ارم فاطمہ
دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ عبدالرحمن ابھی تک اسکول سے نہیں آیا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہیں تھیں کہ بیل بجی۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو عبدالرحمن جلدی سے گھر میں داخل ہوا اور بیگ صوفے پر رکھ کر جلدی سے کچن کی جانب گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کبوتر تھا جو زخمی تھا۔ انہیں دیکھتے ہی کہنے لگا ’’امی جلدی سے ہلدی پانی میں ملا کر دے دیں۔ اسے لگانا ہے تاکہ یہ جلدی سے ٹھیک ہوجائے۔ میں اسکول سے گھر آرہا تھا تو دیکھا گلی میںبلی اس پر جھپٹی اور اسے زخمی کردیا۔ میں اسے بلی سے بچاکر لایا ہوں‘‘۔
عبد الرحمن کو بہت فکر ہورہی تھی۔ نہ کھانے پینے کا خیال تھا اور نہ ٹیوشن جانے کی جلدی۔ امی ہلدی، پانی لائیں۔ اس نے ہلدی کبوتر کے پروں پر مرہم کی طرح لگائی اور پھر اس پر کپڑا باندھ دیا۔ مسز اسد اپنے بیٹے کو دیکھ رہیں تھیں۔ وہ بہت حساس تھا کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔کبھی بلی کے بچے کو دودھ پلا رہا ہوتا۔ چڑیوں کو صبح شام دانہ ڈالا کرتا تھا۔ کبھی کسی بزرگ کو سڑک پار کرارہا ہے۔کہیں بھی کسی کی مدد کرنے کا موقع ہوتا، وہ کبھی پیچھے نہیں رہتا تھا۔ایک دن 4 سال کے بچے کو ساتھ لے آیا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ امی سے کہنے لگا ’’یہ اسکول کے باہر ہر کسی سے التجا کررہا تھا کہ اسے بھوک لگی۔ کوئی اسے کھانا کھلا دے۔ میں اسے ساتھ لے آیا‘‘۔مسز اسد کو اپنے بیٹے پر فخر تھا۔
اس دن وہ اسکول سے گھر آرہا تھا۔ اس نے دیکھا مسٹر زبیر گاڑی میں بیٹھنے لگے تھے کہ نہ جانے کہاں سے دو لڑکے بائیک پر تھے، ان کے پاس آکر رکے اور ان سے گاڑی کی چابی چھیننے لگے اور اس کے بعد موبائل اور والٹ بھی مانگا۔ گلی سنسان تھی ، مسٹر زبیر پریشان ہوگئے کہ اب کیا کریں؟ عبدالرحمن بھی سوچنے لگا وہ ان کی کیسے مدد کرے۔ اس نے گلی کی دیوار کے پیچھے چھپ کرسیٹی بجانی شروع کردی۔بالکل ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی کانسٹیبل کسی مجرم کے پیچھے بھاگ رہا ہو۔ وہ لڑکے گھبرا گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ دوڑتا ہوا مسٹر زبیر کے پاس پہنچا ۔ وہ لڑکے بس موبائل ہی لے سکے تھے۔ انہوں نے عبدالرحمن کو گلے لگا کر شاباش دی کہ اس نے انہیں لٹنے سے بچالیا۔ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ کو بہت پسند آتیں ہیں اور وہ ان کا صلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور دیتے ہیں۔
عبدالرحمن کو بھی اس کی رحم دلی سے کی گئی نیکیوں کا صلہ ملا ۔ اس نے رب کا بے انتہا شکر ادا کیا۔ایک مرتبہ یوں ہوا کہ رات کو جب سب لوگ کھانا کھانے کے بعد خبریں سن رہے تھے تو اچانک اسد صاحب کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ وہ دل پہ ہاتھ رکھے درد محسوس کررہے تھے۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے کہ انہیں اسپتال کیسے لے کر جائیں۔ عبدالرحمن گھر سے نکلا اور زبیر صاحب کے گھر کی بیل بجانے لگا کیوںکہ وہی اس کے ابو کو گاڑی میں اسپتال لے جاسکتے تھے۔ عبدالرحمن کے بتانے پر انہوں نے جلدی سے گاڑی نکالی اوراسد صاحب کو اسپتال لے کر بھاگے۔ وقت پر ڈاکٹر کی طبی امداد نے اسد صاحب کی جان بچالی۔
وہ سبھی زبیر صاحب کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے۔ وہ کہنے لگے ’’ یہ عبدالرحمن کی وجہ سے ممکن ہوسکا اگر یہ اس دن لڑکوں سے مجھے لٹنے سے نہ بچاتا تو آج میرے پاس یہ گاڑی نہ ہوتی اور نہ میں انہیں بروقت ڈاکٹر کے پاس لے آتا‘‘۔واقعی اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے ۔اس دن عبدالرحمن میرے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا آج مجھے اس کی کی گئی نیکی کے بدلے نیکی کرنے کا موقع ملا۔ عبدالرحمن بھی سوچنے لگا یہ اللہ کی طرف سے رحم دلی کا انعام ہے۔