجتماعی زیادہ تھیں۔ وہ علامت تھے، حوالے تھے۔ میں نے بہت جانفشانی سے ان تہذیبی نقوش کو اجاگرکرنے کی کوشش کی تھی جو دھندلاکر مٹ جانے والے تھے۔ میں نے خود کو اس ورثہ کا امین سمجھ کر اس امانت کو اگلی نسل کے حوالے کرنے کی مخلصانہ سعی کی ہے۔ اس سے خود مجھے ایک ذہنی اور جذباتی آسودگی حاصل ہوئی۔‘‘
کتاب کے نام کے بارے میں عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ کئی نام زیرِ غورآئے، لیکن ’’دھندلے سائے‘‘ طے ہوا۔ اس میں میری بے بضاعتی کا اعتراف ہے کہ باوجود خواہش اورکوشش کے میں اپنے ممدوحین کی شخصیتوں کو اجاگر نہیں کرسکا جیسا کہ ان کا حق تھا۔ بس چند دھندلے سائے ہیں جو آپ کے سامنے کچھ دیرکو اُبھرکر ذہن کے دھندلکوں میں غائب ہوجائیں گے۔ کتاب کا پہلا خاکہ ’’نواب صاحب‘‘ ہے۔ اہلِ خانہ کے اصرار پر یہ مضمون جب گھر پر پڑھا توخواتین نے بڑے شوق اور توجہ سے سنا۔ ایک خاتون نے تبصرہ کیاکہ بہت اداس کردینے والی داستان ہے کہ کیوں کر اونچے خاندان اپنی کوتاہیوں سے مٹ جاتے ہیں۔ ایک اجنبی خاتون کے یوں مضمون کی تہہ تک پہنچنے پر انہیں بہت حیرت ہوئی۔
اس کے علاوہ پیرجی، خواجہ سچے اور حکیم سچ، مثالی صاحب، نمبردارصاحب، بڑے حافظ جی، چھوٹے حافظ جی، قاضی صاحب، خان بہادر صاحب، شیخ صاحب، خاں صاحب، ایم ٹی، ماں جی، بھابھی، بھائی جان اور بھائی صاحب جیسے دلچسپ کرداروں کو زندۂ جاوید کردیا ہے۔ قاری کی دلچسپی کسی خاکے میں کم نہیں ہوتی۔
’’بستی بستی روشن تھی‘‘ کے بارے میں ایم اے عثمانی کہتے ہیں کہ’’یہ میرے اساتذہ کا میرے ذمے قرض تھا اور قرض کی ادائیگی فرض ہے، سو ان مضامین کے ذریعے میں نے وہ قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک معاشرتی دورکے دھندلائے ہوئے نقوش ہیں۔ یہ افراد نہ فرشتہ تھے نہ انسان۔ اپنی تمام خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ یہ ایسی دلچسپ اورمتنوع انفرادیت کے مالک تھے کہ ان کی ذات میرے ذہن کے پردے پر اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہایت توانائی اور تابانی سے ابھرتی ہے۔ بس ایک بار ذہن میں ایک ہیولا بنا اور پھر پوری آزادی سے نقش و نگار بنانا شروع کردیے۔‘‘
اس کا دیباچہ عرفان علی شاد نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’دنیا میں کتنے ہی لوگ بے نام سے رہ گئے، لیکن کچھ لوگ دنیا میں ایسے کارنامے انجام دے گئے کہ ان کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ ایسے لوگوں میں ایم اے عثمانی بھی شامل ہیں جن کا نام عرصہ دراز تک اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ زندہ رہے گا۔ خاکہ نگاری میں خاکہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں خاکہ نگار ختم کرتا ہے۔ انجام سے تحیر پیدا ہوتاہے۔ یہی تحیر قاری کو آغاز کی جانب دوبارہ گامزن کرتا ہے، اور اب جو تاثر قاری کے ذہن میں اُبھرتا ہے، وہی تاثر خاکے کی روح کہا جاسکتا ہے۔ یہی تاثر تخیل میں بے شمار رنگ اُنڈیل دیتا ہے اور ایک ہفت رنگ احساس پڑھنے والے کی سوچ کے پردوں پر تصویرکی صورت ابھرتا ہے۔ یہ احساس جتنا گہرا اور چونکا دینے والا ہوگا، خاکہ اُتنا ہی خوبصورت ہوگا۔ عثمانی صاحب کے ہاں یہ حسن کاری بھرپور انداز میں موجود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اُن کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔‘‘
’’بستی بستی روشن تھی‘‘ میں 9 تحریریں شامل ہیں، جن میں ’’پروفیسر سراج الدین‘‘، ’’پروفیسرمنظورحسین‘‘، ’’ڈاکٹر نذیر احمد اور چند دوسرے‘‘، ’’ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر‘‘، ’’میراشفاق حسین قلندری‘‘، ’’حضرت قاری مشتاق احمدخان‘‘، ’’میری پہلی درس گاہ…آغوشِ مادر‘‘، ’’میں اور امتحانات‘‘ اور ’’سو تھا وہ بھی آدمی‘‘ شامل ہیں۔ اور ہر تحریر ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ مجموعی طور پرکتاب انتہائی دلچسپ اورقابلِ مطالعہ ہے۔
زندہ کتابیں کی دوسری کتاب بھارتی فلموں کے نامور کہانی نویس سیدواجدحسین رضوی عرف آغاجانی کشمیری کی آپ بیتی ’’سحرہونے تک ‘‘ ہے۔ جانی کشمیری 16 اکتوبر1908ء کو پیدا ہوئے اور 27 مارچ 1998ء کو ان کا انتقال کینیڈا میں ہوا۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری اورخوش وخرم، دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی یہ آپ بیتی 1966ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن پاکستان اور بھارت میں عرصہ دراز سے دستیاب نہیں۔ بہترین سفید کاغذ پر مجلّد اورگرد پوش سے آراستہ 248 صفحات اورآرٹ پیپر بھی دس رنگین تصاویر سے مزین ہے، کتاب کی قیمت ساڑھے چارسوروپے ہے۔
بھارتی ادبی جریدے کے ایک مدیر جانی کشمیری کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’معروف فلمی منظرنامہ نگار اور مکالمہ نویس آغاجانی کشمیری میرے پسندیدہ ادیبوں میں شامل ہیں۔ آغاجانی کشمیری کا فلم نگاری کا گراف کافی بلند ہے۔ ان کی مشہور اور مقبول فلموں میں ہمایوں، تقدیر، انمول گھڑی، یہ راستے ہیں پیارکے، غزل، نیا زمانہ شامل ہیں۔ جن فلموں کے مکالمے اوراسکرین پلے انہوں نے لکھے ان میں سے چند کے نام ہیں: چندرلیکھا، عورت، امر، چوری چوری، لواِن شملہ، جنگلی، ضدی، اپریل فول، لو اِن ٹوکیو، پروانہ، نیا زمانہ اورکھلونا۔ انہوں نے بیس بائیس سلور جوبلی اور دس گولڈن جوبلی فلمیں لکھیں، لیکن اپنے پیچھے کوئی مستقل حیثیت کی ادبی کتاب نہیں چھوڑی۔ البتہ ان کی خودنوشت سوانح حیات ’’سحرہونے تک‘‘ ہے، جوحقیقت نگاری اوراسلوب کے اعتبار سے شاہکار ہے۔ سحر ہونے تک کی اشاعت کے بعد اس کتاب کی پانچ سو جلدیں آغا جانی کشمیری نے تقسیم کی غرض سے کسی کو دہلی بھجوائی تھیں، لیکن وہ شخص ناقدرا نکلا۔ اس کے کسی گودام یاکمرے میں پڑے پڑے وہ کتابیں برباد ہوگئیں اورکسی نے کبھی ان پر توجہ بھی نہیں دی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کتاب سے عام طور پر لاعلم ہیں۔
اس آپ بیتی کا پیش لفظ ’’حرفِ تعارف‘‘ کے عنوان سے الٰہ آباد یونیورسٹی کے استاد، نامور نقاد اور ادیب احتشام حسین نے لکھا ہے۔ پروفیسر احتشام کاکہنا ہے کہ ’’اردو ادب کم مایہ نہ سہی لیکن اس میں اچھی سوانح عمریاں بہت کم اور خودنوشت تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مشرق میں شخصیتوں کو داغوں اور دھبوں کے ساتھ منظرعام پر لانا، اپنی ذات کی نمائش، اپنے کارناموں پر فخر کا اظہار اور تجربوں کے ناگفتنی پہلوؤں کی عکاسی کو ہمیشہ معیوب سمجھا گیا ہے۔ انکساراور احتیاط کی ملی جلی کیفیت بہت سے گفتنی معاملات کو بھی ناگفتہ بناکر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ بات اخلاقی نقطہ نظر سے کتنی ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، عملی اور ادبی حیثیت سے بہت نامناسب ہے۔ بہت لوگوں کی زندگی میں ایسے نشیب و فراز اورکچھ ایسے ذہنی اورجذباتی حادثات ہوتے ہیں جن کا علم دوسروں کے لیے عبرت اور بصیرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح تجربوں میں اضافہ ہوتا ہے اور شعور کی حدیں وسیع ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی یہی جذبہ آپ بیتی بیان کرنے کا محرک بن جاتاہے۔ اظہارِ ذات کی خواہش بھی قلم ہاتھ میں دے دیتی ہے اور لکھنے والااپنی شخصیت کے جن نقوش کو ابھارنا چاہتا ہے، ابھار دیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہر شخص ایک کتاب ضرور لکھ سکتا ہے اوروہ اس کی خودنوشت سوانح عمری ہوتی ہے۔ مجھے مسرت ہے کہ آغاجانی کشمیری کی خودنوشت اردو کے سوانحی ادب میں ایک دلکش اضافہ ہے۔ آغاجانی نے، جن کا مشاہدہ گہرا، یادداشت قوی اور ادبی ذوق ستھرا ہے، اپنے مخصوص بے باک اور رنگین انداز میں اپنی زندگی کے وہ مناظر پیش کیے ہیں جن میں ان کی تصویر کے ساتھ لکھنؤ کی اس تہذیبی اور سماجی زندگی کے نقوش بھی ابھر آئے ہیں۔ موصوف کو اس تخلیق کو مکمل کرنے میں میری ہمت افزائی سے بھی مدد ملی۔ آغاجانی کی خوبصورت قیام گاہ پرکچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تو میرے سامنے لکھنؤکی تہذیب، شائستگی، رہن سہن اور ماحول کے بہت سے جلوے بیک وقت آگئے۔ آغاصاحب نے بمبئی کی اس کاروباری فضا میں بھی ان ساری لطافتوں اورنفاستوں کو محفوظ رکھا ہے جن سے لکھنؤعبارت ہے۔ جب موصوف نے اپنی یادداشتوں کے کچھ صفحات مجھے سنائے تو مجھے یقین ہوگیاکہ وہ آپ بیتی لکھنے کا حق رکھتے ہیں۔‘‘
اردوکے ایک بڑے شاعر اور ادیب سردار جعفری نے اپنے تاثرات اسی عنوان سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایک کتاب ہرشخص کی زندگی میں ہوتی ہے لیکن کتاب کو سینے کی گہرائیوں سے باہر نکال لانا ہرشخص کا کام نہیں ہے۔کتاب کی تخلیق بھی ایک سادھنا ہے جو عمر بھر کی ریاضت کا مطالبہ کرتی ہے۔آغاجانی کو اس ریاضت کی فرصت نہیں ملی۔ انہوں نے ساری عمر فلم میں گزاری ہے اور فلم کے لکھنے والے فنکار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ہے، پھر بھی وہ اپنے دل کی کتاب لکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ حیرت ناک بات اس لیے ممکن ہوئی کہ انہوں نے ریاضت اور سادھنا سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے بے تحاشہ اور بے تکلف اندازِ گفتگو کو تحریر میں برقرار رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیان میں انگریزی الفاظ کے ساتھ ساتھ بمبئی کی فضا کی پروردہ زبان کہیں کہیں اُبھرآئی ہے اور وہ لکھنؤکی میٹھی اورستھری زبان کے ساتھ ناگوار نہیں گزرتی، اور ہم یہ سوچنے پرمجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ بھی تو اندازِ بیان ہوسکتا ہے۔‘‘
احتشام حسین جیسے بڑے ادیب اورنقاد اور سردار جعفری جیسے شاعر اور ادیب کے یہ توصیفی الفاظ ’’سحر ہونے تک‘‘ کی اہمیت اوردلچسپی کا ثبوت ہیں۔ آغاجانی کشمیری کا کہنا ہے کہ میرے دو گرو ہیں: علامہ آرزو مرحوم جنہوں نے چودہ سال کی عمر میں میری فکر کولکھنؤ میں جنم دیا، سمجھ بوجھ کی صلاحیتیں اور زبان کا چٹخارہ پیدا کیا جو اللہ کے بعد صرف آرزو صاحب ہی بخش سکتے تھے، جوکچھ مجھ کو ملا ہے وہ صرف لکھنؤ اورلکھنؤ والوں کا، بنگال اور بنگالیوں کا صدقہ ہے۔ دوسرے عظیم ڈائریکٹرمحبوب خان۔
راشد اشرف ان دوکتابوں کی اشاعت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ اردو ادب کی بھرپور خدمت کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ان کا آئندہ کا اشاعتی پروگرام بھی شاندار ہے۔ انہوں نے بلاشبہ نایاب اور بھولی ہوئی کتابوںکو نیا جنم دیا ہے، اور اس فراموش شدہ ادب سے قارئین کو روشناس کرایا ہے۔ ادب کے حقیقی قارئین کو ’’زندہ کتابیں‘‘ کی اگلی کتب کا بھی انتظار رہے گا۔