فیضِ عالم بابر
جدید غزل کی ابتدا کا سہرا مرزا غالب کے سر جاتا ہے جنھوں نے غزل کو ــ عورت سے بات چیت کے محدود سانچے سے نکال کر اسے انفس و آفاق سے نتھی کردیا،غالب کی تقلید کرتے ہوئے ان کے ہونہار شاگرد الطاف حسین حالی نے مشہور زمانہ’مقدمہ شعر و شاعری ‘لکھ کر شعراء کے لیے نئی راہیں کھول دیں او رفکری سطح ہی بدل کر رکھ دی۔دیکھتے ہی دیکھتے محبوب کے حسن و جمال سمیت عسرت،ناداری،خوشحالی،زمانے میں ہونے والے تغیر و تبدل ،اصلاحی مضامین سمیت نت نئے افکار غزل کے دامن کو وسیع تر کرتے چلے گئے۔ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی
’جدید شاعری کو بدلتے ہوئے حالات کے نئے تقاضوں نے پیدا کیا ،جب زندگی ایک نئے موڑپر آگئی اور اس کا قافلہ نئی راہوں پر چل نکلا اور اس کے نتیجہ میں جب ایک نئی فضا پیداہوئی ،ایک نئے ماحول کا وجود ہوا تو شاعری بھی بدلی۔ اس میں تغیرات پیدا ہوئے اور وہ ایک انقلابی کیفیت سے دوچارہوئی،بدلتی ہوئی زندگی کے تقاضوں نے شاعری میں ان گنت موضوعات کو پیدا کیا ،ان گنت معاملات و مسائل اس میں پیش کیے جانے لگے‘۔
فی زمانہ جدیدیت نے کچھ ایسا سحر پھونکا ہے کہ ہر نیا شاعر اس کا شکار نظر آتا ہے اور شکار بھی وہ جو اپنے آپ کو خود شکار کے لیے پیش کرے۔غالب سے لیکر تادم ِ تحریر اساتذہ اور سینیئر شعرا نے فکر کی سطح پر روایتی غزل کو جدید غزل میں تبدیل کیا ہے مگر ہمارے نئے شعرا مطالعہ کی کمی،کتابوں سے عدم رغبت، اساتذہ کی عدم دستیابی،انا پرستی،سستی شہرت کے حصول اور نرگسیت کے دام میں گرفتار ہوکر جدیدیت کے حوالے سے بے سمتی کا شکار ہوگئے اور غزل کے نازک مزاج کو سمجھے ،برتے بغیر اسے چوں چوں کا مربہ بنادیا، کسی نے لفظوں کو توڑ مروڑ کر زخمی کرنے ، بھاری بھرکم اور غیر مانوس الفاظ زبردستی ٹھونسنے کو جدید شعر یاجدید غزل سمجھ لیا تو کسی نے معنی و مفہوم سے عاری بے مقصد خیالات کے وزن کردینے کو جدید شاعری اور خود کو اپنے تئیں جدید شاعر سمجھ لیا۔حال ہی میں مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے رستم نامی جدید شاعرکا شعری مجموعہ’’ باوجود ‘‘کے نام سے رنگ ادب کراچی سے شائع ہوا ہے ۔اس مجموعے میں جدید لب و لہجے سے مزین جہاں بہت عمدہ اور بامعنی اشعار بھی ہیں جو پڑھنے والے کو چونکا دیتے ہیں، وہیں ایسے اشعار بھی موجود ہیں جن کے حوالے سے میں نے اوپر بات کی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے دو شعر دیکھیں
ختم ہوتا نہیں کہیں لیکن
ہے کہاں سے یہ آسمان شروع
جوہے معلوم پہلے سے
اُسے ہم کیسے معلومیں
پہلا شعر خوبصورت لفظوں سے بُنا گیا کتنا بامعنی ہے مگر دوسرا شعر صرف ایک لفظ کا حلیہ بگاڑ دینے سے کتنا بے معنی اور فضول ہوگیا،خود شاعر کو بھی ـ ’’ معلومیں‘‘ کا مطلب معلوم نہیں ہوگا۔
240صفحات کی اس کتاب میں حمد نعت کے علاوہ186 غزلیں شامل ہیںجن میں سے 27 غزلیں بحرِ مضارع کی مزاحف شکل(مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن) 25غزلیںبحرِ رمل کی مزاحف شکل(فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) میں 24 غزلیں بحرِ ہزج کی مزاحف شکل(مفاعیلن مفاعیلن فعولن) 17،17 غزلیںبحرِ ہزج مثمن سالم(مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن) بحرِ خفیف کی مزاحف شکل(فاعلاتن مفاعلن فعلن) اور 14 غزلیں بحرِ مجتث کی مزاحف شکل (مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن) کے وزن پر ہیں یہ تمام بحریں رواں دواں ہیں اور ادب کا زیادہ تر ذخیرہ انہی بحروں میں ملتا ہے ۔اس حوالے سے رستم نامی میں کوئی انفراد یت نہیں اور وہ بھی لکیر کے فقیر شعرا کی صف میں براجمان ہیں، البتہ ایک غزل بحرِ منسرح کی مزاحف شکل(مفتعلن فاعلن مفتعلن) کے وزن پر کتاب میں موجود ہے ،اس بحر میں نئے شعرا کی غزلیں کم کم ہی نظر نوازہوتی ہیں۔کتاب میں شاعر علی شاعر کا مضمون اور پسِ ورق انور شعور کی رائے شامل ہے۔
نئے شعرا ء میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ صحتِ الفاظ اور زبان کی باریکیوں کا خیال نہیں رکھتے حالانکہ شعراء کو فن اور اس کے رموز پر پوری توجہ دینی چاہیے کہ یہی شعرا کل اساتذہ کے منصب پر فائز ہوں گے۔رستم نامی تصویر سے ایک شریف النفس انسان دکھتے ہیں مگر انہوں نے اپنی شریفانہ روش کا پاس نہیں رکھا اور عجلت یا غفلت میں لغزشیں کرتے چلے گئے۔چند اشعار دیکھیے۔
وہاں ہم لازما ًخاموش رہتے ہیں
جہاں اظہار کی فوری ضرورت ہے
ردیف ،قوافی کی مجبوری اپنی جگہ مگر زبان کے پیمانے کے مطابق یہاں ہے کی جگہ ہو آناچاہیے تھا۔
مان جائوں اتنی آسانی سے کیوں
میں کبھی تم سے خفا ہوں ہی نہیں
اس شعر میں ہوں کی جگہ ہوا آرہا ہے۔
کسی کو منہ لگاتے ہی نہیں ہم
تو یہ بھی انکساری ہے ہماری
انکساری کوئی لفظ نہیں،درست لفظ انکسار ہے گوکہ عوام الناس کے دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک کر قومی لغت والوں نے بھی انکساری کو لغت کا حصہ بنادیا ہے مگر جو غلط ہے وہ غلط ہے۔
ہمیں جانا توہے اک دن خدا پاس
نہیں کچھ بھی مگر کھوٹا کھرا پاس
خدا پاس زبان نہیں ،خدا کے پاس ہونا چاہیے۔
ہمیں ملتا نہیں وہ ایک پل بھی
جو رہتا ہے ہمارے آس یا پاس
آس پاس کے درمیان میں یا کو شامل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کو ئی شلوار کو ازار بند کے بجائے بیلٹ سے کس لے۔
یہ اداسی یہ بے رخی یہ ستم
نام میرے یہ جائیداد کرو
درست لفظ جایداد یا جائداد ہے جائیداد غلط العوام ہے۔
سمجھنے سے جو قاصر ہیں انھیں ہم کیسے سمجھائیں
ہماری خامشی کو بھی وہ مغروری سمجھتے ہیں
مغروری کوئی لفظ نہیں ہوتا۔
خوشی نے دی ہے کچھ تکلیف لیکن
غموں نے ہم کو بے زارا نہیں ہے
یہ بے زارا کیا ہوتا ہے؟ایسا لگتا ہے رستم نامی نے بے زاری کا شوہر دریافت کرلیا ہے۔
آئینہ دیکھ لیتے ہیں ہم جس گھڑی
ان کا دیدار خود سے کراد یتے ہیں
اس شعر میں آئنہ وزن میں آرہا ہے آئینہ لکھنے سے مصرع ِ اولیٰ بے وزن ہوجائے گا۔
آسان ہوگئیں ہیں مری مشکلیں بہت
مشکل میں پڑگئی ہے مری جان اور بھی
اردو میں جمع در جمع کی ترکیب درست نہیں، یہ عربی زبان کے لیے مخصوص ہے،’ہوگئیں ہیں‘ کی جگہ’ ہوگئی ہیں‘ ہوگا
یہ تیر ٹھیک نشانے پہ بیٹھتے ہیں نہیں
یہ تیر مجھ کو چلائے ہوئے سے لگتے ہیں
پہلے مصرع میں ہیں کی جگہ ہی ہونا چاہیے تھا۔ممکن ہے یہ کمپوزنگ کی غلطی ہو۔
سنا رہے ہو جو افسانہ ہائے دل نامی
ہزار بار سنائے ہوئے سے لگتے ہیں
پہلے مصرع میں ایک افسانہ سنانے کی بات کی اور دوسرے میں ایک سے زائد ،کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
چلے آئو اگر ممکن ہوا تو
کہ جذبے دیرپا ہوتے نہیں ہیں
پہلے مصرع میں ہوا کی جگہ ہو آرہا ہے۔
اپنا اپنا نصیب ہے نامی
کوئی پتھر ہے کوئی ہے یعقوت
یاقوت تو سنا ہے یہ یعقوت کیا بلا ہے؟۔
منظر تو اک سے بڑھ کے یہاں ایک ہے مگر
محفوظ میری آنکھ ذری ہو نہیں رہی
ذری خواتین کی زبان ہے اور وہ بھی اردو بولنے والی خواتین کی،ذری کی جگہ ذرا ہونا چاہیے۔ (جاری ہے)