ڈاکٹر نثار احمد نثار
محسن اعظم محسن ملیح آبادی کا شمار قادرالکلام شعرا میں ہوتا ہے یہ بزرگ شاعر اردو ادب کا سرمایہ ہیں‘ یہ ہمارے عہد کے خیام العصر ہیں ان کے بے شمار شاگرد ہیں جو علم و ادب کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔ 1939ء میں لکھنو میں پیدا ہونے والے محسن اعظم ملیح آبادی کی شعری تخلیقات میں وجدان (منظومات و غزلیات)‘ بسیط (منظومات و غزلیات)‘ دانش و بینش (رباعیات)‘ ذکریٰ (نعتیہ شاعری)‘ جاوداں (منظومات و غزلیات)‘ کلیاتِ دوہا آرام (دوہوں کے چار مجموعے دوہا پرندھام‘ جیون دھام‘ روپ ندھان‘ دوہان ادیان پر مشتمل ہے) ان کی نثری تصانیف میں بینات ( علمی وادبی تنقیدی مقالات) انتقادی آئینے (انتقادی مضامین) محسنِ عروض و نکاتِ شاعری‘ اسرار زبان اردو‘ محسن القواعد‘ اصلاح سخن شامل ہیں جب کہ انہوں نے اپنے 35 شعری مجموعوں کو سات کلیات میں جمع کر دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر اور سماجی رہنما رونق حیات نے الطاف احمد کے گھر پر منعقدہ ایک نشست میں کیا جو کہ محسن اعظم ملیح کی کلیات کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔ ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی کے روح رواں رونق حیات نے مزید کہا کہ محسن اعظم ملیح آبادی کی کلیات دوہا آرام 1048 صفحات پر مشتمل ہے جس میں پانچ ہزار سے زائد دوہے شامل ہیں‘ یہ دوہے قدیم دوھا چند اور مفروضہ بحر ’’سری چھند‘‘ میں لکھے گئے ہیں اس کتاب کے تبصرہ نگاروں میں ڈاکٹر عبدالخالق‘ ڈاکٹر فاروق احمد خان‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ یاسین خان‘ شاہ جہاں آبادی‘ صہبا اختر‘ ڈاکٹر وزیر آغا اور مجید امجد شامل ہیں۔ محسن اعظم ملیح آباد رباعی کے ممتاز شاعر تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ دوہے کے بھی معتبر شاعر بھی ہیں انہوں نے اردو اور جدید ہندی کے میل سے جو فکر انگیز دوہے لکھے ہیں وہ ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ ان کے یہاں نئے پن کا احساس ملتا ہے‘ ان کے موضوعات زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے کلام میں جدت اور شعریت پائی جاتی ہے‘ ان کے اشعار دل کش اور اثر انگیز ہیں۔ محسن اعظم ملیح آبادی کے فن و شخصیت پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ہے کہ ان کی شاعری فکر و خیال کی بلندی اور فنی صلاحیتوں سے معمور ہے‘ وہ نظم و غزل کے اہم شاعر ہونے کے علاوہ رباعیات اور دوہوں کے بھی عظیم شاعر ہیں‘ ان کے دوہوں کی زبان جدید ہندی الفاظ سے استعمال سے ذرا سی مشکل تو ضرور ہوگئی ہے لیکن روانی اور شگفتگی بیانی برقرار ہے ان کے دوہے فنی اعتبار سے بحر میں ہیں ان کے موضوعات میں تنوع ہے۔ محسن اعظم ملیح آبادی کے بارے میں صہبا اختر نے لکھا ہے کہ غزل‘ نظم‘ دوہا اور حمد و نعت پر یکساں قدرت رکھنے والے ملیح آباد کی سرزمین کے عظیم شاعر محسن اعظم ملیح آبادی مبارک باد کے حق دار ہیں کہ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے قارئین ادب میں اپنا نام پیدا کیا‘ ان کی شاعری فکر انگیزی کی حامل ہے‘ وہ اپنا منفرد اسلوب رکھتے ہیں‘ وہ الفاظ و بیان کی باریکیوں اور نزاکتوں سے کماحقہ واقف ہیں‘ ان کی شاعری میں لفظوں کا ذخیرہ محدود نہیں ہے‘ وہ حضرت جوش ملیح آبادی کی طرح کے شاعر ہیں۔ ان کا مطالعہ و مشاہدہ بہت وسیع ہے‘ ان کے جذبات و احساسات میں زندگی پوری طرح رواں دواں ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے محسن اعظم ملیح آبادی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے کلام سے ان کی شاعرانہ ہنر مندی اور قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے اشعار متاثر کن ہیں‘ میرے نزدیک یہ اردو کے سب سے بڑے رباعی گو ٹھہرتے ہیں‘ ان کے دوہے عام روش سے ہٹ کر ہیں لیکن شعری محاسن سے آراستہ ہیں۔ مجید امجد نے لکھا ہے کہ محسن اعظم ملیح آبادی اب تک ساڑھے نو ہزار سے زائد دوہے کہہ چکے ہیں یہ دوہوں کے کثیر الموضوعاتی شاعر ہیں‘ یہ 55 سال سے دوہے کہہ رہے ہیں ان کے یہاں موضوعات کا پھیلائو‘ لفظوں کا برمحل استعمال نظر آتا ہے۔ یہ دوہا نگاروں میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں‘ ان کا اسلوب دوسرے دوہا نگاروں سے منفرد ہے‘ انہوں نے دوہا نگاری میں نئے انداز فکر و نظر کی داغ بیل ڈالی ہے یہ گوشہ نشین شاعر ضرور ہیں لیکن اپنی عظمت و رفعتِ شاعرانہ کے اعتبار سے آفاقی شاعر ہیں یہ ایک دیانت اور بالغ نظر نقاد بھی ہیں ان کے تنقیدی مضامین‘ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ الطاف احمد کی رہائش گاہ پر منعقدہ اس نشست میں رونق حیات نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ نیاز مندانِ کراچی کی جانب سے ’’دوہا آرام‘‘ کے سلسلے میں ایک شان دار پروگرام کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہے۔ تقریب کے دوسرے دور میں محسن اعظم ملیح آبادی کی صدارت میں شعری نشست ہوئی جس کی نظامت الطاف احمد نے کی۔ اس موقع پر محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ یامین اختر‘ سلمان صدیقی‘ پروفیسر صفدر علی انشاء‘ راقم الحروف‘ سعد الدین سعد‘ عبدالمجید محور‘ افروز رضوی‘ شہناز رضوی نے اپنا کلام پیش کیا۔
بزمِ تقدیس ادب کی محفل مسالمہ
حضرت امام حسینؓ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں‘ آپؓ نے کربلا میں حق و باطل کی جنگ لڑی جس میں آپ اور آپ کے رفقائے کار شہید ہوگئے لیکن یزید کی بیعت نہیں کی۔ آپ نے دنیا بھر کے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ غاصب و ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنا عین اسلام ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے بزمِ تقدیس ادب کے ماہانہ مشاعرے میں کیا۔ انہوں نے اپنے کہا کہ آل رسول سے محبت ہماری زندگی کا حصہ ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ذکرِ حسینؓ میں شامل ہو کر ثوابِ دارین حاص کریں۔ اس محفل مسالمہ کے مہمان خصوصی سید عباس حیدر رضوی اور مہمان اعزازی ظہورالاسلام جاوید تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجا دیے۔ صاحب در‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ آصف رضا رضوی‘ عبدالوحید تاج‘ سید فیاض علی‘ سید علی اوسط جعفری‘ چمن زیدی‘ اختر سعیدی‘ عبیداللہ ساغر‘ نسیم الحسن زیدی‘ شاعر حسین شاعر‘ مقبول زیدی‘ کشور عدیل جعفری‘ باقر نقوی‘ رشید خان رشید‘ وقار زیدی‘ انیس جعفری‘ رضی عظیم آبادی‘ ڈاکٹر طاہر حسین‘ جمال احمد جمال‘ عبدالمجید محور‘ پرویز نقوی‘ شکیل وحید‘ آسی سلطانی‘ شارق رشید‘ قاسم عباس زیدی‘ شفیع محسن‘ جوہر عباس‘ شاہین شمس زیدی‘ قاسم ترمذی‘ آفتاب زیدی‘ ۱قبال افسر غوری‘ درپن مرادآبادی‘ صدیق راز‘ یوسف اسماعیل‘ صفدر حسین صفدر‘ عقیل احمد عباسی‘ ذوالفقار حیدر پرواز اور آغا ذیشان نے حضرت امام حسینؓ کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا جب کہ آصف رضا رضوی اور عبدالوحید تاج نے نعت رسولؐ پیش کیں۔ احمد سعید خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ آصف رضا رضوی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ہندکو زبان کے سب سے بڑے شاعر‘ علامہ اقبال کے ہم عصر سائیں احمد علی کی یاد میں مذاکرہ و مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف دانش ور شاعر سعیدالظفر صدیقی نے کی۔ مہمان خصوصی شگفتہ شفیق تھے۔ اعزازی مہمان ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ محسن سلیم تھے اس موقع پر سائیں احمد علی کی فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ سائیں احمد علی ہندکو زبان کے ممتاز صوفی شاعر کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو‘ فارسی میں بھی جو اشعار کہے وہ زمانے کے دست و برد سے نہ بچ سکے مگر ہندکو کلام ان کے مداحوں کی یادداشت میں محفوظ رہا۔ کہا جاتا ہے کہ سائیں احمد علی اپنا کلام شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یہی سبب ہے کہ ان کا تمام کلام محفوظ نہیں ہو سکا تاہم جو کلام دستیاب ہے اس کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائیں احمد علی قادرالکلام شاعر تھے انہوں نے علوم و معارف کے اسرار سے پردہ کشائی کرتے ہوئے عوام و خواص میں یکساں مقبولیت حاصل کی انہیں ہندکو کے مقبول ترین شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس موقع پر مہمان خصوصی شگفتہ شفیق نے کہا کہ سائیں احمد علی ’’ہندکو کے غالب‘‘ کا خطاب حاصل کر چکے تھے یہ خطاب ان کو ان کی شاعری کے کمال اور ذہن و تخیل کی عظمت و رفعت کی وجہ سے ہی دیا گیا مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ غالب کی زبان پر بھی عربی‘ فارسی کا گہرا اثر پایا جاتا ہے اور کچھ یہی حال سائیں کی ہندکو شاعری کا بھی ہے جس میں فارسی تراکیب اور عربی الفاظ کی ایسی بھر مار ہے کہ ہندکو اسلوب کا ٹکسالی پن معدوم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سائیں کی سوچ آفاقی اور مزاج قلندرانہ تھا انہوں نے اپنے باطنی حال کو ملامتی رنگ میں چھپایا ہوا تھا‘ وہ بے نیاز قسم کے انسان تھے۔ سائیں کے فکری عمق میں اتر کر معلوم ہوتا ہے کہ سائیں ایک راز تھا جو کسی پر نہیں کھلا۔ قادر بخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ سائیں احمد علی پشاور میں 1841 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 1930 میں ہوا‘ سائیں نے اپنا تخلص سائیں رکھا تھا اس پر بھی عام خیال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عجز و انکساری کی وجہ سے تخلص اختیار کیا۔ سائین قلندر درویش اور صوفی و عاشق شخص تھے بلکہ ان کی درویشی میں جمالی سے زیادہ جلالی کیفیت پائی جاتی تھی ان کی مختصر سوانح کے جو حالات دستیاب ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر عالم فیض و جنون میں آکر ہر جلالی انداز میں محافط شعر و سخن میں نمودار ہوتے تھے۔ ان کی آواز میں کڑک اور قوت تھی اور وہ اپنے سامنے بڑے سے بڑے استاد کا چراغ نہیں جلنے دیتے تھے۔ آخر میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان کے نامور شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں سعیدالظفر صدیقی‘ شگفتہ شفیق‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ محسن سلیم‘ اقبال سہوانی‘ عارف شیخ عارف‘ تاج علی رعنا‘ دل شاد احمد دہلوی‘ تنویر حسن سخن‘ سجاد احمد سجاد‘ محمد رفیق مغل‘ سید مہتاب شاہ‘ الطاف احمد‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ شجاع الزماں خان‘ محمد شاہد‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ الحاج نجمی‘ شاہد الیاس شامی‘ قمر جہاں قمر‘ جمیل ادیب سید‘ فرح کلثوم اور محمد علی زیدی نے کلام سنا کر سائیں احمد علی کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کیا۔
علم عروض کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ سرور جاوید
علم عروض کی افادیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس علم کے سیکھے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے اردو شاعری کے بہت سے معتبر شعرا علم عروض سے ناواقف ہونے کے باوجود بھی ادبی منظر نامے میں زندہ ہیں۔ شاعری ودیعت الٰہی ہے۔ آمد کے کسی بھی مصرع کو آپ علمِ عروض کے پیمانے پر جانچیے گا وہ بے بحر نہیں ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز نقاد و شاعر سرور جاوید نے آزاد خیال ادبی فورم کے مذاکرے اور مشاعرے کے موقع پر کیا۔ کے ایم سی آفیسر کلب کشمیر روڈ کراچی میں منعقدہ اس پروگرام کی صدارت ممتاز مزاح نگار انوار احمد علوی نے کی۔ مذاکرے کا موضوع تھا ’’شاعری میں علمِ عروض کا مسئلہ‘‘ اس موضوع پر مزید گفتگو کرتے ہوئے سرور جاوید نے کہا کہ علمِ عروض کی بحریں فارسی سے اردو میں آئی ہیں۔ ہماری اردو شاعری میں فارسی کا بہت عمل دخل ہے اگرچہ بحروں کے نام اور اوزان طے شدہ ہیں تاہم ذحاف کی کمی بیشی سے نئی بحریں بنا کر بھی اشعار کہے جا سکتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ علم عروض پر دسترس رکھنے والوں کی شاعری پیچھے رہ جاتی ہے کسی مصرع کی تعطیع کرنے سے آپ ماہر علم عروض نہیں بن جاتے۔ علم عروض شاعری کا ٹول نہیں ہے۔ ردھم کو سمجھ لینا ایک فن ہے جس کے تحت اشعار موزوں کیے جاسکتے ہیں۔ اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے والوں میں احمد سعید فیض آبادی‘ مجید رحمانی‘ سلمان ثروت‘ م۔م۔ مغل‘ افضل ہزاروی‘ حامد علی سید اور غلام علی وفا شامل تھے۔ پروگرام کے صدر انوار احمد علوی مزاح نگار ہیں اور اب تک اس موضوع پر ان کی آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں یہ شریف النفس انسان ہیںاور P.R کے آدمی نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں شہرت نہیں مل سکی۔ انہوں نے آزاد خیال ادبی فورم کے اس پروگرام کے بارے میں کہا کہ سرور جاوید نے علم عروض کی جو تعریف کی ہیں وہ اس سے متفق ہیں نیز آج کی محفل میں بہت اچھا کلام سامنے آیا ہے‘ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں سرور جاوید‘ احمد سعید فیض آبادی‘ غلام علی وفا‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ سیف الرحمن سیفی‘ راقم الحروف‘ افضال بیلہ‘ حامد علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ م۔م مغل‘ نعیم سمیر‘ سلمان ثروت‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ تنویر سخن‘ احمد جہانگیر اور افضل ہزاروی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔