افروز عنایت
دین اسلام ضابطۂ حیات ہے اسلام اللہ کے بندوں میں محبتیں بانٹنے اور بندھن استوار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ تمام تعلیمات اسلامی اور احکامات الٰہی کا مظہر آپؐ کی سنت ہے۔ آپؐ کی ہر سنت میں خوبیاں اور مصلحتیں پنہاں ہیں ان خوبصورت سنتوں میں ایک پیاری سنت ’’ہدیہ‘‘ دینا بھی ہے۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ ’’ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرو باہمی محبت پیدا ہو گی اور دلوں سے دشمنی اور بغض دور ہو جائے گا۔‘‘ (سبحان اللہ)
ہدیہ اور تحفے ایک دوسرے کو دینے سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے ایک خوبصورت بندھن استوار ہوتا ہے۔ آپؐ اکثر صحابہ کرام کو ہدیہ (تحفے) دیتے رہتے تھے صحابہ کرام بھی آپؐ کو اور ایک دوسرے کو مختلف موقعوں پر تحفے تحائف پیش کرتے تھے باہمی تعلقات کے استحکام کے لیے ہدیہ پیش کرنا بہترین خوبی تصور کیا جاتا ہے۔ بعض موقعوں پر عزیز و اقارب کی ناراضگی یا رنجش تحفے دینے سے ختم ہو سکتی ہے۔
ہدیہ اور تحفہ دیتے وقت کچھ باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے میانہ روی کو مد نظر رکھتے ہوئے سامنے والے کی عمر کو بھی ملحوظ خاص رکھنا ضروری ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ ہدیہ کی قیمت سے زیادہ دینے والے کے دل اور نیت کو دیکھیں کہ وہ آپ کو کس خلوص وہ محبت سے تحفہ پیش کررہا ہے۔
نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اگر مجھے تحفے میں کوئی بکری کا ایک پایا بھی پیش کرے تو میں اسے ضرور قبول کروں گا اگر کوئی دعوت میں ایک پایا بھی کھلائے تو میں اس کی دعوت میں ضرورجائوں گا (ترمذی) اس ارشاد نبی سے واضح ہے کہ خلوص دل سے اگر کوئی آپ کو چھوٹی سی چیز بھی ہدیے میں پیش کر رہا ہے تو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے۔ اور بدلے میں یعنی جو آپ کو محبت سے ہدیے (تحفے) دے رہا ہے آپ بھی ان کی خدمت میں ہدیے دیا کرو آپؐ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے خوشبو کے تحفے کو آپؐ نے پسند فرمایا ہے آج بھی خوشیوں کے موقعوں پر تازہ پھولوں کے تحفے ایک دوسرے کو پیش کیے جاتے ہیں بعض لوگ سامنے والے کے مرتبے کے مطابق ہدیہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں اس لیے ہدیہ دینے سے ہاتھ روک دیتے ہیں کہ کہیں سامنے والے کے سامنے یا تمام لوگوں کے درمیان ہماری بے عزتی نہ ہو یہ غلط روش ہے ایسے موقعوں پر ہدیہ دینے والا اپنی مالی حیثیت کے مطابق ہدیہ دے اور سامنے والے پر بھی لازم ہے کہ اس کے ہدیے کو سر آنکھوں پر رکھے۔
میری والدہ (مرحومہ) نے ایک مرتبہ بتایا کہ بابا کے کارخانہ میں ایک کام کرنے والے کی شادی تھی اس نے ڈرتے ڈرتے اماں کو بھی دعوت میں بلایا اماں نہ صرف اس کی شادی میں شریک ہوئیں بلکہ گائے کے پائے کی دعوت بھی کھا کر آئیں جس پر اس شخص کی خوشی دیدنی تھی اس موقعے پر اماں نے اسے اور اس کی دلہن کو تحفے بھی دیئے، اماں کے اس رویے کی بدولت اس کے دل میں اماں کی عزت اور بڑھ گئی تھی۔ آپؐ کی خدمت میں اگر کوئی پھل وغیرہ کا ہدیہ پیش کرتا تو نہ صرف خود کھاتے بلکہ جو صحابی بیٹھا ہوتا اسے بھی پیش کرتے ایک مرتبہ ایک صحابی نے آپؐ کی خدمت میں پھل (ککڑی) پیش کیا آپؐ نے کھائی تو وہ کڑوی تھی لہٰذا آپؐ نے معمول کے مطابق اپنے ساتھ بیٹھے صحابیوں کو پیش نہ کی صحابہ کرام حیران ہوئے بعد میں کسی صحابی کے پوچھنے پر (جب ہدیہ دینے والے جا چکا تھے) تربیت کے لیے ان سے فرمایا کہ کڑوی تھی میں نہیں چاہتا تھا کہ ہدیہ دینے والے کو شرمندگی ہو سبحان اللہ یہ طریقہ کار تھا آپؐ کا، یہی امت مسلمہ کو تعلیم فرمائی۔
کسی کو اپنے گھر میں کھانے کی دعوت دینا بھی ہدیہ میں شمار ہوتا ہے افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کے یہاں دعوت میں شرکت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں بلاوجہ، اگر کوئی عذر ہو تو انسان معذرت کر سکتا ہے مگر بغیر عذر کے کسی کی محبت کو اس طرح دھتکارنا صحیح نہیں ہے چاہے آپ دعوت میں جا کر دو نوالے ہی کھائیں لیکن شرکت کریں میری والدہ اکثر گھر میں دعوت کا اہتمام کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ خوش نصیبی ہے کہ کوئی آپ کو خلوص اور پیار سے اپنے گھر مدعو کرے اور خوش نصیبی ہے میزبان کی کہ اللہ نے اسے توفیق عطا کی کہ وہ کسی کی دعوت کر سکتا ہے۔
اپنے گھر میں اور آس پاس اپنے ساتھیوں کو خوشیوں کے موقعوں پر تحفے تحائف کا سلسلہ جاری رکھنا چاہے ہمارے اسکول کی میڈم اکثر موقعوں پر ’’کتاب‘‘ کا تحفہ دیتی تھیں ان کے دی ہوئیں مختلف کتابیں آج بھی میرے گھر میں موجود ہیں اس طرح وہ ہمیشہ میرے دل میں رہتی ہیں۔ عید وغیرہ خوشیوں کے تہوار میں اس موقعے پر بہو، بیٹیوں کو نواسے نواسیوں، پوتے پوتیوں کو ہی صرف تحفے نہیں دیئے جا سکتے ہیں بلکہ بزرگوں کو بھی اس خوشی کے موقعوں پر یاد رکھنا چاہیے یہ الگ بات ہے کہ بچے تحفے لے کر زیادہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے دادا عید کے موقعے ہم سب بہن بھائیوں، اماں اور چاچی کو بھی پانچ پانچ، دس دس روپئے عیدی دیتے، اماں ہمیں کہتیں کہ تم لوگ خوش نصیب ہو کہ تمہارے دادا تمہیں اتنے پیار سے عیدی دے رہے ہیں ان کی یہ عیدی بڑی با برکت ہے تم سب کے لیے، یعنی اماں ہمیں باور کراتی رہتی تھیں کہ اس عیدی کی ہمارے نزدیک کیا قدرو منزلت ہونی چاہیے اور اسی تربیت کا حصہ ہے کہ میں ایسے موقعوں پر اپنے سے چھوٹوں کو تحفے دیتی رہتی ہوں میری پنشن کے پیسوں سے میں اپنے پوتی، پوتے، بہو، بیٹی (گھر والوں) کو کبھی تحفے اور کبھی ہوٹل میں کھانا کھلا دیتی ہوں اس موقع پر تمام بچے بار بار میرا شکریہ ادا کرتے ہیں ان کے چہروں کی خوشی میرے لیے سب سے بڑا ہدیہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کسی کو مسکرا کر دیکھنا، کوئی نیکی کی بات یا نصیحت کرنا بھی ہدیہ ہے۔ اگر ہم مالی طور پر کسی تحفے خریدنے کی حیثیت میں نہیں ہیں تو کم از کم کسی دوست کو کسی عزیز کو مسکرا کر کوئی اچھی بات کرکے اس کے دل کو مسرت دے سکتے ہیں کسی کو پیارا نام دے کر اسے خوشی دینا بھی ہدیہ سے کم نہیں ہے کسی کو پیاری دعا دینا بھی ایک بڑا تحفہ ہے میں آج بھی ماضی کی طرف دیکھتی ہوں جہاں میرے والدین کی دعائیں اور پیار و محبت کی صدائیں بازگشت کرتی سنائی دیتی ہیں تو میں بے اختیار کہہ بیٹھتی ہوں کہ بیشک میرے والدین کی یہ دعائیں اور محبت میرے لیے بہت بڑا تحفہ تھیں جو آج بھی مجھے کام آ رہیں ہیں۔
بچوں کی تربیت میں بھی اس چیز کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے دوستوں وغیرہ کو خوشی کے موقعوں پر وہ تحفے تحائف دیں، خصوصاً عید وغیرہ کے موقعوں پر گھر میں کام کرنے والوں کے بچوں کو اپنے بچوں کے ہاتھوں سے تحفے دلوائیں بچوں کو تحفے تحائف دیتے وقت ان کی پسند اور عمر کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ مجھے عدینہ (پونی) کو جب بھی کوئی تحفہ دینا ہوتا ہے اس سے ضرور پوچھ لیتی ہوں کہ میں اس مرتبہ اسے کیا تحفہ دوں اس طرح نہ صرف یہ کہ بچے خوشی محسوس کرتے ہیں بلکہ ان میں اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کی پسند اور رائے کو اہمیت دی گئی ہے۔
بے شک میرے نبی کی ہر سنت کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت اور خوبی ہے جو معاشرتی تعلقات میں استحکام بخشتی ہے۔ اللہ ہمیں سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔