میرا نام مریم ہے

618

فارحہ شبنم (کینیڈا )
’’میری این! تم تو چھپی رستم نکلیں۔ کمال ہی کردیا۔ ہم تو سمجھے تھے بس جمناسٹک میں ہی تمھاری پوزیشن آئے گی، مگر تم تو اکیڈمکس میں بھی ہم سب سے آگے نکل گئیں‘‘۔ کلاس مانیٹر گیبریلا نے اچانک پیچھے سے میرے کندھے کو ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے سے مجھے اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہ جیلس ہورہی ہے یا واقعی دل سے میری کامیابی کی معترف ہے۔ میں نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ جمناسٹک میں تو میں قدرتی طور پر ہی گفٹڈ تھی، البتہ پڑھائی اِس دفعہ واقعی میں نے بہت دل لگا کر کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر رزلٹ میری توقع سے بھی کہیں زیادہ اچھا آگیا تھا اور میں خود بھی کسی حد تک شک اور خاصی حد تک شاک میں تھی۔ یادوں کا آنگن جب بھی مجھے اپنی طرف کھینچے تو ماضی کے جھروکوں سے مجھے یہی دن سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ نہ صرف میرا اسکول میں گریڈ ایٹتھ کا آخری دن تھا بلکہ شاید خوشی، اطمینان اور لاپروائی کے امتزاج سے بھری میری ابتدائی زندگی کا آخری سنگِ میل بھی۔ کوریڈورز میں ہر طرف رنگین جھنڈیوں اور ربن سے آرائش کی گئی تھی۔ سب کے چہروں پر مسرت کی دمک تھی۔
میں بھی بہت خوش تھی کیونکہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں میری نمایاں پوزیشنز آئی تھیں اور میری ساری دوستیں مجھ پر رشک کررہی تھیں۔ جبکہ کچہ دوسری لڑکیاں ایسی بھی تھیں جو حسد کی آگ میں جل رہی تھیں۔ جمناسٹک میں میری کارکردگی دیکھ کر تو میری انسٹرکٹر مجھے نیشنل لیول کے مقابلوں میں بھیجنے کا پلان کر بیٹھی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں مزید محنت کروں تو اگلے دو ایک برسوں میں اولمپک کے بین الاقوامی مقابلوں میں چیک ری پبلک کی نمائندگی کرسکتی ہوں۔ دوسری طرف میں اب لمبی چھٹیوں میں مطالعہ کا سارا شوق پورا کرنا چاہتی تھی۔ بابا کی لائبریری میں زمین سے چھت تک لگے دیوارگیر شیلف اور اس میں سے جھانکتی موٹی جلد والی بھاری بھاری کتابیں ہمیشہ مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں، لیکن بابا کا کہنا تھا کہ میں اسکول کی چھٹیوں کے بعد ہی اس میں قدم رکھ سکتی ہوں ورنہ میرا پڑھائی کا ہرج ہوگا۔ مجھے اور بابا کو کہاں علم تھا کہ میری اپنی قسمت میں آگے اتنا کچھ لکھا ہے جس کو پڑھتے اور برتتے میں ایک نئی اور انوکھی رہ گزر کی آبلہ پا مسافر بن جاؤں گی۔
’’مریم! مریم ڈئیر! کن سوچوں میں گم ہو؟ ذرا نیچے تو دیکھو۔ دریا کا جھلملاتا پانی کس قدر خوبصورت دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ اچانک سعد کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اور میں چونک گئی۔ وہ میری توجہ تقریباً ساٹھ میٹر نیچے دور بہتے دریا کی طرف دلا رہے تھے۔ میں بے دھیانی کے عالم میں صرف گردن ہلا کر رہ گئی۔ میری این سے مریم تک کے سفر نے میری زندگی کو کس قدر بدل کر رکھ دیا تھا… بالکل ایسے ہی جیسے اس وقت سعد کے ساتھ فیرس وہیل پر بیٹھ کر اوپر پہنچتے ہی ایسا لگا گویا میں کسی اور ہی دنیا کا حصہ ہوں جہاں میرے سب سے زیادہ اپنے اور ہرہر پل کے ساتھی سعد بھی پرائے سے لگ رہے تھے۔
جی ہاں، اب میرا نام مریم ہے۔ مریم مارکوویس۔ اگر آپ کو انزلیکا اور مہرالنساء کی کہانی اچھی لگی تو یقینا میری کہانی بھی پسند آئے گی۔ میں عمر میں ان دونوں سے بہت کم سن اور کینیڈا سے بہت دور تھی جب اللہ نے ہدایت کی طرف مجھے راغب کیا اور اس کے نور سے میرے دل کو روشن کیا۔ اتنا زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا لیکن سوچوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نے ان پانچ برسوں میں پچاس سال گزار لیے ہوں۔ اپنا رہن سہن، محبت کرنے والے ماں باپ، جان چھڑکنے والا بھائی، اپنے رشتے دار، زبان، اپنا ملک… سب کچھ چھوڑ کر ایک نئے اور انجان ملک میں بسنا میرے لیے ایک انتہائی کٹھن اور کسی حد تک حوصلہ شکن مرحلہ تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ ارے آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ میں نے اردو بو لنے والوں کے ساتھ رہتے رہتے اردو بولنا سیکھ لی ہے۔ جی نہیں۔ مجھے سعد کے ساتھ رہتے دو سال سے زیادہ ہورہے ہیں مگر ابھی تک مجھے اردو کی شدبد تک نہیں ہوئی۔ سچ کہوں تو شاید میں نے کوئی خاص کوشش ہی نہیں کی۔ اصل میں سیکھنے کو اتنی ساری چیزیں ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری۔ بس زندگی بگٹٹ بھاگتی جارہی ہے اور میں اس میں سے چن چن کر ایسے لمحے کشید کرنے کی انتھک کوشش میں لگی ہوں جن کے بل پر میں فخر سے قیامت کے روز نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور یسوع مسیح کے سامنے حاضری دے سکوں۔
اسکول کی چھٹیاں شروع ہوئیں تو دو تین دن تو میں نے لگ کر خوب آرام کیا اور نیندیں پوری کی۔ کمرے میں دبیز پردوں نے مستقل اندھیرا کرکے دن میں بھی رات کا ماحول بنایا ہوا تھا۔ کسی وقت بھوک سے آنکھ کھلتی تو فریج سے کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر پیٹ بھر لیتی اور پھر سو جاتی۔ اس دوران پیٹرک دن میں کئی دفعہ جھانکتا کہ میں اٹھی ہوں تو باہر آکر ساتھ بیٹھوں۔ کبھی کبھار غنودگی میں مجھے اس کے پکارنے کی آواز بھی سنائی دیتی ’’میری این! کتنا سوئو گی؟ میرے جانے کے دن قریب آرہے ہیں اور تم سونے کے سوا کچھ نہیں کررہیں‘‘۔ کبھی وہ ماما کو کھینچ کر میرے دروازے پر لاتا اور کہتا ’’ما م! اس کو اٹھائیں ناں، یہ تو بے ہوش لگ رہی ہے‘‘۔ لیکن ماما میری نیند اور مزاج کے بارے میں جانتی تھیں، لہٰذا اس کو تسلی دیتیں کہ سب ٹھیک ہے، ایک آدھ دن میں روٹین سیٹ ہوجائے گی۔ دراصل مجھے اس کے ساتھ بیٹھنے میں قطعی کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔ ساتھ بیٹھنے میں ہمارا صرف جھگڑا ہی ہونا تھا۔ جبکہ میں ابھی سکون سے سونا چاہتی تھی۔ مجھے ہر وقت تنگ کرنا پیٹرک کی پرانی عادت تھی۔ اور جب میں ماما سے شکایت لگاتی تو وہ میرا مذاق اڑاکر اور چڑاتا تھا۔ اور ماما… ماما میری بات سمجھنے کے بجائے کہتیں کہ بھائیوں کا پیار ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان باتوں پر ضد اور غصے میں آکر بعض اوقات پورا پورا دن میرا موڈ خراب رہتا۔ پھر وہ مجھے منانے کے لیے آگے پیچھے پھرتا، مگر میں کئی کئی دن اس سے بات نہ کرتی تھی۔ البتہ جب سے اس نے پراہا یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا گھر میں سکون سا ہوگیا تھا۔ ان دنوں وہ صرف دو ہفتے کی چھٹی پر پراہا سے برنو آیا ہوا تھا جن میں سے اب صرف آٹھ نو دن باقی رہ گئے تھے۔ بالآخر میں چوتھے دن اپنی ساری تھکن اور سستی دور کرنے کے بعد بروقت ناشتے کی ٹیبل پر تھی۔
’’ارے واہ… میری بیٹی کی شکل بھی نظر آئی!‘‘ بابا کا چہرہ مجھے دیکھ کر چمک اٹھا۔ ناشتے کے دوران انہوں نے بتایا کہ میری اسپورٹس کی ٹیچر نے خود فون کرکے میرے لیے ان سے سفارش کی تھی۔ پراہا میں جمناسٹک ٹریننگ کا بڑا ادارہ ہے جہاں میری ٹیچر مجھے بھیجنا چاہ رہی تھیں، لیکن میں اپنی ماما اور بابا سے دور رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس لیے فی الحال تو میں نے بابا سے بہانہ کردیا کہ ابھی مجھے سوچنے کے لیے وقت چاہیے۔
اس دفعہ پیٹرک کا رویہ مجھے خلافِ معمول کافی بہتر محسوس ہوا۔ اگلے کئی دن وہ تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی آئس کریم یا فاسٹ فوڈ کی شاپ ڈھونڈ کر اصرار کرکے مجھے لے جاتا۔ ہم شاید شہر کی ساری بڑی شاپس پر جا چکے تھے۔ خوب گپ شپ رہتی۔ چھٹیوں کا پہلی مرتبہ صحیح لطف آرہا تھا۔ اب مجھے افسوس ہورہا تھا کہ بلاوجہ تین دن سونے میں ضائع کیے۔ وہ اس دفعہ اپنے وقت کو بھرپور استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔ لگتا تھا کہ دور رہ کر اس کو میری قدر آگئی تھی۔ یا پھر… یا پھر دل میں چھپی بات کہوں تو شاید میں ہی کچھ میچور ہوگئی تھی۔
اس دن ہم گھر سے ذرا جلدی نکلے تو ہمارے پاس وقت زیادہ تھا۔ پیٹرک کی خواہش پر ہم نے پہلے کیتھڈرل آف سینٹ پیٹر اینڈ پال جانے کا پلان کیا۔ ماما اور بابا کو بھی ساتھ چلنے کو کہا، مگر ان کی کہیں اور مصروفیت تھی۔ یہ تاریخی کیتھڈرل ہمارے گھر سے کوئی زیادہ دور نہ تھا، مگر اتفاق سے یہ پہلا موقع تھا کہ میں وہاں جا رہی تھی۔ اس کو دیکھنے کے لیے چیک ری پبلک سے ہی نہیں، پورے یورپ سے ٹورسٹ آتے تھے۔ کیتھڈرل کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ یہ گیارہویں یا بارہویں صدی میں شہر کے وسط میں واقع پیٹرو پہاڑی کی چوٹی پر بنایا گیا تھا اور اسی لیے شہر کے تقریباً ہرحصے سے نظر آتا تھا۔ زمانے کے مدوجزر کا شکار ہونے کے سبب انیسویں صدی میں اسے نئے سرے سے گوتھک طرز کی نقل پر تعمیر کیا گیا۔ جیسے جیسے ہم عمارت کے قریب جا رہے تھے دل میں اس کی شان و شوکت، رعب و دبدبے اور ہیبت کا ملا جلا احساس پیدا ہورہا تھا۔ انتہائی طویل القامت مینار، رنگین گلاس پر مشتمل قدآدم سے کہیں اونچی اور بڑی کھڑکیاں، طویل راہداریوں کے درمیان کشادہ محرابیں اور ان پر آراستہ چھوٹے بڑے مجسمے اور دیگر آرائشی نمونے نگاہ و دل کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ اے سی کی ٹھنڈک سے چھائی ہوئی خنکی مجھے اپنے جسم میں سرایت کرتی محسوس ہورہی تھی۔ موسم کی گرمی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہاں کے لیے لباس کے اوپر کوئی اضافی گرم کپڑا نہ لیا تھا اور اب اس فیصلے پر افسوس کرتے ہوئے میں اپنے ٹھنڈے ہاتھوں اور بازوؤں کو رگڑ کر گرم کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ البتہ میرے اردگرد زائرین بڑی عقیدت اور دلچسپی سے اردگرد دیکھنے اوریادگاری تصاویر بنانے میں مگن تھے۔ تاریخ کے نشیب و فراز سے گزر کر یہ کیتھڈرل آج بھی اپنی جگہ کھڑا تھا اور برونو کی تاریخ اور اس کے باسیوں کی پہچان بنا ہوا تھا۔ اونچائی سے دیکھنے پر شہر کا بڑا خوبصورت منظر دکھائی دیتا تھا۔ اردگرد کی عمارتوں کی سرخ چھتیں، سانپ کی طرح بل کھاتی سڑکیں، ان کے کنارے ایستادہ سرسبز درخت، اور درمیان میں موجود میدانوں سے گھرا اپنا شہر اتنا خوبصورت دِکھتا تھا کہ پہچاننا مشکل تھا۔ اس کیتھڈرل کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں دوپہر کا گھنٹہ بارہ کے بجائے گیارہ بجے بجایا جاتا ہے۔ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ سترہویں صدی میں سویڈن نے یہاں حملہ کیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا۔ جب محاصرہ طول کھینچنے لگا تو انہوں نے طے کیا کہ 15 اگست کو دوپہر بارہ بجے تک اگر وہ شہر کو فتح نہ کرسکے تو واپس لوٹ جائیں گے۔ گھمسان کی جنگ کے دوران کچھ ہوشیار شہریوں نے چالاکی سے کیتھڈرل کا گھنٹہ بارہ کے بجے گیارہ بجے ہی ہلا دیا اور حملہ آ ور فوج کو بے وقوف بنا کر خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کردیا۔ اس دن کی یاد میںآج بھی یہاں گیارہ بجے ہی دوپہر کا گھنٹہ بجا دیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ