ڈاکٹر سید اسلم
معدہ کا اصل فعل غذا کو قابلِ ہضم اور قابلِ جذب شے میں تبدیل کرنا ہے۔ ہماری غذا مشتمل ہے نہایت مختلف النوع، سخت اور متفرق ماہیت کی اشیاء پر، جن کو معدہ یکساں اور یکجان مواد یا کیموس میں تبدیل کردیتا ہے۔ معدہ کے فعل کا انحصار لعابِ معدہ اور حرکتِ معدہ پر ہے۔ فکر و پریشانی سے حرکتِ معدہ سست ہوجاتی ہے۔ اگر پریشانی زیادہ ہو تو یہ حرکت بالکل بند بھی ہوسکتی ہے، اور یہی اثر معدہ میں افزائشِ لعاب پر بھی ہوتا ہے۔ وہ حالات کے تحت کم بھی ہوسکتی ہے اور رک بھی سکتی ہے، اس صورت حال میں معدہ کے فعل میں خلل پڑتا ہے اور ہضمِ غذا کا عمل تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ اکثر افراد جو معدہ کے منہ پر بھاری پن، جلن اور بدہضمی کی شکایت کرتے رہتے ہیں وہ اسی متفکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں ہر قسم کے معائنے، یہاں تک کہ ایکس شعاعی مطالعے پر بھی کسی قسم کی خرابی کا پتا نہیں چلتا۔ زیادہ تر تو لوگوں میں جس خرابی کا پتا چلتا ہے وہ حرکتِ معدہ کی سستی ہے۔ معدہ کو اپنا فعل سرانجام دینے اور غذا کو ہضم کرنے کے لیے چار چھ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ ہاضمہ کے فعل کا آغاز منہ میں شروع ہوجاتا ہے۔ منہ میں کچھ نشاستہ لعابِ دہن کے زیراثر شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے، پھر منہ کا لعاب جو غذا کے ساتھ معدہ میں پہنچتا ہے وہ معدہ میں کچھ دیر تک اپنا عمل جاری رکھتا ہے۔ معدہ میں غذا حرکتِ معدہ سے اس طرح پیسی جاتی ہے جس طرح چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کوئی شے پیسی جائے۔ ساتھ ساتھ معدہ کے تیزاب اور لعاب کا بھی اس غذا پر عمل ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ تمام غذا یکساں اور یکجان مواد یا کیموس میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اب یہ معدہ سے آنت میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے۔
جب معدہ اس عمل سے فارغ ہوجاتا ہے تو کچھ دیر سستاتا ہے، یہ جسم کے تمام اعضاء کا دستور ہے کہ جب ایک عضو مصروفِ عمل ہو تو دوسرا حالتِ آرام میں ہوتا ہے۔ یہ وقفۂ آرام و کام، ہر عضوِ جسم کا مختلف ہے۔ مثلاً دل کے آرام و کام کے وقفے قلیل ہیں اور معدہ کے طویل۔ جب معدہ کام کے بعد آرام کرتا ہے تو اس کے ہمسایہ اور معاون اعضاء یعنی لبلبہ اور چھوٹی آنت کچھ عرصے بعد تک اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں، ان اعضاء کے فعل اور اس کے علاوہ ان کے آرام اور کام کے وقفوں کے دستور میں فرق نہ صرف حالتِ مرض میں پڑتا ہے بلکہ جذباتی ہلچل اور مزاج کی برہمی کی کیفیت میں بھی معدہ کا فعل متاثر ہوتا ہے۔ یعنی معدہ بجائے آرام کرنے کے، سخت حرکت میں رہتا ہے اور اس طرح غذائی اجزاء آنتوں میں داخل نہیں ہوتے بلکہ معدہ میں رہتے ہیں اور یہ شخص بدہضمی کی شکایت کرتا ہے۔
معدہ کا فعل نہ صرف نظامِ ہضم کے امراض سے متاثر ہوتا ہے بلکہ ہجومِ جذبات سے بھی۔ اگر انسان مغلوبِ جذبات ہوجائے یا سخت جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوجائے، یا کسی وجہ سے اس پر شاق یا صدمہ گزرے تو معدہ کا فعل بالکل معطل ہوسکتا ہے۔ جو لوگ نفسیاتی اور جذباتی طور پر متوازن شخصیت نہیں رکھتے اُن کے معدہ میں تیزاب کی افزائش باافراط ہوتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا معدہ تنا ہوا اور اکڑا ہوا رہتا ہے جس سے تیزاب کی پیدائش زیادہ ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں معدہ میں تیزاب کی شدت اور کثرت ہوسکتی ہے جس کی زد معدہ سے زیادہ اس مقام پر پڑتی ہے جہاں معدہ کا اتصال چھوٹی آنت سے ہوتا ہے۔ چونکہ معدہ کا زیریں منہ بھی تنا ہوا ہوتا ہے اور بند بھی، اس وجہ سے آنتوں کے دافع تیزابیت لعاب بھی معدہ میں داخل نہیں ہوسکتے، اور اس طرح یہ لعاب معدہ کے تیزاب کو معتدل نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں میں معدہ اور چھوٹی آنت کا السر (قرح) نہایت عام ہے۔ جب تیزابیت بھی زیادہ ہو اور قرحِ معدہ بھی ہو تو معدہ کے منہ پر سخت جلن اور درد ہوتا ہے۔ اس طرح کے لوگ طبیبوں کے پاس بکثرت آتے ہیں اور ان میں سے اکثر کو علتِ مرض صرف فکر و پریشانی ہوتی ہے۔
مضطرب اور جذباتی لوگ بے چینی کی حالت میں ہوا اندر نگلتے رہتے ہیں، اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اس نقصان دہ عادت کو خود ہی ترک کردیں۔ ان لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ان کے معدہ میں ہوا ہے، گو بعض دفعہ بادی النظر میں پیٹ پھولا ہوا معلوم ہوتا ہے، اس کے باوجود ڈکاریں لینا کوئی حل نہیں۔ ان لوگوں کو بھوک بھی نہیں لگتی۔ ایسا شخص بہت جلد کھانے سے سیر ہوجاتا ہے اور زیادہ تر ڈکاریں لیتا رہتا ہے۔ جو شخص آگے ہی سے غیر متوازن شخصیت کا حامل ہو وہ اس خود کردہ بدہضمی اور ڈکاریں لینے کی عادت کی وجہ سے مزید اپنے پیٹ کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہوجائے گا۔
تشنج بواب میں معدہ کا نچلا منہ تنگ اور سخت ہوکر بند ہوجاتا ہے کہ اس جگہ جو سخت عضلاتی فیتے ہیں انہوں نے اس جگہ کو کَس کر بند کردیا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اس کی سب سے عام وجہ جذباتی، نفسیاتی اور ذہنی کشمکش ہے، چاہے وہ خوف و فکر کی وجہ سے ہو، یا ناراضی کی وجہ سے۔ بواب، معدہ کا زیریں منہ ہے جو چھوٹی آنت کے اول حصے میں کھلتا ہے۔ جب اس جگہ تشنج ہوتا ہے تو غذا کا سفر آگے کی طرف رک جاتا ہے اور یہ تعطل چند لمحوں سے لے کر چند گھنٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ ایک شخص میں یہ تشنج پورے چوبیس گھنٹے رہا، اور جب اس شخص نے الٹی کی تو وہ غذا نکلی جو اس نے چوبیس گھنٹے قبل کھائی تھی۔ اس شخص میں رنجیدگی کا باعث ایک قریبی عزیز کی موت تھی۔ تشنج بواب میں دردِ معدہ، بھاری پن، نفخ، ڈکاریں، کلیجے کی جلن، متلی، قے اور دردِ سر ہوتا ہے، اشتہا ختم ہوجاتی ہے۔ پچیس سے پچاس فیصد تک جو لوگ طبیبوں کے پاس بدہضمی اور معدہ کی شکایت لے کر جاتے ہیں یہ لوگ دراصل خللِ اعصاب میں مبتلا ہیں نہ کہ خللِ معدہ میں۔ یہ بات بلاخوفِ تردید اور بغیر کسی مبالغہ کے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمی جو معدہ کی شکایتوں میں مبتلا ہیں ان میں، اس کا سبب ان کا اپنا مزاج ہے۔ ان لوگوں کی عام تکالیف معدہ گم ہے، پیٹ بھاری ہے، گیس ہے، ڈکاریں آتی ہیں، بھوک نہیں ہے، کلیجہ جلتا ہے، متلی اور قے ہے، تمام پیٹ میں دکھن ہے، ریاح خارج نہیں ہوتی، قبض ہے… وغیرہ وغیرہ ہیں۔ بعض دفعہ قبض اور اسہال یکے بعد دیگرے ہوتے رہتے ہیں، اور یہ سب ان کی اپنی بدمزاجی کی وجہ سے ہے اور اس کا علاج اپنے نفس کو ٹٹولنا ہے، نہ کہ ماہر ہضمیات کے پاس جانا۔
حالات اور ہاضمہ
بدمزاجی کے سبب سے جو بدہضمی ہوتی ہے وہ اچھے خاصے تجربہ کار طبیبوں کو متعجب کرسکتی ہے اور اس سلسلے میں چند واقعات کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔
ایک تاجر کو کاروبار میں اتنا سخت خسارہ ہوا کہ وہ جی چھوڑ کر بیٹھ گیا، اس کو یہ احساس مارے ڈالتا تھا کہ اب اس عمر میں اس خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ نتیجتاً اس کو سوء ہضم کی شکایات پیدا ہوگئیں۔ یعنی معدہ کے نچلے منہ کی بندش ہوگئی اور بالآخر معدہ و آنتوں سے متعلق جس قدر شکایات ہوسکتی تھیں ان کا ظہور ہوگیا۔ بھوک کم ہوگئی، خوراک کی مقدار گھٹ گئی، غذا کا سفر معدہ سے آگے کی طرف سست ہوگیا، غذا کی کمی کے ساتھ وزن بھی کم ہونا شروع ہوگیا، نتیجتاً خون کی کمی اور دوسرے ضروری اجزاء کی جسم میں قلت پیدا ہوگئی۔ اس مرحلے پر یہ شخص سخت خوفزدہ ہوگیا اور اس خیال میں مبتلا ہوگیا کہ اس کو سرطان کا مرض لاحق ہوگیا ہے، اس کے ذہن میں اس بات کا ذرا سا تصور بھی نہیں تھا کہ ان شکایات کا خسارۂ تجارت سے بھی کوئی تعلق ہوسکتا ہے، بلکہ سرطان کے متعلق اُس کا خیال رفتہ رفتہ یقین میں تبدیل ہوگیا، اس کے خیال میں کسی اور تکلیف کے سبب اس قدر حالت غیر نہیں ہوسکتی۔ اس طرح یک نہ شد دو شد، یہ شخص دو پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا۔ ایک کاروباری پریشانی، دوسرے سرطان کا خوف۔ اس مرحلے پر اُس نے طبی مشورہ کیا، جب طبیب نے تفصیلی معائنے اور تفتیش کے بعد اُسے یہ بتایا کہ اُسے کوئی قابلِ ذکر مرض نہیں ہے اور سرطان کا تو شائبہ بھی نہیں ہے تو اس شخص کو پہلے تو بالکل یقین نہیں آیا، اور جب قدرے تامل سے یہ بات اس کی سمجھ میں آئی تو اس پر فوری طور پر اطمینان کی کیفیت طاری ہوئی۔ اسے مزید یہ بتایا گیا کہ اس کے تمام عوارض کی بنیاد اس کے اپنے اعصاب میں پوشیدہ ہے، اور سبب اس کا وہی خوف، فکر اور پریشانی ہے جو کاروبار میں گھاٹے کی بنا پر جان کا جنجال ہوگئی ہے۔ اس مریض کو چند معمولی ادویہ دی گئیں اور غذا کے متعلق کچھ ہدایات کی گئیں۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ دوبارہ یہ شخص مطب میں وقت سے پہلے آگیا، اور جیسے ہی کمرۂ ملاقات میں داخل ہوا تو ضبط نہ کرسکا اور بے اختیار اس کے آنسو نکل آئے۔ اس نے ایک سانس میں بغیر دم لیے ہوئے کہہ ڈالا کہ ’’میری تمام شکایتیں اور تکلیفیں رفع ہوچکی ہیں، وزن دس کلو بڑھ گیا ہے۔ جب پچھلی دفعہ آیا تھا تو موت کا اس قدر یقین تھا کہ میں نے اپنی جائیداد اور کاروبار بچوں کے نام منتقل کرنے کے لیے ابتدائی اقدامات شروع کردیے تھے، اب میں نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔‘‘ آخر میں یہ بات بتانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں کہ یہ شخص بعد میں بالکل چاق و چوبند ہوگیا۔
ایک مرتبہ ایک ایسی عورت نے مشورہ لیا جو کئی دن سے انتفراغ کررہی تھی اور حالت یہاں تک خراب ہوچکی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ تمام تفتیش کے باوجود کوئی قابلِ ذکر سبب اس کی الٹیوں کا نہ مل سکا۔ اس کی جان برقرار رکھنے کے لیے غذا بشکل گلوکوز پانی، رگوں کے راستے دی جارہی تھی۔ اس سے استفسار پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ اس کی تکلیف کی بنا اس کی اپنی مزاجی کیفیت اور ذہنی افتاد ہے اور ہمیں مجبوراً اس سے صاف صاف کہنا پڑا کہ الٹیوں کی وجہ وہ خود ہے اور جس طرح اس نے یہ شروع کی ہیں اسی طرح اس کو ختم بھی کرنا ہوگا، اور اس کو خبردار کیا گیا کہ اس کی جان کا دارومدار اُس غذا پر ہے جو رگ کے ذریعے اس کے جسم میں داخل کی جارہی ہے اور رگ کے ذریعے یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اس کی تمام علامات درست ہوگئیں اور یہ آخری دھمکی کارگر ثابت ہوئی کہ اس نے کھانا پینا شروع کردیا۔
ایک اور واقعہ اس سے ملتا جلتا ہے کہ ایک بیمار کو پیٹ کی جراحی کے بعد مسلسل دس روز سے بذریعے رگ غذا دی جارہی تھی کیونکہ اس کو مسلسل الٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ جب طبیب کو اس بات کا مکمل یقین ہوگیا کہ کوئی داخلی خرابی بیمار میں نہیں ہے تو اس پر صورت حال صاف صاف واضح کردی گئی اور اس سے پوچھا گیا کہ اس کو کسی خاص شے کی خواہش ہے؟ اس کی خواہش کے مطابق باریک نرم قیمے کے کباب اس کو دیے گئے جو اس نے شوق و رغبت سے کھائے، نہ الٹی ہوئی اور نہ کوئی اور تکلیف پیدا ہوئی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کھانا کھاتے ہی موٹر گاڑی کے طویل سفر پر روانہ ہوگیا اور دورانِ سفر جو کچھ کھانا کھایا تھا وہ بغیر ہضم ہوئے الٹی ہوگیا، اور اس کے بعد طبیعت پرگرانی رہی۔ طبی مشورے پر شبہ ہوا جو بعد میں صحیح ثابت ہوا کہ اس شخص کے استفراغ کی وجہ حادثے کی فکر اور پریشانی ہے جو اس شخص کو گاڑی چلانے کے سبب کچھ اپنے اور سواریوں کے متعلق تھی، اس فکر نے معدہ کے نچلے منہ پر بندش (تشنج بواب) پیدا کردی تھی۔
ایک دفعہ ایک بیمار نے اپنی آشفتہ مزاجی کے سبب سے طبیب کو بھی منغض کردیا۔ یہ شخص بحالتِ سفر تھا، جب مطب میں آیا تو کسی طرح بیٹھنے پر راضی نہیں ہوتا تھا بلکہ مسلسل قفس میں بند جانور کی طرح کمرے کے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے جارہا تھا اور باوجود اصرار کے اس نے صحیح جواب دینے سے گریز کیا اور صرف یہ کہتا رہا کہ ’’مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ میرا صدر دفتر مجھے اس بنا پر برخاست نہ کردے کہ میں ان کے لیے کوئی کاروبار فراہم نہیں کرسکا ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس شخص کی بدہضمی اور ریاح کی افزائش، اس کی اپنی فکر و پریشانی اور خوف کا مظہر تھی۔
چند سال قبل کا ذکر ہے کہ ایک مشہور طبیب کو جو گھر سے ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر تھا، یہ اطلاع ملی کہ اس کے دونوں بچے سنگین مرض خناق میں مبتلا ہوکر متعدی امراض کے شفاخانہ میں داخل ہیں اور ان دونوں کی حالت نازک ہے۔ یہ طبیب اُس وقت بذریعہ موٹر گاڑی سفر کررہا تھا۔ ان کی حالت پریشانی، فکر اور خوف کے سبب سے ناگفتہ بہ ہوگئی۔ یہ طبیب جو اس اطلاع کے ملنے سے قبل بالکل ٹھیک تھا اب ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتا تھا، اور جو بھی کھاتا وہ قے کردیتا تھا کیونکہ اس کا معدہ سخت حالت انتشار میں تھا۔
ایک نوجوان آدمی کی بیوی شادی کے بعد بھی مدرسہ میں پڑھاتی رہی، شادی کے چند سال بعد تک ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دونوں کام پر جاتے تھے اور جب رات کو تھکے ہارے آتے تھے تو کھانا بھی خود ہی تیار کرنا پڑتا تھا، اس کے علاوہ گھر کی صفائی بھی، بعض اوقات گھر کے کپڑے بھی دھونا پڑتے تھے، ان کے پاس آرام و سکون اور تفریح کے لیے کوئی وقت نہیں تھا، اس کے نتیجے میں بے چینی، بیزاری اور چڑچڑاپن پیدا ہوا۔ بالآخر شوہر زیادہ عرصہ تک اس غیر فطری طرزِ زندگی کو برداشت نہیں کرسکا اور نتیجتاً سوء ہضم میں مبتلا ہوگیا اور یہ بدہضمی راسخ ہوتی گئی۔ میاں بیوی میں ہر وقت چپقلش، رنجش، بحث اور تکرار رہنے لگی۔ اس مرحلہ پر شوہر نے طبی مشورہ لیا اور تفتیش پر کسی خرابی کا پتا نہیں چل سکا، بہرحال اس شخص نے خود ہی یہ بات مان لی کہ اس کی تکالیف کا سبب اس کا اپنا مزاج اور غیر فطری طرز ِزندگی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مزاج، جذبات، خیالات، واقعات اور حادثات ہاضمہ کو متاثر کرتے ہیں۔