راحت نسیم روحی
’’السلام علیکم‘‘! فاطمہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی ماں کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام! آگئی میری بیٹی…‘‘ سلمیٰ ہاتھ صاف کرتے ہوئے کچن سے باہر نکلی۔ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ بیٹی کا استقبال کیا۔
’’جی امی جان… بہت بھوک لگی ہے، بس جلدی سے کھانا دے دیں۔‘‘
’’بیٹا کھانا تو تیار ہے، تم بیگ رکھ کر ہاتھ منہ دھو لو…‘‘
’’یہ کیا… آج پھر آلو گوبھی!کیوں پکاتی ہیں آپ ایسی چیزیں جو ہمیں اچھی نہیں لگتیں؟‘‘
فاطمہ نے سالن کو دیکھ کر ہی شور مچا دیا۔
سلمیٰ اس کے پاس آئی اور پیار سے بولی:’’بیٹا! یہ سبزیاں تو صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ خاص طور پر اسکول جانے والے بچوں کے لیے۔‘‘
’’امی پلیز نہ کریں یہ، طاقت والی خوراک اچھی ہوتی ہے لیکن نوڈلز اور پیزا میں جو مزا ہے، وہ اس آلو گوبھی، کریلے، کدو میں کہاں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے میں چلی گئی۔
سلمیٰ اداس نظروں سے اس کو جاتا دیکھتی رہی۔ وہ جانتی تھی یہ سمجھے والی نہیں۔ ہاں البتہ شام کو سوکر اٹھے گی تو موڈ بہتر ہوگا۔ پھر کھانا بھی کھا لے گی۔ سلمیٰ نے عصر کی نماز ادا کی اور کچن میں مصروف ہوگئی۔
ابھی دوسرے بچوں علی، عائشہ اور ابوبکر کو آنا تھا۔ آج ان کی چھٹی تاخیر سے ہونی تھی۔
نوڈلز کا پانی ابل رہا تھا۔ اس کو لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر بھی ایسے بلبلے بن رہے اور ٹوٹ رہے ہیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا الجھن کیا ہے! اسی اثنا میں باقی بچے بھی آگئے۔
کوئی بہت خوش، کوئی خفا خفا۔ ہر بچے کا اپنا مزاج اور انداز… لیکن سب کا محور ماں تھی۔ اسی سے سب شکایتیں۔
علی کو غصہ تھا کہ امی نے سرخ لائنوں والی شرٹ کیوں پہنائی۔ سب لڑکے اسے لڑکی کہہ کر چھیڑتے رہے۔
وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ اس نے بچوں کو اسکول کا کام کرنے کو کہا اور ساتھ ہی مغرب کا وقت ہوگیا۔ سلمیٰ کو بہت جلدی تھی۔ ایک تو بچوں کو پڑھانا، شام کے کھانے کی تیاری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے نماز ادا کی۔ فاطمہ اور عائشہ نے بھی اس کے ساتھ نماز پڑھی۔ علی اور ابوبکر ماں کی غیر موجودگی میں لڑائی میں مشغول ہوگئے۔ وہ جلدی جلدی اٹھی، دونوں کو چھڑایا۔ اتنی دیر میں اس کے شوہر بھی آگئے۔ باہر سے نجانے کس موڈ میں آئے تھے۔ علی کے کھلونے سے ٹھوکر لگی اور گھر کے شور نے مزید موڈ خراب کردیا۔
پہلے تو بآواز بلند بچوں کو ڈانٹا، پھر سلمیٰ سے مخاطب ہوئے ’’کیا کبھی ممکن ہے ہمارا گھر بھی صاف ہو؟ جب دیکھو، جہاں دیکھو، چیزیں بکھری پڑی ہیں۔‘‘
سلمیٰ کی سارا دن کی محنت! بلبلے پھر بنے اور ٹوٹنے لگے۔ اس نے ہر بات کو نظرانداز کرتے ہوئے مسکرا کر شوہر کو سلام کیا اور ان کے جوتے اور کپڑے لینے کمرے میں چلی گئی۔
اکرم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بھی سخت غصے میں تھا۔ غصہ شاید کم ہوجاتا لیکن اس کی نظر کھڑکی پر پڑی۔ اس نے سلمیٰ کو آواز دی۔ سلمیٰ صرف اتنا ہی کہہ سکی ’’جی‘‘۔ ’’تمہیں صبح کہا تھا کہ شیشے پر لگے اسٹیکر صاف کردینا۔‘‘
’’جی وہ بس وقت نہیں ملا۔ ابھی کھانے کے بعد کردیتی ہوں۔
سارا دن گھر میں کرتی کیا ہو؟ شکر کرو بی بی گھر میں ہو۔ دوسری عورتوں کو دیکھو، نوکری بھی کررہی ہیں اور گھر کے کام بھی‘‘۔ اکرم نے اپنا تبصرہ کیا۔
وہ سر ہلاتے ہوئے باہر آ گئی اور کچن میں چلی گئی کہ کہیں کھانے میں مزید تاخیر ماحول کو مزید خراب نہ کردے۔
کھانے سے فارغ ہوکر اسکول کے کام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ابوبکر کے سوال آج پھر غلط تھے۔ باقی بچے ذہین تھے لیکن نجانے کیوں ابوبکر حساب کے سوال غلط کررہا تھا۔ وہ اسے روزانہ پڑھاتی تھی لیکن اسے کوئی فرق محسوس نہیں ہورہا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کرے۔ اکرم سے بات کرتی تو وہ غصے کا تیز تھا۔ ابوبکر سہم سا جاتا۔ جو اس کو آتا ہوتا وہ بھی بھول جاتا۔ بلبلے بنتے اور ٹوٹ جاتے۔
سارے کاموں سے فارغ ہوکر جب وہ دیر سے اپنے بستر پر لیٹی تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ پھر نجانے کب آنکھ لگ گئی، لیکن اس کی طبیعت کی بے چینی نے اسے جلدی اٹھا دیا۔ بیٹی کا آخری پیپر تھا۔ باقی سب سورہے تھے۔ وہ اٹھی، وضو کیا اور رب کے حضور کھڑی ہوگئی۔ کبھی قیام، کبھی رکوع، کبھی سجدہ۔ رب کے سامنے بندھے ہوئے ہاتھ، زبان پر قرآن کی آیات۔ دل کا گداز آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ جب سکون ملا تو پھر سے سوچنے لگی، یہ بنتے ٹوٹتے بلبلے کیا ہیں؟ یہ بے چینی کیوں ہے؟
رات کی تنہائی نے اس پر غور و فکر کے دروازے کھول دیے۔ اس نے کاغذ قلم پکڑا اور لکھنا شروع کردیا:
’’ایسا کیوں ہے؟ مجھے دیکھنا چاہیے کہ بچی کیوں ناراض ہے؟ میں روز اس کی پسند کی چیزیں کیوں نہیں بناتی؟ یہ سبزیاں کسی ایسے طریقے سے کیوں نہیں بناتی جو اس کو پسند آئیں؟
میاں صاحب گھر میں آکر کیوں تلملا اٹھے؟ شاید کھلونے اکثر ان کے پاؤں کے نیچے آتے ہوں گے!!! گھر کا صاف ستھرا ماحول ان کا استقبال نہیں کرتا۔ مجھے ان کے آنے سے پہلے سارے کام نمٹانے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ٹائم ٹیبل پر غور کرنا چاہیے۔ مجھے شاید زیادہ چستی اور تندہی سے کام کرنے چاہئیں۔ اگر ایسے ہوتا تو شاید اسٹیکرز بھی صاف کرچکی ہوتی۔ مجھے یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ میں ان کے آنے سے پہلے خود کا حلیہ ٹھیک کرلوں۔ جب یہ سب کرلوں گی تو میرے میاں کے اندر کتنا اعتماد آئے گا۔ مجھے دیکھ کر انہیں خوشی ہوگی۔‘‘
وہ کاغذ پر اپنے دل کے جذبات اور احساسات نقل کرتی گئی۔ وہ جیسے جیسے لکھتی گئی اس کے اوپر اس کے راز افشا ہوتے گئے۔ دل کی ساری بے چینی دور ہوگئی۔ بنتے ٹوٹتے بلبلے بادل بن کر اڑ گئے۔ فجر کا وقت ہوچکا تھا، وہ دوبارہ اٹھی اور فجر کی نماز ادا کی۔ وہ رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئی۔ اِس دفعہ سجدہ، سجدۂ شکر تھا۔ وہ اپنے رب کی احسان مند تھی جس نے اسے تاریک شب میں روشنی کی کرن دکھا دی… وہ کرن جو اس کی ذات میں چھپی ہوئی تھی لیکن وہ اسے سارے جہاں میں تلاش کررہی تھی۔ دعا کے ہتھیار سے مدد لو، سارے کام خودبخود آسان ہوجائیں گے۔