دنیا و آخرت کا حسین امتزاج

766

ڈاکٹر صفدر محمود
بلاشبہ اللہ پاک کی مخلوق میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اردگرد نگاہ ڈالیں تو اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جنہیں صرف دنیا عزیز ہے۔ وہ ہر وقت متاعِ دنیا اکٹھی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اُنہیں آخرت کا احساس ہے نہ مال جمع کرنے سے فرصت۔ عام مزدور سے لے کر کارخانہ دار تک مال بنانے کے لیے جھوٹ بولنے، بے ایمانی کرنے اور ضرورت پڑنے پر دھوکا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسری طرف ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو دن رات صرف آخرت کمانے اور رضائے الٰہی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو روحانی بالیدگی کے حصول کے لیے دنیا کو تقریباً ترک کرچکے ہیں۔ وہ اپنی ہر ضرورت کے لیے اپنے خالقِ حقیقی کی طرف دیکھتے ہیں، فاقہ کشی اور عسرت میں بھی نہ مایوس ہوتے ہیں نہ ہی بدظن۔ صرف دنیا اور صرف آخرت چاہنے والوں کے درمیان ایک قلیل مگر ممتاز تعداد ایسے حضرات کی بھی ہے جو دونوں جہانوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں دنیا بھی سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھی سرخروئی کے لیے نیک اعمال کرتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مشہور دعا یاد کیجیے جسے طوافِ کعبہ کے دوران رکنِ یمانی سے لے کر حجراسود تک پڑھا جاتا ہے۔ دعائے ابراہیمی دنیا اور آخرت کا حسین امتزاج ہے کہ اے رب! میری دنیا بھی سنوار دے اور آخرت بھی سنوار دے۔ مجھے جہنم کی آگ اور قبر کے عذاب سے بچا لے۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کوئی بہت بڑا عالم دین، فقیہ، حافظِ قرآن اور امام ہونا ضروری نہیں۔ ایک عام معمولی انسان سے لے کر بڑے ’’آدمی‘‘ تک کوئی بھی رضائے الٰہی حاصل کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ اسے خلوصِ نیت سے اپنا مطمح زندگی یا مقصدِ حیات بنائے اور ایسے اعمال کرے جن سے رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے، اور ایسے اعمال سے دور رہے جن سے اللہ پاک کی ناراضی کا اندیشہ ہوتا ہے۔
مجھے مولانا مودودیؒ جیسے عظیم عالم و فاضل اور مفسرِ قرآن کی ایک بات یاد آرہی ہے، جو آج کل سوشل میڈیا پر بھی گردش کررہی ہے۔ ایک بار کسی نے مولاناؒ سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی کسی ولی اللہ کے نیاز حاصل ہوئے؟ آپ نے فوراً جواب دیا: ہاں بالکل، کچھ روز قبل میں ریل میں سفر کے بعد لاہور اسٹیشن پر اترا، سامان قلی کو دیا اور اسٹیشن سے باہر آکر جب قلی کو میں نے سرکار کی مقرر شدہ مزدوری سے کچھ زیادہ پیسے دیے تو اس نے فوراً زائد رقم واپس کردی اور کہا میں وہی مزدوری لوں گا جو مقرر شدہ ہے۔ وہ ولی اللہ تھا۔ ذرا غور کیجیے مولانا مودودیؒ نے اُسے ولی اللہ کیوں کہا۔ اوّل: اس لیے کہ غربت کے باوجود اُس کا قلب حُبِّ مال اور لالچ سے پاک تھا۔ دوم: وہ مزدوری کرکے رزقِ حلال کما رہا تھا۔ سوم: اپنے فرائض ایمان داری سے سرانجام دے رہا تھا۔ اسے آپ قناعت پسندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ دنیا کی محبت سے دل پاک کرکے قناعت قبول کرنا جہاد اور مجاہدہ ہے، اور یہ جہاد صرف رضائے الٰہی کے جذبے کی دین یا عطا ہوتا ہے۔ جس دل نے رضائے الٰہی کی خاطر اپنے آپ کو حُبِّ دنیا، بغض، نفرت، حسد اور غصے سے پاک کرلیا وہ ولی اللہ ہوگیا اور اللہ کا دوست بن گیا۔
گزشتہ دنوں میڈیا پر ایک افریقی ملک کے امام مسجد کے ایک سطری خطبۂ جمعہ کا بہت ذکر ہوا۔ دراصل یہ جمعہ کا خطبہ نہ تھا بلکہ خطبے سے قبل وعظ تھا۔ اُس امام نے وعظ کو ایک سطر میں بند کیا اور کہا کہ بھوکے انسان کو کھانا کھلانا مسجد بنانے سے بڑا کارِ ثواب ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ رضائے الٰہی کے حصول کا شارٹ کٹ مخلوقِ خدا کی خدمت ہے، چنانچہ میں اُن لوگوں کو عظیم سمجھتا ہوں جو مخلوقِ خدا کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ خدمت کے جذبے کے ساتھ ساتھ اگر رضائے الٰہی کی آرزو اور جذبہ بھی محرک ہو تو انہیں ولی اللہ سمجھتا ہوں۔
اس حوالے سے یہ خبر پڑھ کر مجھے قلبی مسرت ہوئی کہ گزشتہ دنوں ورلڈ اکنامک فورم نے ’’اخوت‘‘ کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کو عالمی ایوارڈ ’’شواب‘‘ سے نوازا۔ بے شک یہ ملک و قوم کے لیے ایک منفرد اعزاز ہے کہ جس ملک پر ہر طرف سے دہشت گردی کا کیچڑ اچھالا جا رہا ہے وہاں انسانی خدمت کے ایسے منصوبے اور ادارے بھی موجود ہیں جن کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ اس سے پاکستان کا ’’سافٹ امیج‘‘ ابھرنے اور ابھارنے میں مدد ملے گی۔ ورلڈ اکنامک فورم ایک اہم ادارہ ہے جس میں دنیا بھر کے لیڈران، معیشت دان، سرمایہ کار، اہم این جی اوز اور ممتاز اداروں کے سربراہ شرکت کرتے ہیں۔ اِس بار اِس میں دنیا بھر سے قریباً چھ سو وفود نے شرکت کی۔ انہوں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کے کارنامے پر حیرت کا اظہار بھی کیا اور خراجِ تحسین کے پھول بھی نچھاور کیے۔ سودی زنجیروں میں جکڑی دنیا حیرت میں گم ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بلاسود 61 ارب روپے کے قرضے دے کر کس طرح لاکھوں خاندانوں کو معاشی غم سے آزاد کیا اور اکثریت کو معاشی خوش حالی سے آشنا کیا۔ سود کے نظام میں جکڑے لوگ حیرت زدہ تھے کہ ان قرضوں کی واپسی سو فیصد ہے۔ سود اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے اور سود سے آزاد معاشی نظام متعارف کرانا نہ صرف ایک عظیم دینی خدمت ہے بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس سے قبل بہت سے عالمی اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔ وہ قوم کی مبارک باد کے حق دار ہیں۔ اگر بنگلادیش کے ڈاکٹر یونس کو سود کے ساتھ قرض دے کر عام لوگوں کی معاشی خدمت پر نوبیل پرائز مل سکتا ہے تو اِن شاء اللہ ایک دن یہ اعزاز پاکستان کے ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھی ملے گا۔ ان کا کارنامہ دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کا حسین امتزاج ہے۔ سبحان اللہ ذرا الفاظ کی گہرائی اور گیرائی پر غور کیجیے ’’جو شخص اللہ کے بندوں کے لیے خیر کا راستہ بناتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کی نسلوں میں خیر منتقل فرما دیتا ہے۔‘‘

حصہ