گل اندام خٹک
ہماری والدہ ماجدہ جب بھی ہمارے ہاتھ میں موبائل فون دیکھتی ہیں انہیں وہ دن یاد آجاتے ہیں جب لوگ ہاتھ میں بٹیرے لئے گھوم رہے ہوتے تھے۔ یہ بٹیرے آپ کو آج کل ہر ایک کے ہاتھ میں نظر آئیں گے۔ کسی کے لیے دوسرے سے رابطے کا ذریعہ، کسی کے لئے مشغلہ، کسی کے لیے چلتا پھرتا کاروبار، تو کسی کے لیے ٹشن دکھانے کا سامان۔ دوسروں کے لیے اس کا کوئی بھی مطلب ہو، والدین کے لیے یہی بچوں کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔ یہ اور بات ہے کے آج کل کے والدین خود اس مرض کے شکار ہیں۔
ایک دہائی کے اندر اندر ٹیکنالوجی کی دنیا میں آنے والی ڈرامائی تبدیلوں نے معاشرے کی سوچ اور طرز زندگی کی صورت پلٹ کے رکھ دی ہے۔ اس کے مثبت اثرات میں گھر بیٹھے کارونار کرنا، دور دراز کے علاقوں سے رابطہ اور خبردار رہنا، کام کی رفتار میں تیزی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے عوض ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمیں ان گنت نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ ان میں سے ایک نقصان کا سامنا چند روز پہلے میرے بھائی کو ہوا۔ موصوف کو والدہ نے دن کے تقریباً 10 بجے سودا لانے کو کہا حضرت ’’ابھی جاتا ہوں‘‘ کہہ کر دو گھنٹے تک موبائل کی اسکرین پہ نظریں جمائیں، کے پیڈ کو طبلے کی مانند پیٹتے رہے۔ جب اماں جان نے طیش میں آکے جوتے سے ڈرون حملہ کیا تب بھائی صاحب کو ہوش آیا، سودا لائے اور گھر میں کھانا بنا۔
رات کو ہاسٹل کا منظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ کوئی فرش پہ بیٹھی دیوار سے ٹیک لگائے لائیو ڈرامہ دیکھ رہی ہے تو کوئی کونے میں بیٹھی سوشل میڈیا سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ کوئی سیڑھیوں پر بیٹھی واٹس ایپ پہ بات کررہی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قابل رحم وہ لڑکیاں ہیں جو موبائل ہاتھ میں لیے سگنلز کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہوتی ہیں تاکہ وہ ٹھیک سے بات کر سکیں پھر بھی وہ اکثر کہتی سنائی دیتی ہیں تو ’’کیا اب بھی آواز نہیں آرہی، اب کیا تمہارے لیے ٹاور پر چڑھ جائوں‘‘۔
کسی روایتی پھپھو کے اندازے کے مطابق یہ بے چاریاں جیسے ہی ’’کیمرے سے پیا گھر‘‘ پہنچتی ہیں ان کے ساتھ’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل‘‘ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ ایک بار ہم 3 دوست گول گپے کھانے گئیں۔ آڈر دیتے ہوئے غلطی سے منہ سے نکل گیا ’’کاکا! ہم 3 گول گپے ہیں‘‘۔ اس وقت تو بے چاری کا جو مذاق اڑا سو اڑا۔ ہاسٹل پہنچ کے واٹس ایپ دیکھا تو تیسری دوست نے اس بات کا اسٹیٹس بنا کر لگایا ہوا تھا۔ اب حالات ایسے ہیں کے لوگوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں اسٹیٹس کے نام پر بریکنگ نیوز نہ بن جائیں۔
تیزی سے بدلتے اس دور میں اگر نہیں بدلے تو وہ والدین ہیں۔ انہیں آج بھی اپنے بچوں سے شکایات ہیں حالانکہ آج کل کے بچے انتہائی امن پسند ہوگئے ہیں۔ شرافت سے اپنے لیپ ٹاپ اور فون لیے بیٹھے رہتے ہیں جب کہ ہمارا سارا دن ٹیپوگرم، مارکٹائی، کرکٹ، آنکھ مچولی، پڑوسیوں کے گھروں سے امبیاں توڑنا، ان کے گھر کی گھنٹی بجا کے بھاگ جانے جیسی تخریب کاریوں میں گزر جاتا۔ آدھی چوٹیں کھیل سے لگتیں اور آدھی اماں ابا کی جلی کٹائی سے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے ہمارے گھر میں کچھ اس طرح جگہ بنائی کہ لالٹین کی جگہ جنریٹر اور پھر یو پی ایس نے لے لی۔ پہلے سارے گھر کے لیے پی ٹی سی ایل کا فون تھا۔ اب ہر ایک کے ہاتھ میں اپنا اپنا اسمارٹ فون ہے۔ ہم نے پنگا کے نیٹ کارڈ سے لے کر موبائل ڈیٹا کارڈ کا وقت دیکھا ہے۔ ایک ساتھ سونے جاگنے، کھیلنے کودنے والے بہن بھائی جب لمبے عرصے بعد اکھٹا ہوتے ہیں اور اپنا اپنا لیپ ٹاپ اور موبائل لے کے بیٹھتے ہیں تو مجھے وہ دن بہت یاد آتے ہیں جب اتنی سہولیات تو نہیں تھیں مگر ہم ساتھ ہنستے تھے۔ لالٹین کی روشنی اپنے اسکول کا کام کرتے تھے۔ خود پر فخر کرنے کو یہی کافی ہوتا تھا کہ فون کو تیسری گھنٹی سے پہلے اٹھایا اور بات کی ہے۔ جب انٹرنیٹ کے علاوہ بھی کمپیوٹر کو چلانا ہمارے لیے بہت بڑی بات تھی۔ یادون سے نکل کے جب نظر آنکھوں کے سامنے کے منظر پہ پڑتی ہے جہاں سب انٹرنیٹ سے مستفید ہو رہے ہیں تو بے ساختہ ایک شعر یاد آجاتا ہے۔