تمغہ زراعت

341

زاہد عباس
حضرات گمشدگی سے متعلق ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے ایک صاحب جن کا نام اسلم پرویز اور والد نام اکرم پرویز ہے عمر تقریباً 47سال ہے گزشتہ تین روز سے لا پتا ہیں جن صاحب کو بھی ان کے بارے میں کو ئی معلومات ہو یا اسلم پرویز مل جائیں تو برائے مہربانی محبت نگر محلہ امن پورہ میں پہنچا دیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی،اعلان ایک مرتبہ پھر سماعت کر لیجیے۔
محلے کی مسجد سے ہوتے اس اعلان کو سنتے ہی اکرم بھائی نے مسجد کی جانب دوڑ لگا دی مسجد کے مرکزی دروازے پر پہنچتے ہی اس سے پہلے کہ وہ اعلان کرنے والے شخص کو تلاش کرتے ان نظر سامنے کھڑے اپنے بارہ سالہ پوتے فرقان پر جا ٹھہری دادا کو مسجد کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر فرقان کے تو جیسے دکھوں کا مداوا ہو گیا ہو،یا پھر کروائے جانے والے اعلان کا جیسے نتیجا آ گیا ہو اس کے نزدیک دادا کا یوں مسجد تک آنا اس بات کی دلیل تھا کہ اس کی جانب سے اعلان کی صورت میں والد کی گمشدگی پر دیا جانے والا پیغام سارے ہی محلے میں پھیل چکا ہے،اسے اس بات کی کوئی پروا نہ تھی کہ اس کو اس حرکت پر اپنے دادا کے کس قدرغضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،چونکہ اکرم بھائی نے مسجد میں فرقان کو دیکھ لیا تھا اس لییاعلان کروانے والوں کی کھوج لگانا بے معنی تھا،اب ان کے سامنے ساری حقیقت عیاں ہوچکی تھی اکرم بھائی بات کی تہہ تک پہنچتے ہی فرقان کو کان سے پکڑ کر گھر کی جانب لے گئے،
گمشدہ بیٹے اسلم کے غم سے نڈھال اکرم بھائی گھر پہنچتے ہی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور پوتے کو گلے لگا کر آبدیدہ ہوگئے اس منظر کو دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار تھی فرقان کی چیخوں سے اٹھتی،میرے بابا کہاں ہیں میرے بابا کہاں ہیں کی صدائیں ماں کے کلیجے میں برچھی بن کر پیوست ہو رہی تھیں نظر سے محروم دادی اپنے پوتے کو تسلی دینے کی خاطر گھر کی دیواروں سے ٹکراتی رہیں جبکہ بھائی کے ساتھ کھڑی چھوٹی بہنیں اپنے گمشدہ والد کے لیے خیرو عافیت کی دعائیں کر رہی تھیں،
دادا کی جانب سے بار بار مسجد سے کروائے جانے اعلان سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پر فرقان نے خود کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا،
دادا جان جب اکبر خالو کا بیٹا گم ہو گیا تھا تو مسجد سے ہی اعلان کروانے پر مل گیا تھا مسجد سے اکثر گمشدگی سے متعلق اعلانات ہوتے رہتے ہیں میرے بابا بھی تو گم ہو گئے ہیں اس لیے میں نے بھی اعلان کروا دیا،
نہیں نہیں بیٹا تمہارے بابا گم نہیں ہوئے وہ تو لاپتا ہیں اور لاپتا افراد کو تلاش کرنا آسان نہیں ہوتا ایسے افراد کا سراغ لگا بھی لیا جائے ہمارے لیے تب بھی وہ لاپتا ہی رہتے ہیں ان کے لیے بس دعائیں ہی کی جاسکتی ہیں تم بھی دعا کرو کہ تمہارے بابا خیریت سے گھر واپس آجائیں،
دادا جان کیا بابا کا پتا چل گیا ہے؟
ہاں بیٹا بس تم دعا کرو اور یقین رکھو کہ اللہ سب ٹھیک کر دے گا،
بتائیں دادا بابا کہاں ہیں
بیٹا بابا کو محکمہ زراعت والے لے گئے ہیں
محکمہ زراعت والے مگر کیوں؟
بیٹا اس بات کی تو ہمیں بھی خبر نہیں کہ کیوں لے گئے ہیں لیکن خبر یہی ہے کہ وہ محکمہ زراعت کے پاس ہیں،
لیکن دادا اس محکمے کے لیے تو اپ نے اور بابا نے خاصے کام کیے ہیں مجھے اب تک یاد ہے کہ آپ دونوں ایک عرصے تک اس محکمے کے ساتھ مل کر بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور نئی فصلوں کی بوائی سمیت ننھے پودوں کی نگہداشت کے عمل کی نگرانی کرتیرہے ہیں،اتنا سب کچھ کرنے پر تو تمغہ زراعت ملتا ہے لیکن آپ کہہ رہیں ہیں کہ بابا ان کے پاس ہیں،
بیٹا میں نے تو کہا ہے کہ بس دعا کرو
داداجان پلیز مجھے کھل کر بات بتائیں آخر مسئلہ کیا ہے کیا بابا ان لاپتہ افراد میں شامل تو نہیں جن کا ذکر اکثرکیا جاتا ہے میرا اشارہ ان افراد کی طرف ہے جن کی مائیں اپنے بچوں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں،
نہیں نہیں بیٹا خدا خیر کرے تم اپنے ذہن کو نہ الجھاؤ تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے بابا ایک باہمت اور محب وطن شہری ہیں جس کی حب وطنی پر کوئی شک نہیں کر سکتا پہلے بھی ملک و قوم کی خاطر ہر امتحان کا سامنا کیا ہے اور آج بھی اس مٹی سے محبت کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں وطن کے ایسے سپاہیوں کا کوئی بال بھی بیکانہیں کر سکتا ان شاء اللہ ہر میدان کی طرح یہاں بھی فتح حق اور سچ کی ہی ہو گی اور تمہارے بابا ضرور سرخرو ہوں گے،
دادا جان لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا آخر کب تک عوام کو خام مال سمجھا جاتا رہے گا کب تک غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ان کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل کیا جاتا رہے گا
بیٹا میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تم اپنے ذہن میں آنے والے سوالات کو جھٹک دوں اس عمر میں اس طرح کی سوچ اچھی نہیں ہوتی تم ان باتوں پر توجہ دینے کے بجائے چھوٹی بہنوں کی حوصلہ افزائی کرو باقی کے معاملات اللہ پر چھوڑ دو بے شک وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے،
دادا جان بے شک میں بھی اسی ذات سے ہی مدد کا طالب ہوں سب کچھ اسی پرہی چھوڑ رکھا ہے پر میں کیا کروں ان حالات میں میرے زہن میں ابھرتے خیالات اور سوالات پر میرا اختیار نہیں جس کا بابا لاپتا ہو اس کے زہن کا منتشر ہو جانا اچھنبے کی بات نہیں اس کی سوچ پر پہرے نہیں بیٹھائے جاسکتے ایسی سوچ بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتی ہوئی کسی بھی سمت جاسکتی ہے اور شاید یہ ہی وہ عوامل ہیں جو کسی بھی محب وطن شہری کی حب وطنی کے لیے بڑا چیلنج ہوا کرتے ہیں،میرے سر پر تو آپ جیسے بزرگ کا سایہ ہے اس باوجود میں خود کو اکیلا محسوس کر رہا ہوں ان کا کیا جن کیگھر کا واحد سہارا بھی لاپتا ہے،دادا جان میں آئے دن لاپتا افراد کے بارے میں پڑھتا رہتا ہوں مجھے خبر ہے کہ معزز عدالت کے حکم کے باوجود پچھلے کئی برسوں سے یہی کچھ سننے اور دیکھنے کو مل رہا میں نے ٹیلی ویڑن پر بہت سے ایسے خاندانوں کو روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا ہے جن کے گھر کے جیتے جاگتے افراد کو اْٹھا کر غائب کر دیا گیا۔ اور کیا جا رہا ہے اور گمشدہ افراد کو ایک بار دیکھنے کی آرزو لیے ورثاء کو روتے ہوئے دیکھا مگر اربا ب اختیار سمیت کسی بھی حکومتی شخصیت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔دادا جان مجھے یاد ہے کہ لاپتا افراد سے متعلق دکھائے جانے والے ٹی وی پروگرام میں ایک گمشدہ شخص کے گھرانے کی خاتون بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے لاوارث ہو گئے ہیں۔ ہمیں کوئی روٹی کا لقمہ کھلانے والا نہیں ہے، ہم در بہ در ہو کر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، بچوں کو کیا بتاؤں ہمارے ساتھ کون یہ ہاتھ کر گیا ہے اور کون ظالم ہمارے سر سے سایہ ہٹا گیا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ اس کی باتیں سن کرمجھے دلی صدمہ ہو رہا تھا مجھے اس بات کا احساس تھا کہ کٹھور آدمی بھی اس عورت کا دکھ محسوس کر رہا ہوگا اور اسی طرح بلک بلک کر رو رہا ہو گا جس طرح وہ عورت رو رہی تھی دادا جان اگر اسی طرح ہونا ہے تو پاکستان میں عدالتوں کا نظام قائم ہی کس لیے کیا گیا ہے اگر عدلیہ کے کسی حکم پر عمل نہیں کرنا تو کیا فائدہ کیا مذاق ہے؟ یہ ظالم محکمہ زراعت جیسے نادیدہ ہاتھ آخر کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا آسمان سے ان کے لیے کوئی گرفت اُترے جو ان کی گردنیں دبوچے ،دادا جان میں یہ بھی جانتا ہوں کہ گھر کے کفیل کے پیچھے کھانے والے تین چار افراد ہوتے ہیں۔ اگرکمانے والے کو کچھ ہو جائے تووالدین سمیت آٹھ دس افراد تک کا ایک پورا گھرانہ تباہ ہوجاتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر باری تعالیٰ کے عرش کو ہلا دینے کے لیے مظلوم تو ایک بھی بہت ہوتا ہے، پھر کیوں یہ لوگ اتنے سارے ایسے لوگوں کی صفیں باندھتے اور بناتے جارہے ہیں جو جھولیاں اُٹھا اٹھا کر ان کی تباہی اور بربادی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ اللہ کسی دشمن کو بھی ان کے پیاروں کی جدائی کا دکھ نا دے، کاش یہ لوگ اتنی سی بات سمجھ جائیں کہ پاکستان لاالہ اللہ کے نعرے پر وجود میں آیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں صرف ایک خدا کی کارفارمائی ہوگی مگر یہاں خدا کے بندے خدا بنے بیٹھے ہیں اور ہم جیسے عوام پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم کس سے فریاد کریں دوسری طرف مجبور اور بے بس انسانوں کا ہمدرد اور غم خوار آئین کا رکھوالا چیف جسٹس بھی لا پتا افراد کے بارے میں آہ پکار کررہا ہے ، میری ایک چھوٹی سی نصیحت ارباب اختیارکے لیے ہے کہ تم ان لا پتا افراد کے ورثاء کا نہیں اپنے خالق کا صبر آزما رہے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کے نتیجے میں تمہاری دراز کی گئی رسی کھینچ لی جائے اور تمہیں اللہ کی وہ گرفت آن پکڑے جس سے نجات نا ممکن ہے دیکھو سمجھ جاؤ اس سے پہلے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔

حصہ